ڈاکٹر ریاض توحیدی(کشمیر)
دل مضطرب ہے ‘ آنکھ ہے نم‘ کیا کہے زبان
کچھ مشکلیں ہیں اور سمندر ہے درمیاں
شعری مجموعہ” سمندر ہے درمیاں“(ڈاکٹر ولاءجمال العسیلی مصر)کی نظموں کی قرا¿ت کے بعد جو تاثرات ذہن میں ابھرتے ہیں ‘ان کو اگر مختصر لفظوں میں پیش کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ نظمیں واقعی نم آنکھوں اور دلِ مضطرب کا تخلیقی اظہار ہے اور زندگی کے سمندر کی تلخ و شیریں یادوں کا بیان ’کہنے‘ کی بجائے لفظ و معنی کے حسین و دلکش شعری پیکر میں پیش ہوا ہے۔شاعری میں دل کی دھڑکن بھی ہوتی ہے اور دماغ کی ریاضت بھی۔ کسی بھی حساس شاعر کا دماغ جب دل کی بے قراری سے مضطرب ہوجاتا ہے تو اس کے احساسات وجذبات تخلیقی مرصع سازی کی فنی صنعت گری سے شعری پیکر میں ڈھل جاتے ہیں اور پھر یہ کلام اپنی جمالیاتی اثر انگیزی سے جمال احساس قاری کے دماغ کو بھی مسحور کرجاتا ہے۔ اس طرح سے فکر وسوچ کے اس عمل کا تخلیقی رشتہ انسان کی نفسیات سے جڑ جاتا ہے اور پھر شاعرکے نزدیک دل کی دھڑکن اور ڈھول کی تھاپ ایک ہی بن جاتی ہے۔اس دھڑکن کی بے قراری اور تھاپ کی آوا ز پر کون اپنے جذبات کو قابو میں رکھ سکتا ہے‘ جیسا کہ پیش نظر کتاب کی نظم ” دل دھڑکتا ہے“ کا یہ حصہ دیکھیں:
دل دھڑکتا ہے
دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے
دل کی دھڑکن اور ڈھول کی تھاپ ایک ہی ہے
اس پر کوئی اختیار نہیں
اسے روکنے کی کوشش
ایک ناکام کوشش
یہ دھڑکن اشد متاثر کرتی ہے
میری زندگی پر حاوی ہوتی ہے
دراصل دل کی دھڑکن کا زیروبم ہی جب دماغ کے تاروں کو چھیڑتا ہے تو ایک جینوئن تخلیق کار کا تخلیقی ساز ازخود بج اٹھتاہے اور پھر اس ساز کے مختلف سُر شعر وفکشن کے لفظی پیکر کے مختلف رنگوں میں سامنے آتے ہیں ‘جس کو ہم فنی تخلیقیت (Creative art) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ:
”On the text of life, art is the highlighter“
(زندگی کے متن (کتاب) میں فن ایک نمایاں پیش کار کی حیثیت رکھتا ہے۔)
لفظی پیکر کے ان مختلف رنگوں کا کینوس زندگی کے متنوع پہلوو¿ں پر پھیلا ہوتا ہے اور تخلیق کار حسبِ ذوق اپنی تخلیقات کو اس کینوس کی مختلف جہات کی تخیلی رنگ آمیزی سے بھر دیتا ہے۔لیکن یہ کسی منصوبہ بند ارادے سے نہیں ہوتاہے بلکہ اکثر جب کسی تخلیق کار کی فکر کسی تجربے یا مشاہدے سے متاثر ہوجاتی ہے تو پھر اس کی تخلیق بھی اسی قسم کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔اس تناظر میں دیکھیں تو پیش نظر مجموعہ کی تخلیق کار کی سوچ وفکراور خیال آفرینی کے متنوع تخلیقی رنگ ”سمندر ہے درمیاں“ میں شوخ انداز سے سامنے آتے ہیں۔ان تخلیقی رنگوں میں” عشق کا جنون“ بھی ہے اور”تاریک رات“ کے سیاہ بھیڑیوں کا ڈر بھی ۔ایک ”جادو گر“ کی دلفریب جادوگری بھی ہے کہ جس کے جادو میں دل کے مرض کی دوا بھی اور جس کو پانے کی حیات کو تمنا بھی ہے۔”ہمکلام ہوں خود سے“ کا وجودی کرب اور ”خوابوں کی دنیا“ کا رجائی احساس بھی ہے۔”مجھے ایک عورت ہونے پر ناز ہے“ جیسا فخر احساس پیام بھی اور ”محبت کا لبادہ زنجیر سے زیادہ“ کی تلخ وشیریں یادوں کا ہجوم بھی ہے۔عصری کرب کی ہولناک صورتیں ” ہولناکی ہمارے عہد کی “ اور ” معصوم انسانوں کا خون “کے خونین سیلاب کا غم بھی ہے۔ ”محبت کے نشے میں“ سیلاب عشق کی لہریں بھی ہیں اور”عشق کا دبیز پردہ“میں غم عشق میں سسکتی گھٹن زدہ زندگی بھی ہے۔ ”اے قدس“ میں بیت المقدس پر تاریخی نوعیت کی غم انگیز نوحہ خوانی بھی ہے اور”غلام کی روح“ کا کرب ریز خیال بھی ہے‘ موضوعات اور احساسات کا فینتسی نماخیال ” سمندر ہے درمیاں “ بھی ہے‘ جس میں خیالات کی کشتی سمندر کی فینتسی میں اسقدر ڈولتی رہتی ہے کہ ڈوبنے کا خطرہ ہونے کے باوجود خوابوں کی ایک حسین دنیا سجانے کی تمنا بھی ہے۔
شامل کتاب مذکورہ نظموں کے فنی اظہار اور موضوعاتی پیش کش پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے‘ تاہم زیر نظر مضمون میں چند ہی نظموں پر ارتکاز کیا جائے گا۔کسی بھی خطہ کی سیاسی یا سماجی صورتحال کو زیادہ تر اسی خطے سے تعلق رکھنے والا تخلیق کار بہتر اور موثر انداز سے تخلیق کا حصہ بنا سکتا ہے‘ جیسے کشمیر یا فلسطین‘عراق یا افغانستان وغیرہ جگہوں سے تعلق رکھنے والے قلمکاروں کی تحریرمیں موضوعاتی سطح پر جو تخلیقی اصلیت (Creative Originality) کا لمس موجود ہوگا وہ شاید اس قلمکار کی تحریر ‘جو اس نے ان جگہوں سے متعلق لکھی ہو‘میں نظر نہیں آئے گا جو کسی اور جگہ کا رہنے والا ہو اور ہاں کبھی کبھی مشاہدہ‘ مطالعہ یا تجربہ کی بناءپر کوئی دوسرے خطے کا قلمکار بھی کسی بھی موضوع کو بہتر ڈھنگ سے فنی قالب میں ڈال سکتا ہے‘ نہیں تو عام طور جب کسی کی تحریرمیں کسی غیر جگہ یا علاقے کو موضوع بنایا گیا ہو تو اس میں زیادہ تر موضوعاتی سطحیت (Content Shallowness) کا نظر آنا فطری تجربہ ہے۔پیش نظر مجمو عہ کی ایک نظم”اے قدس“ میں ارض قدس کے تاریخی جبر اور جابرانہ قبضہ سے اسے چھڑانے اور مسلم امہ خصوصاََ عربوں کی غفلت شعاری اور ان کی شرمناک مصلحت پسندی کو دل گیر اسلوب میں موضوع ِ گفتگو بنایا گیا ہے کہ کس طرح عرب کے لوگ اپنی خودداری اور شجاعت کو نیلام کرکے ارض قدس کی بازیابی کے حق سے دستبردار ہوگئے اور ان کے دل کس قدر سرد پڑگئے ہیں۔ مسئلہ فلسطین یا ارض قدس اگرچہ اقوامِ عالم کے لئے گلے کی ہڑی بنا ہوا ہے‘ تاہم طاقت کے نشے میں چور عیسائی اور یہودی اسے دینی ‘ تہذیبی اور سیاسی فتح سمجھتے ہیں نہ کہ کوئی انسانی مسئلہ ۔ بقول علامہ اقبال :
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ میر ا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ¿ دشوار
اور واقعی مسئلہ فلسطین کے کرب پرایک باشعور اور انسانیت پرست انسان کادل صرف جلتا ہی رہے گا کیونکہ انسانیت کے سودا گھروں نے اس مسئلہ کے عقدے کو اتنا دشوار بنا دیا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا ہے کہ اس کا حل کب نکلے گا۔چونکہ نظم کی تخلیق کار خود بھی اسی تہذیب اور ماحول کی پرودہ ہے‘ اس لئے اس نظم میں تخلیقی طور پر موضوعاتی اصلیت کی عمدہ پیش کش نظر آتی ہے۔شاعرہ صرف قدس کی حالت زار کا بیان نہیں کررہی ہے بلکہ خود کو اس حالت زار کا حصہ بن کر ملائم لہجے میں احتجاج کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
اے قدس ! دل میرا لرزتا ہے دکھ سے
اے قدس! تو غاصبوں کے ہاتھ مانندِ گل بے خار آگئی ہے
اے قدس ! تو غاصبوں کے پاس مانندِ شہد آگئی بنا ڈستی مکھیوں کے
عربوں نے محض نعروں پر ہی اکتفا کیا
ایسا لگتا ہے کہ وہ فقط خواب ہی دیکھتے ہیں‘ ایک پُر امن حل کا
جس پر غاصب نے غلبہ کیا زورِ تلوار سے
کیا واپس لوٹ آئے گا ایک کاغذی خط سے
شعر وفکشن میں معاصر حسیت (Contemporary sensiblity) کا تخلیقی امتزاج نئی تازگی کا ضامن ہوتا ہے‘ کیونکہ اسی سے کسی بھی تخلیق کار کی تخلیقی زرخیزی کا پتہ چلتا ہے ۔اب معاصر حسیت کو تخلیق کے قالب میں پیش کرنے کے کئی فنی اسالیب ہوتے ہیں ۔جن میں سے ایک‘ کسی بھی خارجی مسئلے یا موضوع کو داخلی یا وجود ی کرب کا حصہ بناکر تخلیق کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔ اور پھر اس موضوع کو ”سرحد ادارک“ پر ظاہر کرکے سپر د تخلیق کیا جاتا ہے۔اس میں بیان کرنے کی ایک تکنیک خودکلامی کی تکنیک بھی ہوتی ہے ۔کتاب کی ایک نظم” ہمکلام ہوں خود سے“ میں بھی خارجی مسائل کے دکھ بھرے اظہار کو داخلی یا وجودی کرب کاحصہ بنایا گیا ہے اور نظم میں تخلیق کار ایک بیان کنندہ کی صورت میںخود سے ہم کلام ہوکر حیرت کے عالم میں استفہامیہ انداز سے پوچھتی ہیں کہ انسان پر شیطان کا غلبہ اتنا کیوں ہوا ہے کہ دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ کیوں انسان حیوان بن کر انسانوں کا خون بہا رہا ہے۔ عبادت گاہوں میں بھی خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ہمیں اس تکلیف سے کب نجات ملے گی۔کب تمام مذاہب کو قریب لایا جائے گا:
ہمکلام ہوں خود سے
محو حیرت ہوں‘ پوچھتی ہوں‘سوچھتی ہوں
کیونکر اتنی تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں ہمیں
جس کے سبب
دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے
انساں پہ شیطاں کا اثر اتنا زیادہ کیوں ہے مولا؟
برسوں سے کیوں خون ہے جاری
چونکہ غزل ‘رباعی یا مثنوی وغیرہ شعری اصناف کے برعکس اردو نظم کی جدید صورت انگریزی یا چند دوسری اہم زبانوں کی نظموں کی طرح کسی مخصوص ہیئتی نظام کی پابند نہیں رہی ہے‘ بلکہ اس میں بنیادی اہمیت تخلیقی رچاو¿ اور شعری اسلوب کو ہوتی ہے تو اس تناظر میں اس مجموعہ کی کئی نظمیں اپنا شعری اختصاص برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔البتہ چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں تخلیقی صنعت گری کے متاثر کن تجربے کے برعکس سطحی قسم کے خیالات کا منثورانہ اظہار اور احساسات و جذبات کی روایتی پیش کش یا خیالات کی تکرار ہی نظرآتی ہے ۔جیسے ”خوابوں کی دنیا “ ”عشق کیا ہے“ ”وہ ہماری قسمت“ ” میری یادیں اس دنیا کی نہیں“ایک ایسا رشتہ“وغیرہ۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو شعری مجموعہ” سمندر ہے درمیاں“ کی کئی نظمیں فکر و فن کا جمال احساس شعری امتزاج معلوم ہوتی ہیں‘کیونکہ ان میں فنی طور پر فکر وخیال کو اثر انگیز اسلوب (Imprssive style) کے توسطہ سے شعری پیکر میں ڈھالا گیا ہے۔ یہاں پر اس بات کو بھی دہرانا مناسب رہے گا کہ کتاب”سمندر ہے درمیاں“ کی مصنفہ” ڈاکٹر ولاءجمال العسیلی “ کی مادری زبان عربی ہے اور عین شمس یونیورسٹی قاہرہ مصر کے شعبۂ اردو میں ایسیو سیٹ پروفیسر ہیں۔ یہ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں لکھتی ہیں جو کہ ان کی لسانی اور تحریری صلاحیت کا قابل ستائش پہلو ہے۔ اردو زبان سے محبت کے تعلق سے پیش لفظ میں لکھتی ہیں:
” مجھے اردو زبان سے بہت لگاؤ ہے۔ اس سے مجھے عشق ہے۔ اس عشق نے جس کتاب
کو جنم دیا ۔۔۔ میں اردو کے تہذیبی ورثے سے شغف رکھتی ہوں۔ اردو زبان وثقافتی
یا تاریخی اعتبار سے بہت عظیم زبان ہے۔ سارے جہاں میں دھوم اردو کی ہے جو کہ ایک
عالمی زبان ہے۔“ ( کتاب: سمندر ہے درمیاں۔ص: ۱۲)