متحدہ عرب امارات میں چارروز(قسط :8)

ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے 19جولائی تا 22 جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ، سفر نامہ کل 10 ہزارسے زائد الفاظ پر مشتمل ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ، دیگر اخبارات کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔ آج سفرنامہ کی آٹھویں قسط ملاحظہ فرمائیں ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر

گذشتہ سے پیوستہ
دوستوں سے ملاقات
دبئی میں جاننے والوں اور قریبی دوستوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت کیلئے قیام پذیر ہے جنہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن مصروف شیڈول ہونے کی وجہ سے میں وقت نہیں دے سکا ،اس کے علاوہ متحدہ عرب امارت میں رہنے والے ہمارے بہت سے معززقارئین حضرات نے بھی ملاقات کیلئے وقت مانگا ،فیس بک پر انہوں نے میسیج کیا ،وہاں کا رابطہ نمبر حاصل کیا لیکن قلت وقت کی مجبوری کی بناپر میں انہیں وقت دینے سے معذور رہاتاہم چنددوست ہمارے وہاں ایسے بھی تھے جن سے ملے بغیر واپسی ان کیلئے بھی بہت تکلیف کا سبب تھی اور خود ہمارے لئے بھی ،ایسے قریبی دوستوں میں سرفہرست فہیم اختر قاسمی صاحب ہیں جو گذشتہ ایک سال سے دبئی میں ملازمت کررہے ہیں ،اس سے قبل مرکز المعارف ممبئی میں تھے بہرحال وہ مسلسل رابطے میں تھے ،جمعہ کو ان سے ملاقات ہوئی اور دن بھر وہ ہمارے ساتھ رہے ۔
دبئی کی دیگر چیزوں کو دیکھنے کے ساتھ ہم نے دبئی میٹروسے سفر کرنے کا بھی ایک شوق پال لیاتھا ،دراصل یہ دیکھنا چاہ رہاتھا کہ دہلی میٹرو اور دبئی میٹرومیں کچھ فرق ہے یا دونوں برابر ہے ، چناچہ فہیم بھائی کی معیت میں ناصر اسکوائر سے الفہیدی تک ہم نے میٹرو سے سفر کا بھی لطف اٹھایا۔
دبئی میٹروکا سفر
پورے دبئی میں میٹروکا جال بچھا ہواہے ،دبئی کے علاوہ ابن بطوطہ ،جمیرہ ،الفجیرہ اور الجبل تک میٹروکا نیٹ ورک پہونچ چکاہے ،ابوظہبی کو میٹروسے جوڑنے کا کام جار ی ہے۔دبئی میٹرو کے کوچ دہلی میٹرو کے مقابلے میں کم ہیں ،بھیڑ وہاں زیادہ نہیں ہے ،مکمل ریموٹ کنٹرول ہے ،بغیر ڈرائیور کے یہ میٹر ٹرین چلتی ہے ،دونوں جگہ کی میٹرومیں خاص امتیاز یہ ہے کہ پلیٹ فارم وہاں کا مکمل محفو ظ ہے ،ٹریک پر گیٹ لگے ہوئے ہیں ،جب میٹرو کا دروازہ کھلتاہے تو ٹریک کا بھی دروازہ کھلتاہے ،جیسے میٹروکادروازہ بند ہوتاہے ٹریک کا بھی دروازہ بند ہوجاتاہے ،مسافروں کو ٹریک کے باہر انتظا کرناپڑتاہے ، یہاں ٹوکن کا استعمال تقریبا نا کہ برابر ہے ،سبھی لوگ ٹراویل کارڈ استعمال کرتے ہیں ،کارڈ استعمال کرنے کی ایک وجہ یہ بھی کہ بسوں میں بھی کارڈ چلتاہے اور دونوں جگہ پر ایک ہی کارڈ کا استعمال ہوتاہے ،بس میں ایک مشین لگی ہوتی ہے جس پر داخل ہونے کے فورا بعد کارڈ کو رکھنا ہوتاہے، نکلتے وقت بھی مشین سے کارڈ کو ٹچ کرناپڑتاہے،ایسا نہ کرنے کی صورت میں دوسودرہم کارڈ سے بطور تاوان کاٹ لیا جاتاہے،یہاں کی بسیں کافی بڑی ہوتی ہیں ،دوبسیں جوڑ کر ایک ساتھ چلائی جاتی ہیں جگہ جگہ بس اسٹوپ بنے ہوئے ہیں،بس اسٹوپ شیشے سے پیک اور ایئر کنڈیشن ہوتاہے ،اس کے اندر کارڈ ریچارج کرنے اور ٹوکن خریدنے کی مشین ہوتی ہے ،بس میں ٹکٹ اور ٹوکن کے فروخت کا کوئی نظام نہیں ہے ۔اگر آپ دبئی کی بسوں سے سفرکرنا چاہتے ہیں اور آپ کے پا س ٹروایل کارڈ نہیں ہے تو بس اسٹوپ میں لگی مشین سے پہلے آپ کو ٹکٹ خریدناہوگا ۔
قاری عبد الحمید صاحب کی دعوت
جمعہ کا دن دبئی میں آخری دن تھا ،کئی جگہوں پر جاناتھا ،جمعہ کی نماز پڑھنے کا پروگرام مسجد السلام میں تھاجہاں ظہرانہ کی بھی دعوت تھی،مسجد السلام میں ہندوستان سے تعلق رکھنے حضرت مولانا قاری عبدالحمید ندوی صاحب گذشتہ طویل عرصہ امام وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں،ان کی مسجد ہندوستان سے تشریف لے جانے والے علماء ودیگر حضرات کیلئے مرکز ہے ،بے انتہاء متواضع اور ملنسار ہیں،انتہائی خلیق اور محبت کے پیکر انسان ہیں، مسجد السلام اور قاری عبد الحمید کام نام سننے کا تو بارہا اتفاق ہواتھا لیکن دیکھنے کا موقع دبئی جاکر ہوا ،قاری عبد الحمید صاحب سے پہلی ملاقات المظہر ہال میں ہوگئی جہاں کتاب کا رسم اجراء عمل میں آیاتھا۔بہرحال مسجد السلام بروقت نہیں پہونچ سکے ،جمعہ کی نماز ہوٹل کے پاس واقع ناصر مسجد میں اداکرنی پڑی ،نماز پڑھنے کے بعد فورا بعد ہم قاری عبد الحمید صاحب کے یہاں نکل گئے،یہاں گھر کے بنے ہوئے ہندوستانی کھانے مہمانوں کی ضیافت کی گئی اور رخصت کے وقت تمام لوگوں کو رطب کھجور کا تحفہ بھی دیا گیا ۔ ظہرانہ کے بعد تقریبا سب لوگ واپسی کی تیاری کرنے میں مصروف ہوگئے کچھ لوگوں کی واپسی تاخیر سے تھی کچھ لوگوں کی اسی دن تھی تو کچھ حضرات ایک دن پہلے ہی واپس جاچکے تھے بہر حال پورے قافلے کا ساتھ قاری عبدالحمید صاحب کے گھر پر ہونے والا یہ آخری پروگرام تھا ۔
دبئی سمندر کالطف
ظہرانہ کے بعدہم نے ساجد مہتاب صاحب اور فہیم اختر صاحب کے ساتھ کسی سیاحتی مقام پر جانے کا پروگرام بنایا،ٹیکسی ڈرائیورسے معلوم کیاکہ ابھی دن کے تین بج رہے ہیں کون سی جگہ سیر کیلئے بہتر ہوگی اس نے المزمر پارک کا نام بتایا اور وہاں لیجاکر چھوڑدیا ،المزمر پارک کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا تاہم انتہائی خوبصورت تھا ،دوپہر اور دھوپ کی شدت کی بناپر ہم اس پارک سے زیادہ لطف اندوز نہیں ہوسکے ،پارک کے دواطراف سمندر سے ملے ہوئے ہیں ،دبئی سمند ر کی یہ بیچ انتہائی صاف ستھری اور خوبصورت نظر آئی ،انگریز سمیت مختلف ملکوں کے لوگ وہاں غسل کرتے ہوئے ملے ،پانی صاف وشفاف تھا ،دبئی کا یہ سمندر جب میں دیکھ رہاتھا میرے ذہن میں مالدیپ کا سمندر بھی گردش کرنے لگا جہاں کی خوبصورتی کا مقابلہ دبئی یااور کوئی نہیں کرسکتاہے۔
دبئی میں مساجد کی کثرت
دبئی جہاں بلند ترین عمارت ،خوبصورت سڑک اور رات کے خوبصورت مناظر کیلئے مشہور ہے وہیں اس کی شہرت اور خوبصورتی کی ایک وجہ ہر قدم پر مسجد کا پایاجانابھی ہے ،تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مسجدیں بنی ہوئیں ہیں ،مسجد میں زمین کا اچھا خاصارقبہ استعمال کیا گیا ہے ،ہر مسجد کے پاس پارکنگ کا نظم ہے ،مسجد کاطہارت خانہ انتہائی وسیع اور کشادہ ہے ، وہاں کی مسجدوں کو دیکھ کر لگتاہے اوردلوں میں یہ احساس جاگتاہے کہ ہم کسی اسلامی جگہ پر ہیں ،ہم مسلمانوں کے درمیان ہیں،یہاں اسلام کے پیروکاربستے ہیں ۔دبئی اور دیگر شہروں میں مسجدوں کا نظام حکومت کے ہاتھوں میں ہے ،زیادہ تر امام عرب ممالک کے ہیں ،تاہم کچھ ائمہ ہندوپاک کے بھی ہیں ،کہاجارہاہے کہ نئی بحالی میں اب عربوں کو ہی ترجیح دیجاتی ہے ۔(جاری)

اس سفرنامہ کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں

SHARE