متحدہ عرب امارات میں چارروز(قسط :9)

ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے 19جولائی تا 22 جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ، سفر نامہ کل 10 ہزارسے زائد الفاظ پر مشتمل ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ، دیگر اخبارات ورسائل کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔ آج سفرنامہ کی نویں قسط ملاحظہ فرمائیں ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر
گذشتہ سے پیوستہ
دبئی میں ملازمت کا آفر
دبئی سے آتے آتے ہماری ملاقات جناب فیروز احمد ندوی صاحب سے ہوئی،دبئی پہونچتے ہی انہوں فیس بک پر رابطہ کیا وہاں کانمبر لیا اوراپنی رہائش گاہ پر مجھے مدعو کیا لیکن مصروفیت کی بناپر یہ ممکن نہیں ہوسکا ،دوسرے دن ہوکر انہوں نے مجھ پر کرم کرتے ہوئے اپنی کمپنی میں ملازمت کا انتظام بھی کردیا ،فون کرکے کہاکہ ہماری کمپنی میں ایک جگہ خالی ہے ،پچاس ہزارروپے تنخواہ ہوگی ، منیجر سے میری بات ہوگئی ہے ، انٹرویو کیلئے آپ آجائیں، انہوں نے راستہ بھی بتادیاکہ کیسے اور کہاں آناہے ،میں نے شکریہ اداکرتے ہوئے آنے کا وعدہ بھی کرلیا کہ کل شام تک آپ کے یہاں آجاؤں گا لیکن ادھر میں اس سوچ میں غر ق ہوگیا کہ مجھے کیا کرناچاہیئے ایک پروگرام میں آنے کے بعد ملازمت کی پیشکش ہورہی ہے ،پچاس ہزار روپے تنخواہ ہے ،صرف آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہے ،ملازمت کے ساتھ اپنا ذاتی کام بھی ہمیں کرنے کا موقع مل جائے گا،فیروز صاحب کے بقول یہ کمپنی بھی بہتر ہے ،کئی طرح کی آزادی ہے ،اس لئے یہ ملازمت کرلینی چاہئے ،ذہن میں یہ خیال بھی گردش کرنے لگا کہ ہم کسی کی دعوت پر آئے ہیں ،انہیں اطلاع کئے بغیر ہماری کوئی حرکت مناسب نہیں ہوگی ،ہمارے اس اقدام سے انہیں تکلیف ہوگی ،اس کشمکش کے درمیان ہم نے فوری طور پر دستیاب دوستوں سے مشورہ کیا تو اکثر نے یہ کہاکہ یہاں ملازمت مت کروہندوستان میں ہی تمہارامستقبل روشن ہے ،اس عمر میں تمہیں بہت کچھ مل چکاہے ابھی پوری زندگی باقی ہے ،دنیا میں سب کچھ پیسہ نہیں ہوتاہے ،عزت اور مقام کے سامنے دولت کچھ نہیں ہے ،دبئی میں رہ کر پیسہ تو کماسکتے ہو ،اپنے گھر والوں کو خوش رکھ سکتے ہو لیکن پوری ملت کیلئے تم کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں ،امت کی قیادت سے محروم ہوجائے گو، جہاں تک بات پیسوں کی ہے تو قسمت کا کھیل ہے ،کچھ لوگوں کا یہ بھی مشورہ تھاکہ ملازمت کرلو،انٹر و یو دیدو ،پہلاموقع ملاہے اسے چھوڑنا نہیں چاہئے ،جو پہلا موقع کی قدر نہیں کرتاہے وہ باربار ٹھوکریں کھاتاہے،اس کشکمش میں پوری رات گزرگئی دن کو بھی یہی سوچتا رہا،فیروز صاحب کا فون باربار آتارہا کہ کب آرہے ہیں ،کیسے آرہے ہیں کب تک پہونچیں گے اور میں انہیں ٹالتارہا بالآخر کچھ سوچے سمجھے بغیر دوپہر میں نے انہیں فون کرکے منع کردیا کہ میں نہیں آپاؤں گا ،آپ کی محبت ،عنایت ،نوازش اور خلوص کیلئے بیحد شکریہ !
مولانا فیروزاحمد ندوی سے ملاقات
جمعہ کو فیروز صاحب ملنے بھی آگئے ،رات دس بجے کی فلائٹ تھی اس لئے شام کو ہم لوگ مسجد السلام آگئے تھے ،وہاں سے ایئر پورٹ جانے کا پروگرام تھا ،مولانا فیرو ز صاحب کو میں اپنے تازہ پروگرام کے بارے میں اطلاع نہیں کرسکا اورلینڈ مارک ہوٹل پہونچ گئے لیکن سوئے اتفاق کہ ان کے آنے سے چند منٹ قبل میں مسجد السلام کیلئے نکل گیا تھا بہرحال ہوٹل میں ان کی ملاقات مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب ہوئی جنہوں نے انہیں بتایاکہ وہ ابھی مسجدالسلام کیلئے نکلے ہیں ،وہیں سے ایئر پورٹ جائیں گے ،مولانا فیروز ندوی صاحب مسجد السلام دبئی اور اس کے امام وخطیب معروف عالم دین قاری عبد الحمید ندوی صاحب سے بخوی واقف تھے،یہ جگہ بھی ان کی دیکھی ہوئی تھی اس لئے میٹرو کے ذریعہ وہ ہوٹل سے براہ راست مسجد السلام تشریف لے آئے ۔
فیروز صاحب سے فیس بک کے ذریعہ گذشتہ دوسالوں سے تقریبا مسلسل رابطہ تھا،خبروں اور مضامین کی اشاعت سے متعلق ہمیشہ گفتگوہوتی رہی ،ہمیشہ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی ،ان کی ذرہ نوازی اور کرم فرمائی نے کبھی بالمشافہ ملاقات نہ ہونے کے باوجود تعلقات کو بہت وسیع اور گہرا بنادیااور دل میں ملاقات کا شدید اشتیاق پیداکردیا،ان کے بارے میں میر ا خیال تھاکہ وہ ایک آزاد مزاج ہوں گے ،لباس اور حلیہ میں بھی کچھ تبدیلی ہوگی،سوچ اور فکر بھی کچھ مختلف ہوگی لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا،مسجد السلام کے گیٹ کے باہر میں فہیم اختر اور مولانا جوہر ندوی کے ساتھ کھڑا تھا اسی وقت ایک صاحب کو میں نے اپنی جانب آتے دیکھا ایسا لگ رہاتھاجیسے وہ مجھ سے شناساہو ں، ان کے چہرے پر بھر پور ڈارھی تھی ،گندمی رنگ تھا،کرتا پائجامے میں ملبوس تھے ،سر پر ٹوپی بھی پہن رکھی تھی ، قریب آکر انہوں نے مجھے سلام کیا اور میں نے بھی کچھ اس انداز سے جواب دیا تاکہ انہیں اجنبیت کا احساس نہ ،اس دوران میں نے انہیں پہچاننے کیلئے دماغ پر بہت زور دیا لیکن ممکن نہیں ہوسکا ،میر ی کشمکش کو یکھتے ہوئے انہوں قبل اس کے میں ان سے تعارف پوچھتا خودہی بتادیاکہ ’’فیروز احمد ‘‘اور پھر ہمارامصافہ معانقہ میں تبدیل ہوگیا ۔
مولانا فیروز احمد ندوی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ہونہار فاضل ہیں ،گذشتہ ایک دہائی سے آپ دبئی کی ایک کمپنی میں ملازمت سے وابستہ ہیں،آپ ادب اور صحافت سے بیحد دلچسپی رکھتے ہیں،موقع بہ موقع مختلف امور پر مضامین قلم بند فرماتے رہتے ہیں،وہاں کے حالات اور مختلف امور کی سر گرمیاں بھی ملت ٹائمز میں شائع کرنے کیلئے بھیجتے رہتے ہیں،آپ کے تعلق ضلع مدھوبنی بہار کے ایک گاؤں سے ہے ۔
میں تینوں کو ہندوستانی سمجھتاہوں
مولانا فیروز ندوی صاحب سے کافی اچھی اور خوشگوار ملاقات رہی ،انہوں نے آنے کے بعد پھر کہاکہ بہت اچھا موقع تھا،پچاس ہزار آپ کی شروع کی تنخواہ تھی، آپ نے موقع گنوادیا یہ سب سنتا رہا اور کچھ جوا ب نہ بن پڑا،فہیدی میں ایک شاہر ا کے کنارے واقع ایک کیفے میںآئس کریم کھاتے وقت یہ سب باتی ہوتی رہی اور میں اس کشکمش میں غرق رہاکہ ’’ ملازمت ٹھکرا کر میں نے درست کیا یا نہیں میرے مستقبل کا کیا ہوگا‘‘ اسی دوران اردو زبان میں ہماری گفتگو سن کر کیفے کا مالک ہمارے میز کے پاس آگیا اور انہوں نے بھی اردو میں گفتگو شروع کردی ،پہلے انہوں نے پوچھاآپ ہندوستان سے آتے ہیں یا پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں ،ہماراجواب سن کر انہوں نے کہاکہ میرے بھی آباؤاجداد ہندوستان سے ہیں لیکن کس ہندوستان سے ہیں یہ معلوم نہیں مطلب ہندوستان سے ،پاکستان سے یا بنگلہ دیش سے ،تاہم اتنا معلوم ہے کہ میرے آباؤاجداد نے اسی خطے سے کناڈ کی جانب ہجرت کی تھی ،کناڈا کی شہرت اور وہاں کے ماحول میں پرورش وپرداخت ہونے کے باوجود میں خود کو ہندوستانی سمجھتاہوں ،اردو زبان بھی بولنے پر قدرت رکھتاہوں اور اردو زبان بولنے والے ہر ایک کو میں ہندوستانی سمجھتاہوں ،خواہ اس کا تعلق پاکستان سے ہو یا بنگلہ دیش سے ،میرا یہ کیفے بھی انہیں تینوں ملکوں کیلئے خاص ہے یعنی متحدہ ہندوستان کیلئے ۔(جاری)