حکومت کو صحافیوں سے ڈر لگتا ہے ؟

پچھلے کچھ عرصہ کے دوران جس طرح ملک بھر میں صحافیوں پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ ملک اور جمہوریت دونوں کیلئے خطرہ ہے

ڈاکٹر یامین انصاری

کہا جاتا ہے کہ آزادی صحافت صرف جمہوریت کے لئے ضروری نہیں ،بلکہ یہی جمہوریت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب معاشروں میں جمہوریت اور آزادی صحافت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے، کیونکہ جب صحافت کو آزادی ملے گی تبھی وہ آزادانہ طور پر حکومت کا احتساب کرسکے گی۔اور جب کسی ملک کی صحافت آزادنہ طور پر حکومت سے سوال کرے گی اور اس کا احتساب کرے گی تو اس سے نظام میں شفافیت آئے گی اور ایک مثالی جمہوریت وجود میں آئے گی، لیکن بدقسمتی سے آج ہندوستان سمیت دنیا کے پیشتر ممالک میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ صحافت آج بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکی اور صحافتی فرائض انجام دینے والے صحافیوں کو عوام کو سچائی اور آگاہی کی قیمت اپنی جانیں گنوا کر، مقدمات کا سامنا کرکے یا پابند سلاسل ہو کر ادا کر نی پڑتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں صحافت پر قدغن لگانے کے لئے حکمرانوں اور صاحب اقتدار طبقہ کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔صرف ہندوستان کی اگر بات کریں تودنیا بھر میں آزادی صحافت کے معاملے میں ہندوستان کی پوزیشن پہلے ہی خراب تھی ، جو مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں ہندوستان پریس فریڈم انڈیکس میں۱۰۵؍ ویں نمبر پر تھا،لیکن صحافیوں کی عالمی تنظیم’رپورٹس وِد آؤٹ بارڈرس‘ کی آزادی صحافت کی گزشتہ رینکنگ میں ہم ۱۸۰؍ ممالک میں ۱۴۲؍ ویں مقام پر آ گئے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں نہ صرف آزادی صحافت کی مسلسل خلاف ورزی کی گئی، بلکہ پولیس نے صحافیوں کے خلاف بھی پُرتشدد کارروائی کی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے صحافیوں کے خلاف منظم انداز میں نفرت پھیلائی گئی، جنہوں نے ایسی کوئی بات لکھی یا کہی تھی جو حکمراں طبقہ کے خلاف تھی۔ لہذا پچھلے کچھ عرصہ کے دوران صحافیوں پر جس طرح شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے ملک کی شبیہ سدھرے گی نہیں، بلکہ مزید خراب ہوگی۔ حال ہی میں ونود دُوا، سدھارتھ وردھرا جن اور سپریا شرما جیسے نامور اور شفاف شبیہ رکھنے والے صحافیوں کے ساتھ کئی کشمیری صحافیوںپربھی مقدمات ہوئے۔ اس سے پہلے الیکٹرانک میڈیا کے مشہور چہرے پُنیہ پرسون واجپئی اور ابھیسار شرما جیسے صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی، جو تشویشناک ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں مقامی صحافیوں کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ تو سامنے ہی نہیں آتا ہے۔ ’رائٹ اینڈ رسک انالائسس گروپ‘ نامی ادارے نے لاک ڈاؤن کے دوران ۵۵؍ صحافیوں کو ہراساں کرنےکے معاملات جمع کئے، جنھیں سرکاری پالیسیوں پر مبینہ تنقید کرنے یا زمینی حقائق پیش کرنے اور سنگین سلسلوں میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان معاملات میں سب سے زیادہ اترپردیش میں۱۱؍، جموں و کشمیر میں۶؍ ، ہماچل پردیش میں۵؍ ہیں، جبکہ تمل ناڈو ، اڈیشہ ، مغربی بنگال اور مہاراشٹر میں اس طرح کے چار کیس درج ہوئے ہیں۔  

ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں آزادی صحافت کا مسئلہ صرف آج پیدا ہوا ہے۔ اس کی جڑیں بہت پرانی ہیں ، لیکن وقتاً فوقتاً اس کی آبیاری ہوتی رہی ہے۔ موجودہ دور میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی سنگین رخ اختیار کر گیا ہے۔ در اصل آزادی صحافت کا مسئلہ دو طرح سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کوئی حکومت یا اس کے حواری صحافت یا صحافیوںکو اپنے قابو میں رکھنے کی کوششیں کرتےہیں اورپھر ان میں سے ہی کچھ صحافی حکمراں طبقہ کے سامنے یا تو خود سپردگی کر دیتے ہیں یا پھر ان کے ترجمان اور درباری بن جاتے ہیں۔ جمہوریت اور صحافت کے لئے یہ خود اپنے آپ میں مسئلہ ہوتا ہے۔اس کا مشاہدہ خاص طور پر آج ہم نیوز چینلوں پر ہونے والے پروپیگنڈہ مباحثوں میں روز کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ چینلوں کے نیوز اسٹوڈیو نہیںہیں، بلکہ حکمرانوں کی قصیدہ خوانی کے دربار سجے ہیں۔ان مباحثوں کے عنوانات دیکھنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد کسی مسئلہ پر مباحثہ کرنا نہیں، بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔صحافیوں کا دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جو اقتدار اور طاقت کے سامنے خود سپردگی نہیں کرتا اور صحافتی اصولوں کا پابند عہد رہ کر اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ حکومت کو اس کی کوتاہیوں اور اس کی ذمہ داریوں کا احساس کراتا ہے۔ وقتاً فوقتاً حکومت کا احتساب کرتا ہے اور عوام کے تئیں اس کی جواب دہی طے کرتا ہے۔ جب یہ طبقہ بلا خوف و خطر اپنے کام کو کرتا جاتا ہے، تو یہیں سے یہ حکومت کے لئے ایک مسئلہ بن جاتا ہےاور حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔ شاید پچھلے کچھ عرصہ کے دوران ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے قومی سطح سے لے کر ریاستی سطح تک اور چھوٹے شہروں سے لے کر قصبوں اوردیہاتوں تک صحافیوں کو ایمانداری سے کام کرنے کی سزا دی جا رہی ہے اور ان کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چند واقعات کا یہاں تذکرہ کرنا ضروری ہے۔

حال ہی میں وارانسی پولیس نے نیوز پورٹل ’اسکرال ڈاٹ ان‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر سپریا شرما کے خلاف ایک خاتون کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی ہے۔ سپریا شرما نے لاک ڈاؤن کے دوران وزیر اعظم مودی کے ذریعہ گود لئے گئے گاؤں ڈومری پرایک رپورٹ لکھی۔ اس دوران سپریا شرما نے بہت سارے لوگوں کا انٹرویو کیا ، جس میں مالا دیوی نامی ایک خاتون بھی شامل تھی۔ ویب سائٹ کے مطابق انٹرویو کے دوران مالا دیوی نے اس رپورٹر کو بتایا کہ ان کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے ، جس کی وجہ سے انہیں کھانے پینے کی قلت کا سامناہے۔ لیکن بعد میں نہ جانے کیوںمالا دیوی نے اپنا بیان بدل دیا اور کہا کہ انہوں نے یہ باتیں رپورٹر کو نہیں بتائیں اور رپورٹر نے اس کی غربت کا مذاق اڑایا ہے۔ لہذا مالا دیوی کی شکایت پر وارانسی کے رام نگر تھانے کی پولیس نے۱۳؍ جون کو ایف آئی آر درج کر لی۔تاہم ایف آئی آر کے باوجود سپریا شرما اپنی رپورٹ پر قائم ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے حقائق سے آگے کچھ نہیں لکھا ہے۔ ویب سائٹ کے ایڈیٹر کا نام بھی ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے۔ اس سے قبل مشہور سینئر صحافی ونود دُوا کے خلاف دہلی اور ہماچل پردیش میں مختلف مقامات پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ونود دُوا پر جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ہماچل پردیش میں ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں ملک سے بغاوت کی دفعہ بھی شامل کی گئی ۔ تاہم بعد ازاں خصوصی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت کی کہ ان کی گرفتاری۶؍جولائی تک نہیں ہوسکتی ہے۔اسی طرح چند ماہ قبل نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے ایڈیٹر سدھارتھ ورادھراجن پر اترپردیش کے ایودھیا میںدو ایف آئی آر درج کی گئیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے باوجود ایودھیا میں منعقدہ ایک پروگرام میں یوگی آدتیہ ناتھ کی شمولیت کے بارے میں افواہیں پھیلارہے ہیں۔ تاہم ’دی وائر‘ نے اس کے جواب میں کہا کہ اس پروگرام میں وزیر اعلی سب کے سامنے خود شامل تھے، لہذا افواہیں پھیلانے کی بات ہی نہیں ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے اس قدم کی ملک بھر میں ساڑھے تین ہزار سے زیادہ دانشوروں نے بھی مخالفت کی تھی، جن میں متعدد مشہور قانون دان ، ماہرین تعلیم ، اداکار ، فنکار اور مصنفین شامل ہیں۔اس سے پہلے متعدد مقامی صحافیوں کے خلاف حکومت مخالف خبریں شائع کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔ ابھی پچھلے ماہ ہی مقامی انتظامیہ نے یوپی کے فتح پور ضلع کے صحافی اجے بھدوریا کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی ، جس کے خلاف ضلع کے تمام صحافیوں نے پانی ستیہ گرہ شروع کیا تھا۔پچھلے سال ایک صحافی کے خلاف اس لئے ایف آئی آردرج کی گئی تھی کہ اس نے مرزا پور میں مڈ ڈے میل میں دھاندلی کی خبردی تھی۔ بعد میں ضلع کے ڈی ایم نےبڑی مضحکہ خیز دلیل دی کہ پرنٹ کا صحافی کیسے ویڈیو بنا سکتا ہے۔ جب صحافیوں کے خلاف کارروائی کے لئے اس طرح کی مضحکہ خیز دلیلیں دی جائیں، تو اندزہ لگانا مشکل نہیں کہ کس مقصد کے تحت یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ یہ سب حکومت کے لئے اس لئے آسان ہے کہ صحافیوں کے ایک بڑے طبقے نے اپنا اعتبار کھو دیا ہے۔ وہ اس لئے کیوں کہ میڈیا پر اقتدار اور پیسے کا دباؤ جتنا آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔ 

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

yameen@inquilab.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں