جے این یو کے لاپتہ طالب علم نجیب کا چار سال بعد بھی کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے، ان کی والدہ فاطمہ جدوجہد کرتے کرتے تھک چکی ہیں لیکن ان کی ہمت ابھی تک نہیں ٹوٹی، قومی آواز سے انہوں نے اپنا درد بیان کیا ہے
لکھنؤ: (آس محمد کیف) اتر پردیش کے بدایوں کی رہنے والی فاطمہ نفیس اپنے گمشدہ بیٹے کی بازیابی کے لئے لگاتار آواز اٹھاتی رہی ہیں اور در در بھٹکنے کے بعد جدوجہد کی علامت بن چکی ہیں۔ اس وقت وہ بیمار شوہر کی خدمت میں مصروف ہیں اور گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران 55 سالہ فاطمہ کے چہرے پر تمام رنگ دنیا نے دیکھے ہیں۔ ایک عام سی نظر آنے والی اس جذباتی ماں نے امید کے ہر دروازے پر دستک دی ہے لیکن ہر بار خالی ہاتھ لوٹ گئی۔
فاطمہ نفیس نے اپنی جدوجہد کے دوران تمام طرح کی تکالیف کا سامنا کیا ہے۔ نہ جانے کتنی بار وہ بھوکی پیاسی دھرنے پر بیٹھی رہیں اور نہ جانے کتنی مرتبہ وہ دہاڑیں مار کر روئی ہیں۔ فاطمہ کہتی ہیں، ’’میرا بیٹا غائب نہیں ہوا ہے اسے اغوا کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ میری موت سے پہلے مجھے ملتا ہے یا نہیں۔ میرا دل کبھی اس بات کو نہیں مان سکتا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘
ساڑھے چار سال قبل گمشدہ ہو جانے والے نجیب معاملہ میں 2018 میں سی بی آئی نے حتمی رپورٹ پیش کر کے کیس بند کر دیا تھا۔ ایم ایس سی بایوٹیکنالوجی سال اول کا طالب علم نجیب 15 کتوبر 2016 کو جے این یو کیمپس سے لاپتہ ہوا تھا۔ نجیب کی والدہ کے مطابق نجیب کے دوستوں کے بقول اس کا بی جے پی کی طلبا تنظیم ’اے بی وی پی‘ کے لڑکوں سے معمولی کہا سنی ہوئی تھی، جس کے بعد اسے بری طرح زد و کوب کیا گیا تھا، اس کے بعد سے ہی نجیب غائب ہے۔ اگلے دن جب وہ رپورٹ درج کرانے گئے تو پولیس نے اے بی وی پی کے غنڈوں کا نام ایف آئی آر میں درج کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر نجیب کو بازیاب کرا لیں گے۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ انہیں دہلی پولیس نے گمراہ کیا تھا۔
ذیابطیس اور دیگر بیماریوں میں مبتلا رہنے والے فاطمہ کے شوہر بستر سے نہیں اٹھ پاتے تھے اور کنبہ کئی طرح کے مسائل سے دو چار تھا۔ نجیب کی بازیابی کے لئے جب تحریک چلی تو فاطمہ گھر کے مسائل اور شوہر کی بیماری کو بھول کر بیٹے کو تلاش کرنے کی جستجو میں مصروف ہو گئیں۔
فاطمہ نے کہا، ’’میں نجیب کی تصویر سینے سے لگا کر خوب چیخی مگر میری آواز ’چوکیدار‘ تک نہیں پہنچی۔ میں نے کہنا نہیں چھوڑا اور انہوں نے نہ سننے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ میرے کلیجے سے دن رات ہوک سی اٹھتی ہے، چیخ چیخ کر میرا گلا خراب ہو چکا ہے، دل چیر کر کسے دکھاؤں کہ کتنا درد ہے اس میں!‘‘ فاطمہ کہتی ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ نجیب ایک دن ضرور واپس آئے گا۔ فی الحال انہوں نے پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں عرضی داخل کر کے نجیب کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
فاطمہ کے رنج و غم سے متاثر ہو کر معروف شاعر عمران پرتاپ گڑھی ایک نظم کہہ چکے ہیں جس میں انہوں نے بچے کے لئے تڑپتی ماں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کی نظم دنیا بھر میں نجیب کی گمشدگی کی علامت بن چکی ہے۔ عمران پرتاپ گڑھی کہتے ہیں کہ ’’میری نظم نجیب کی امی کے دل کی آواز تھی۔ میں نے ان کی تکلیف کا دنیا سے اشتراک کیا ہے۔ جے این یو میں جب میں نے یہ نظم پڑھی تو نجیب کی امی زار و قطار رونے لگیں۔ میں نے انہیں گلے سے لگا کر کہا، اب مجھے ہی نجیب سمجھ لینا امی۔‘‘
فاطمہ کہتی ہیں، ’’عمران جیسے بچے ہی میری طاقت بنے، ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے قابل بچے مجھ سے کہتے تھے امی ہم ہی نجیب ہیں۔ ہم لڑیں گے۔ سب نے بہت ہمت کی، مظاہرہ کیا، ویڈیو بنائی، آواز اٹھائی، سوشل میڈیا پر لکھا لیکن حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ سی بی آئی نے حتمی رپورٹ لگا دی اور عدالت سے رجوع کرنے کے لئے ایک سال بعد کاغذات سونپے۔‘‘