نعت گوئی اور اُس کے آداب

عبد اللہ سلمان ریا ض
ملت ٹائمز
نعت عربی کا لفظ ہے جس کا مادہ’ ’ن، ع،ت‘‘ہے۔ یہ لفظ عام طور پر وصف اور بیان کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے چناں چہ نعت کے لغوی معنی صفت، وصف، جوہر ، تعریف، خاصیت، گُن اور خوبی کے ہیں۔خصوصاً جب کسی چیز کی تعریف میں مبالغے سے کام لیا جائے تو اس وقت نعت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ نعت کا لفظ ہر اس انسان کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے جو نہایت خوبرو، نہایت عمدہ، حسین و جمیل، معزز اور سبقت لے جانے والا ہو لیکن اصطلاحاً ’’نعت‘‘ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتاہے۔نعت کہنے والے کو ’’ناعِت‘‘ کہتے ہیں۔
’’نعت‘‘ کا لفظ احادیث میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف، محامد و محاسن میں مستعمل نظر آتا ہے۔ مثلاً حضرت انس سے مروی بیہقی کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ ایک مرتبہ بیمار پڑگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ اس کا باپ سرہانے بیٹھا ’’تورات‘‘ پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ اے یہودی ! ہَلْ تَجِدُ فِی التَّوْرَاۃِ نَعْتِی‘‘ (کیا تم تورات میں میری نعت کو پاتے ہو؟) اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: ’’نہیں‘‘۔ لڑکے نے فوراً سچ بولا: ’’ بَلٰی وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! اِنَّا نَجِدُ لَکَ فِی التَّوْرَاۃِ نَعْتَکَ‘‘۔
ہاں ! اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ! ہم تورات میں آپ کی نعت (تعریف و توصیف) پاتے ہیں۔
ثابت ہواکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعت کا لفظ اپنی تعریف کے لئے استعمال کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے یہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ سلم کے وصف کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے استعمال کیا ہے۔
البتہ عربی سے فارسی اور فارسی سے اُردو زبان تک پہنچتے پہنچتے یہ لفظ ایک خاص مفہوم سے وابستہ ہوگیا، یعنی ایسے اشعار(بلکہ تحریریں بھی) جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف ہو، انھیں ’’ نعت‘‘ کہا جاتا ہے۔
شاعری میں نعت گوئی کا فن دیگر اصناف سخن کے بالمقابل کئی ایک وجوہ سے خصوصیات کا حامل اور کافی اہمیت و فوقیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ نعت کا موضوع آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے جس میں نعت گو آپ کے اوصاف سے بحث کرتا ہے اگر وہ خدا اور رسول کے اوصاف کے درمیان باہمی فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرنے میں تجاوز سے کام لیتا ہے تو وہ شرک کامرتکب ہوسکتا ہے جو ظاہر ہے انتہائی نازک مرحلہ اور کٹھن منزل ہے۔
اصناف سخن میں موضوع کے اعتبار سے ’’حمد ‘‘ کو اوّلیت حاصل ہے اس کے بعد ’’نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہے۔
نعت گوئی اسلام کے ابتدائی دور سے آج تک ہر زبان کے شعرا کا وطیرہ رہا ہے، اردو شعر و ادب میں اس صنف کا ذخیرہ وافرمقدار میں موجود ہے۔ نقادانِ فن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نعت گوئی بڑا مشکل مرحلہ ہے یہ جانتے ہوئے بھی ہمارے شعرا مدحِ نبی کرنے میں پیچھے نہیں رہے، بلکہ نعت گوئی کو باعث نجات و مغفرت جان کر اس وادئ دشوار گذار سے گذرتے ہی رہے اور گذ رتے ہی رہیں گے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ اس دشوارگھاٹی سے بغیر کسی لغزش کے گذرجانا ہرکسی شاعر کے بس کی بات نہیں، نعت گوئی اردو شاعری کی اعلیٰ ترین قدروں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کا تعلق چوں کہ اس ذات اقدس سے ہے جس ذات اقدس نے صدیوں کی تاریک دنیا کو انسانیت اور تہذیب کے سورج کا اجالا بانٹا،جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے :
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
نعت گوئی یوں تو بہت آسان لگتی ہے لیکن غور سے چشم دل واکر کے دیکھئے تو بہت مشکل کام ہے۔چوں کہ شاعرکو نعت کہتے وقت اس کا پاس و لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے کہ آداب شریعت بھی اس کے ہاتھ سے نہ چھوٹیں اور آدا ب عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کے دل و دماغ معمور ہوں۔اسی لئے مشہور فارسی شاعر عرفی نعت گوئی کے متعلق کہتے ہیں:
عُرفیؔ مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحرا است
آہستہ کہ رہ بروم تیغ است قلم را
اے عرفی ! اتنی تیزی نہ دکھا ! یہ نعت کا راستہ ہے، کوئی صحرا نہیں ہے کہ آنکھیں بند کرکے دوڑتا چلاجائے گا۔ یہ راستہ بہت کٹھن ہے اور اس کی کیفیت تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے۔
نعت گوئی یقیناًتلوار کی دھار پر چلنے جیسا ہے۔ یہ بہت اہم مقام ہے یہاں بہت سنبھل سنبھل کر قدم رکھنا پڑٹا ہے۔ مشہور مداح رسول شاعر ڈاکٹر تابش مہدی کے بقول :
یہ ارض نعت ہے تابش سنبھل سنبھل کے چلو
وفورِ شوق میں کوئی نہ بھول ہوجائے
مدحتِ نبوی اور نعتِ رسول فنی اعتبار سے ایک نازک مقام ہے۔ اس کی نزاکت کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے تو عبدیت، الوہیت میں بدل جاتی ہے۔ مضمون کا انتخاب، لفظوں کی موزونیت، لب و لہجے کی پاکیزگی، ادب و احترام کی فضا، عبد و معبود میں رشتے کا تعین، بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کا ادراک، رحمت و شفاعت کی حدود، توسل، استغاثہ اور استمداد کی شرعی نوعیت، غلو آمیز ضلالت اور عجز آمیز اہانت کا احساس، حفظِ مراتب کا خیال، منصبِ نبوت کا تقدس، ادب و احترام کے تقاضے، مضامین کی پاکیزگی اور اندازِ بیان کی نفاست و لطافت، یہ سب تقاضے مل کر نعت گوئی اور مدحت نگاری کو شاعر کے لیے پل صراط بنادیتے ہیں۔
بہ قول مولانا احمد رضاخان بریلویؒ : ’’حقیقتاً نعت شریف لکھنا بہت مشکل کام ہے، جس کولوگ آسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پرچلنا ہے۔ اگر شاعر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے، غرض حمد میں یک جانب کوئی حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔‘‘ (الملفوظ، حصہ دوم۔ص ۳)
نعت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے دنیوی محبوبوں کے لئے استعمال کئے جانے والے الفاظ جیسے بلم، صنم وغیرہ استعمال کرنانبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے سراسر منافی ہیں۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تخاطب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لینا، یعنی یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر خطاب کرنا ادب و احترام کے خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی نام سے نہیں بلکہ المُدَثِّر، اَلْمُزَمِّل، النّبی اور الرّسُول کے الفاظ سے خطاب کیا ہے جب کہ دوسرے انبیاء کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے ذاتی ناموں ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ ، زکریا، یحیٰ علیہم السلام سے خطاب کیا ہے۔نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کہہ کر پکارنے والوں کو بیوقوف، نادان اور ’’الجاہلون‘‘ کہا ہے۔ چناں چہ سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ ‘‘
مگر اسے کیا کہیے کہ بعض لوگ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں مگران چیزوں کا خیال نہیں کرتے۔ لہٰذا اس ضمن میں نعت گوشعرا کو قرآن کریم کے ارشاد : وَتُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ ’’اور ان کی تعظیم و توقیر کرو‘‘ کی پیروی کرنی چاہئے۔اور ایسی چیزوں سے گریز کرناچاہئے جو نبی کی شان کے خلاف ہو۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عظیم صدیوں سے شاعروں اور ادیبوں کے لیے ذریعہ ء اظہار عقیدت بنی ہوئی ہے۔ قصیدۂ نبوی خواہ نظم میں ہو یا نثر میں سب کا مقصود حصول خوشنودئ مصطفی ہے اور وہ اس لیے کہ خوشنودئ مصطفی ہی عین رضائے خدا ہے کیوں کہ ثنائے مصطفی صرف بندگان خدا ہی کو نہیں بلکہ خود خالق کائنات کو بھی محبوب و منظور ہے۔
کتاب و سنت کی یہی وہ روشن تعلیمات ہیں، جن کے باعث صحابہ ء کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور دعوت سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ تھی۔اپنے ربّ کی خوش نودی اور رضا اور اپنے محبوب از جاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اتباع سے وہ سرشار تھے۔سیرت نبوی اور اسوۂ صحابہؓ میں وہ سیکڑوں مواقع اور واقعات درج ہیں جو آپ کی ذات سے والہانہ شیفتگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے رکھنے کا ذوق و شوق ظاہر کرتے ہیں۔اسی وجہ سے نعت گو شعرا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو نعت کی اساس اور بنیاد کا درجہ دے دیا، اس لئے نعت گو شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ سے والہانہ محبت ، عقیدت اور شیفتگی رکھتا ہو۔شاعر جس قدر آپ کی محبت میں سرشار ہوگا، اسی قدر اس کے کلام میں کیف اور اثرپیدا ہوگا۔ نعت کی دل آویزی ، دل کشی اور خوبی کے لئے محبت رسول شرط و لازم ہے۔نعت کے موضوع کی مناسبت سے الفاظ کے انتخاب میں بھی ایک پاکیزگی اور شائستگی ہونی چاہئے۔نعت کے لوازمات میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جن کا تعلق موزوں زبان و بیان، انتخاب الفاظ ، تشبیہ و استعارہ اور انداز تخاطب سے ہے۔نعت کی مجموعی فضا کو ادب و احترام کے ان جذبات عالیہ سے سرشار ہونا چاہئے جن کی نعت متقاضی ہے۔در اصل نعت ہے شان رسالت کا ادب و احترام۔نعت کے اظہار میں ایسی تشبیہ یا استعارے سے گریز کرناچاہئے جس سے نعت کی پاکیزگی اور شائستگی متاثر ہوتی ہے۔
خلاصہ ء کلام یہ ہے کہ مدائح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نعتِ نبوی میں تجاوز عن الحد کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ کی تعریف کا ایسا انداز اپنایا جائے کہ جس سے کسی دوسرے نبی یا رسول کی تنقیص نہ ہو۔ مضامینِ سیرت اور موضوعاتِ مدحت تاریخی صداقتوں کے حامل اور ان کی پیش کش کا اسلوب مبالغے سے دور اور فطرت کے قریب ہوناچاہئے۔
سیرت نبوی اور مدحت مصطفوی کا عربی زبان میں منظوم اظہار خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوچکا تھا۔ بعض حضرات نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل کی مدحیہ شاعری کا بھی سراغ لگایا ہے۔قدیم صحف سماوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور بعثت کے حوالے سے بہت سی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد کعب بن لوئی سے منسوب ایک قصیدے کا ذکر ملتا ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ذکر موجود ہے۔
اُردو شعرا نے تقریباً تمام اصناف سخن اور جملہ بحور میں اس محبوبِ جہاں کے جمالِ دل رُبا اورمعمولات و تعلیمات کو کیسے کیسے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ کہیں سوانحی تفصیلات ہیں تو کہیں معجزات کا بیان ہے۔ کسی جگہ شمائل کا ذکر ہے تو کسی جگہ غزوات کو منظوم کیا گیا ہے۔ کائنات کی یہ عجیب دل نواز شخصیت ہے کہ جس کے خصائص و خصائل کا بیان ہر دور میں نو بہ نو اسالیب میں پیش کیا گیا اور مستقبل اس کے حضور متنوع جہات نذرانہ ہائے عقیدت پیش کرتا رہے گا۔ گزشتہ دو سو سالوں میں میلاد اور مدحت کے موضوعات کے علاوہ مستقلاً سیرت و سوانح پر کافی مقدار میں کتابیں شائع ہوئی ہیں جن کا احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔
عرب شعرا کے تتبع میں دیگر زبانوں خصوصاً فارسی میں بہت زیادہ نعتیہ قصائد اور نعتیں کہی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں عطار، رومی ، نظامی، جامی، خسرو، فیضی، سعدی، عرفی، قدسی اور دیگر بے شمار شعرا نظر آتے ہیں جن کے نعتیہ کلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سمندر موجزن ہیں۔انھیں سمندروں سے نعت حبیب کبریا کے بادل اٹھے اور ہماری اُردو شاعری کو سیراب کرتے چلے گئے۔دکن سے اُردو شاعری کی موجیں شمالی ہند کی جانب بڑھیں تو دیگر اصناف سخن کے ساتھ نعت و منقبت کے دھارے بھی گلستانِ ادبِ اُردو میں موجین مارنے لگے۔ ولی دکنی سے لے کر امیر مینائی تک اُردو شعراء کی ایک کھیپ ہمیں نعت سرائی کرتی نظر آتی ہے۔
Mob: 9341378921, E-mail: salman_pbh@rediffmail.com
26, Haines Road, 1st Floor, Egyptian Block, Bangalore -560051