پاپولر فرنٹ آف اندیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے اپنے ایک بیان میں دہلی پولیس کی غیرجانبداری کے لمبے لمبے دعووں پر سوال اٹھایا اور کہا کہ دہلی ہائی کورٹ کا پولیس کی کچھ کاروائیوں کو شرارت بھرا کہنا سنگین صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اب دہلی ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کے ایک خصوصی کمشنر کے ذریعہ اپنے ماتحت پولیس والوں کو جاری کردہ اس متنازعہ حکم پر سوال اٹھایا ہے کہ فسادات سے متعلق گرفتاریوں کے وقت پوری احتیاط برتی جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ ”ہندو ناراضگی“ کا باعث نہ بنے۔ عدالت نے اس حکم کو ”شرارت بھرا“ قرار دیا ہے۔
دہلی پولیس کا فسادات سے متعلق مقدمات کی تفتیش اور کاروائی میں متعصبانہ و جانبدارانہ رویّہ دہلی فسادات متاثرین کو انصاف ملنے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ دہلی پولیس مسلم طبقے کے خلاف کاروائی کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ فسادات کو روکنے میں دہلی پولیس کی ناکامی پر کافی تنقید کی گئی تھی۔ دہلی اقلیتی کمیشن سمیت کئی فیکٹ فائنڈنگ ٹیموں کی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح پولیس کاروائی کرنے، مظلوموں کی مدد کرنے اور فسادات کو روکنے سے خود کو باز رکھے ہوئے تھی جبکہ تشدد ٹھیک اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ متعدد عینی شاہدین کے مطابق، پولیس نے ہندو بھیڑ کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا اور بسااوقات وہ خود بھی تشدد اور توڑ پھوڑ میں پوری طرح سے شامل رہی۔
پاپولر فرنٹ کی قومی مجلس عاملہ کے رکن ایڈوکیٹ اے محمد یوسف کی جانب سے داخل کی گئی ایک آر ٹی آئی پر دہلی پولیس کا جواب ایک اور مثال ہے جو انصاف کے تئیں دہلی پولیس کے عہد پر پانی پھیر دیتا ہے۔ دہلی پولیس نے ایف آئی آر اور ریمانڈ کی درخواستوں کی تفصیلات، ایف آئی آر میں ملزمین کی پہچان، ان کی ضمانت کی تفصیلات، داخل کردہ چارج شیٹ کی تعداد اور تفصیلات وغیرہ جیسی کئی اہم معلومات چھپا لی ہیں۔ 34 سوالات پر مشتمل آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں دہلی پولیس نے محض 6 سوالوں کے جواب دئے ہیں – جو کہ صرف درج مقدمات کی تعداد اور گرفتاریوں کی تعداد کے متعلق ہیں۔ جواب کی تاریخ یعنی 22 جولائی تک پولیس نے 1142 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ ان میں کتنے مسلمان اور کتنے ہندو ہیں اور وہ کن کن جماعتوں سے وابستہ ہیں اور ان پر کیا مقدمات لگائے گئے ہیں۔ پولیس نے یہ کہتے ہوئے کہ ایسی معلومات سے لاء اینڈ آرڈر میں خلل پیدا ہو سکتا ہے، ملزمین کی پہچان یا ان کے جرائم کی فطرت سے متعلق معلومات کو چھپا لیا۔ یہ بہانہ ناقابل قبول ہے اور ایسے مقدمات کی ایف آئی آر میں درج تفصیلات کو چھپانا سپریم کورٹ کی ہدایات کے خلاف ہے۔ ایک جمہوری ملک میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو، لوگوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ آیا انصاف ملا یا نہیں۔
مکمل معلومات سامنے نہ لاکر غیرجانبداری کا فرضی تاثر قائم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ ایسے مسلم کارکنان، تنظیموں اور عام مسلمانوں کو بھی پھنسایا گیا ہے جن کا دہلی فسادات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف تشدد کی کھلے عام دعوت دینے والے ہندوتوا لیڈران قانون کی پکڑ سے آج بھی دور ہیں۔ قانون پر عوام کا کمزور ہوتا یقین ایک بڑا خطرہ ہے اور انصاف کو یقینی بناکر ہی اسے روکا جا سکتا ہے۔ او ایم اے سلام نے دہلی فسادات سے متعلق تمام مقدمات کی ہائی کورٹ کی نگرانی میں عدالتی تفتیش کا مطالبہ کیا۔