ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے 19جولائی تا 22 جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ، دیگر اخبارات ورسائل کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔ آج سفرنامہ کی آخری قسط ملاحظہ فرمائیں ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر
(گذشتہ سے پیوستہ)
دبئی ایئر پورٹ کا قابل ستائش نظام
ہماری روانگی ابوظہبی ایئر پورٹ سے ہوئی تھی تاہم واپسی کا پروگرام دبئی ایئر پورٹ سے تھا دبئی انٹر نیشل ائیر پورٹ کا شمار دنیا کے اہم ترین اور ٹاپ ہوائی اڈہ میں ہوتاہے ،دنیا کے اکثر ممالک کیلئے براہ راست وہاں سے فلائٹ جاتی ہے ،ایئر پورٹ کا رقبہ بہت بڑا ہے ،اندرون ایئر پورٹ میٹرو ٹرین چلتی ہے اور مسافروں کو میٹرو ٹرین کے ذریعہ ہوائی جہاز تک لے جایاجاتاہے ،دبئی ایئر پورٹ پر سخت اژدحام اور دنیا بھر سے لوگوں کے آمدورفت کے باوجود سیکوریٹی کا نظام بہت ہی آسان اور سہل ہے ،امیگریشن سے پہلے یعنی سامان بک کرانے کے مرحلے تک کوئی چیکنگ نہیں ہوتی ہے ہر کوئی آسکتاہے ،بوڈنگ کے بعد جہاں سے فلائٹ کیلئے راستہ شروع ہوتاہے ٹکٹ چیک کیا جاتاہے وہ بھی انتہائی آسانی کے ساتھ ،اگر ہندوستان کے ایئر پورٹ سے موازنہ کیا جائے تو حیرانی ہوتی ہے کہ اتنا بڑا ایئر پورٹ ہونے کے باوجود انتہائی آسان ہے ،کسی طرح کی دشوار ی کا سامنا نہیں کرناپڑتاہے ،کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی ہے ،عملہ خندہ پیشانی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور نہ ہی دس جگہ چیکنگ ہوتی ہے ۔
امیگریشن سے اسٹاف سے اردو زبان میں گفتگو
دبئی ایئر پورٹ پر امیگریشن اور دیگر تمام اہم امور پر عرب شہری ڈیوٹی پر مامور نظر آئے ،سبھی جبہ زیب تن کئے ہوئے تھی ،عرب لڑکیاں بھی برقعہ میں اپنی ڈیوٹیاں انجام دے رہی تھیں،امیگریشن پر مامور ایک عرب کو ہم نے سلام کیا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اردو زبان میں پوچھاکہ کیساہے ،مجھے تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی اگلاسوال انہوں نے کیا ،کام ملا؟میں نے جواب دیا ۔ وزٹ کیلئے آیاتھا ،پھر انہوں نے پوچھ دیا کیسا لگا دبئی ،دوبارہ آئے گا ،اردو زبان میں ان کی گفتگو سن کر بہت خوشی ہوئی ،آتے وقت بھی ابوظہبی ایئر پورٹ پر ایک عرب سے ہم نے عربی میں پوچھا کہ کہ باہر والوں کیلئے کونسی لائن ہے اور جواب انہوں نے اردو میں دیا ۔
دبئی میں نہ تو زبان کی اجنبیت محسوس ہوئی اور نہ ہی تہذیب وثقافت کا فرق نظر آیا ،جہاں بھی ہم نے عربی زبان یا انگلش زبان میں بات کرنے کی کوشش کی جواب اردو میں ملا،تعجب اس بات پر ہوا کہ ہندوستان کے صوبہ کیرالاسے تعلق رکھنے والے یہاں اردو نہیں بول پاتے ہیں ،مالدیپ میں بھی میں نے یہ محسوس کیا کیرالاوالے اردو یا ہندوی سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں لیکن دبئی میں کیرالاوالے بھی اردو بولتے ہوئے نظر آئے۔
ایئر پورٹ پر اذان کی صدا
سامان کی بکنگ ہوجانے اور امیگریشن کاؤنٹر کی چیکنگ سے فراغت حاصل کرلینے کے بعد جب ہم میٹرو پر سوارہونے جارہے تھے اسی دوارن ایئر پورٹ پر اللہ اکبر کی صدا گونجنے لگی ،اب تک کی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی ایئر پورٹ پر میرے کانوں میں اذان کی آواز سنائی دی، یہ منظر دیکھ کر ،ایئر پورٹ پر اذان کی صداسن کر مجھے طبعی خوشی ہوئی ،میرے دماغ میں ماضی کی تاریخ گردش کرنے لگی ،تاریخ میں پڑھی ہوئی باتیں یہاں مشاہدہ کے طور پر نظر آنے لگی ،ایسالگا کہ یہ وہی مملکت ہے جس کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ منورہ کی ایک معمولی ریاست سے کیاتھا،یہاں اسلام کے ماننے والے ہیں،مسلم شعار اور ثقافت کی نمائندگی ہوتی ہے ،ایئر پورٹ پر اذان یا اس جیسے مناظر کا تذکرہ ممکن ہے بہت سے لوگوں کیلئے عجوبہ نہیں ہوگا اور وہ اس پر تنقید بھی کریں گے کہ اس میں کیاجدت پن ہے ،لیکن میرے لئے یہ اہم ہے کیوں کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں ایئر پورٹ ،ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ پر عموما اذان کی آواز یں سننے کو نہیں ملتی ہیں،ہر چند کہ دہلی کے اندراگاندھی انٹرنیشل ایئر پورٹ پر مسجد کیلئے تمام سہولیات کے ساتھ ایک جگہ مختص ہے جہاں مسلمان نماز پڑھتے ہیں، ممکن ہے دیگر مسلم ملکوں میں بھی ایئر پورٹ پر مسجدوں میں مائک سے اذان دی جاتی ہوں گی ۔
دبئی کانائٹ سین
ایئر پورٹ پڑ رخصت کرنے آئے مولاناحسان جامی صاحب نے بتایاکہ فلائٹ سے دبئی کا منظر بہت ہی خوبصورت اور حسین دکھے گا،ادھر ادھر دیکھنے اور اندرون فلائٹ نظر رکھنے کے بجائے نائٹ سین دیکھ لیجئے گا ،ان کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم نے ٹیک آف ہونے کے بعد کھڑکی سے باہر جھانکنا شروع کیا ،ونڈو سیٹ پرڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی صاحب قبضہ کرچکے تھے تاہم میں بھی پوری طرح جھانک کر دیکھ رہاتھا،ٹیک آف ہونے کے بعد کیپٹن فلائٹ کو دھیمی رفتار کے ساتھ سمندر کے اوپر سے لیکر جارہاتھا،سمندر اور فلائٹ میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں تھا،کشتیاں اور پانی صاف دکھ رہے تھے ،کسی کسی وقت ایسابھی محسوس ہواکہ جہاز اور سطح سمندر کے درمیان صرف تیس چالیس میٹر کا فاصلہ رہ گیاہے ،دوسری طرف پورا دبئی جگمگ جگمگ کررہاتھا،پورا شہر روشن نظر آرہاتھا،لائٹ کا یہ خوبصورت نظام ایک عجیب کشش پیدا کئے ہوئے تھا ،سچ یہ ہے کہ رات کے اس خوبصورت منظر کی عکاسی کیلئے میرے پاس موزوں الفاظ نہیں ہے ،میں چاہ کر بھی اس کی صحیح منظر کشی نہیں کرپارہاہوں، فلائٹ بھی دھیمی رفتار کے ساتھ پوری دبئی کا نظارہ کرارہی تھی ،سمند ر کے اوپر سے فلائٹ جارہی تھی اور دونوں جانب دبئی کا نائٹ سین نظر آرہاتھا جس کیلئے اسے عالمی شہرت حاصل ہے ۔ہندوستان آنے کے بعد ایک صاحب سے میں نے یہ تذکرہ کیا فلائٹ نے سمندر کے درمیان سے گزرتے ہوئے پورے دبئی کا نظارہ کرایا،ایسالگ رہاتھاکہ طیارہ کو اس کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے ،انہوں نے بتایاکہ رات میں پروان بھرنے والے ہر طیارہ کو یہ ہدایت حاصل ہے ،یہ صرف آپ کے طیارہ کی خصوصیت نہیں تھی۔
ہندوستان واپسی
تین گھنٹہ کا سفر طے کرنے کے بعدصبح چار بجے دہلی کے اندرا گاندھی انٹر نیشنل ایئر پورٹ پرہم پہونچ گئے جہاں سے 19 جولائی کی صبح ہماری روانگی ہوئی تھی ،دبئی کے وقت کے مطابق رات کے دس بجے اور ہندوستانی وقت کے مطابق بارہ بجے دبئی ایئر پورٹ کے ٹرمنل ون سے فلائٹ پرواز بھری تھی اور صبح چاربجے تقریبا لینڈ ہوگئی،اسی ایئر پورٹ پر جیٹ ایئر ویز کی فلائٹ سے ہم واپس پہونچ گئے جہاں سے میری روانگی ہوئی تھی جانے کا ٹکٹ سے بھی جیت ایئر ویز سے تھا،فلائٹ سے نکلتے وقت ایئر ہوسٹس گیٹ پر کھڑی ہوکر مسافروں کو معمول کے مطابق تھینکس کہنے کے بجائے ایک گریٹنگ کارڈ دے رہی تھی جس میں لکھاتھا’’ ہم کبھی الوداع نہیں کہتے ہیں، ہمارا سلوگن ہے ،دوبارہ پھر ملیں گے ‘‘اسی سلوگن کے ساتھ ہم اس مختصر سفرنامہ کا اختتام کررہے ہیں کہ دبئی والوں سے پھر ملاقات ہوگی ،متحدہ عرب امارات کا پھر سفر ہوگا،اس سرزمین پر پھر حاضری ہوگی۔ (انشاء اللہ تعالی العزیز)۔