غزہ/یروشلم: صہیونی فوج نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدہ ہونے کے ہفتے بھر کے اندر ہی فلسطینی علاقے غزہ پر فضائی حملہ کیا۔ علاقے سے اسرائیل کی طرف راکٹ حملے کا الزام۔ معاہدوں کے زیر تکمیل ہونے کے سبب حملوں کے تعلق سے میڈیا میں کوئی بیان نہیں ، فلسطینی عوام کا احتجاج اب بھی برقرار۔
ایک طرف عرب ممالک خطے میں امن قائم کرنے کے نام پر اسرائیل سے معاہدہ کرنے کو بے تاب ہیں تو دوسری طرف صہیونی فوج نے متحدہ عرب امارات سے تعلقات استوار ہونےکے ایک ہفتے کے اندر ہی فلسطینی شہر غزہ پر بمباری شروع کر دی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی خبر میڈیا میں کافی تاخیر سے آئی۔ ا سرائیلی فوج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے بدھ کو غزہ پر فضائی حملے کئے تھے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ اور گیس سے بھرے غباروں کے حملوں کے جواب میں کئے گئے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ یہ حملے جنگجو تنظیم حماس کے ٹھکانوں پر کئے گئے ہیں ۔ حملوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں اور دیگر نقصان کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں ۔ مقامی سطح پر مصروف کار صحافیوں نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کے بعد سے غزہ اور مقبوضہ غربِ اردن میں کشیدگی ہے جس کے بعد غزہ سے اسرائیلی علاقوں پر چند راکٹ داغے گئے۔ اس کے علاوہ آتش گیر گیس کے غبارے بھی چھوڑے گئے جن سے اسرائیلی علاقوں میں کھڑی کئی فصلیں جل کر تباہ ہو گئیں ۔
جمعرات کے بعد سے دونوں جانب سے کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے لیکن فلسطینی علاقوں میں کشیدگی برقرار ہے اور مظاہرے بھی ہوئے ہیں ۔ اطلاع کےمطابق عام طور پر اس طرح کے حملوں پر اسرائیل میں کافی بات ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ تقریباً خاموشی ہے۔ اسرائیل اس وقت اپنے فضائی حملوں کی زیادہ تشہیر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس وقت اس کے نمائندے یو اے ای میں موجود ہیں جو معاہدے کو حتمی شکل دے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیل کو دیگر عرب ریاستوں سے بھی تعلقات میں پیش رفت کی امید ہے۔ لہٰذا اس موقع پر فلسطینیوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ساتھ حالیہ معاہدے کو اسرائیل اپنی بڑی کامیابی سمجھتا ہے اور اس وقت فلسطینیوں کے ساتھ کسی بڑے تنازع میں الجھ کر معاہدے کے راستے میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنا چاہتا۔ وزیراعظم نتن یاہو حال ہی میں کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل متحدہ عرب امارات اور تل ابیب کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کرنے کے لئے بھی کام کر رہا ہے جو سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزریں گی یعنی انھیں اب سعودی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔
مقامی صحافیوں کاکہنا ہے کہ اس معاہدے سے ’فلسطینیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ انھیں صرف زبانی جمع خرچ پر ہی ٹرخایا جا رہا ہے۔ان کاکہنا ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تیزی سے بہتر ہوتے تعلقات پر فلسطینی سخت مایوس اور غصے میں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقوں کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی پیشکش ’ایک مذاق ہے کیونکہ یہ علاقے پہلے ہی مکمل طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں ‘۔ وزیر اعظم نتن یاہو مقبوضہ غربِ اردن کے علاقوں کو اسرائیل میں کبھی ضم کرنا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ علاقے پہلے ہی اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں اور انھیں باقاعدہ طور پر ضم کر کے وہ کسی تنازع میں نہیں الجھنا چاہتے ۔
اسرائیل میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غربِ اردن کے مقبوضہ علاقوں کو ضم نہ کرنے کا جواز مل جانے سے وزیراعظم نیتن یاہو کو ایک بڑا سیاسی تحفہ مل گیا ہے کیونکہ ان پر اسرائیل کے اندر یہ دباؤ تھا کہ ان علاقوں کو اسرائیل کا حصہ بنایا جائے۔ صدر ٹرمپ، بنیامین نیتن یاہو اور ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید النہیان نے گزشتہ جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ اس امن معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گا۔ یہ شرط محض اس معاہدے کا بہانہ ہے ۔ اس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے ہاتھ ملانے کا جواز مل گیا جبکہ نیتن یاہو کو اسرائیلیوں سے الیکشن میں کئے گئے وعدے کو ٹالنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ غرب اردن کے علاقوں سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں تاکہ فلسطینی زمینوں پر اس کا دعویٰ قانونی ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اس معاہدے کو ان کے پیٹھ میں خنجر تصور کر رہے ہیں ۔