ڈاکٹر الفیہ نوری کی رپوٹ
ملت ٹائمز
بزمِ صدف نے راحت اندوری کی یاد میں جو علمی مذاکرہ اور مشاعرہ منعقد کیا،اس کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس میں ہم عصر شاعری کے اتنے اچھے نمونے سامنے آئے جس سے اس بات کا ثبوت فراہم ہو ا کہ آج بھی مشاعروں میں اگرمنتخب شعرا مدعو کیے جائیں اور کسی متشاعریا فضول قسم کے شاعر یا شاعر نماحضرات کو شامل نہ کیا جائے تواب بھی مشاعرے کا وقار بحال ہو سکتا ہے۔بزمِ صدف کے مشاعرے کی صدارت برطانوی شاعر اور بزمِ صدف بین الاقوا می ایوارڈ یافتہ باصر سلطان کاظمی نے کی اور نظامت کے فرائض بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ یافتہ شاعر اور ادیب ڈاکٹرواحد نظیرنے انجام دیے ۔صدر اور ناظم کے شامل مشاعرے میں چودہ شعرائے کرام شامل تھے۔عوامی مشاعروں میں اکثراچھے شعرا بھی بازار کے مطابق شعر پیش کر کے اپنا اور مشاعرے کا معیار خراب کرتے ہیں مگربزمِ صدف کے آن لائن مشاعرے میں شروع سے ہی ایک ادبی وقاربحال رہا جس کی وجہ سے شعرائے کرام نے اپنے بہترین اشعار سے دنیا بھر کے سننے والوں کو محظوظ کیا۔فیس بُک لائیو اور دوسرے ذرائع سے دنیا کے درجنوں ملکوں میں شائقین اس مشاعرے کو دیکھ اور سُن رہے تھے ،اس لیے تمام شعرا نے اپنے چنندہ اشعار پیش کیے اور سب کے حلقہ¿ اثر میں اضافہ ہوا۔
مشاعرے کے آغاز سے پہلے ناظمِ مشاعرہ نے مکتبہ¿ صدف کی طرف سے ڈاکٹر عابدہ پروین اور نیلوفر یاسمین کی مرتبّہ صفدر امام قادری کے خاکوں کی کتا ب’ جانے پہچانے لوگ‘ کے اجرا کااعلان کیا۔وبائی صورتِ حال میں آن لائن اجرا کا یہ موقع سامنے آیا تھا ۔ واحد نظیر صاحب نے اپنے تعارفی کلمات میں اس بات کی وضاحت کی کہ بزمِ صدف اپنے ہر پروگرام میں اپنی تازہ مطبوعات کی اشاعت اور پیش کش کا انتظام کرتی رہی ہے ۔ اسی روایت کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بین الاقوامی مشاعرے میں معروف نقاد صفدر امام قادری کے پندرہ خاکوں کے مجموعے کا اجراعمل میں آیا۔اس کتاب میں صفدر امام قادری نے اپنے والد اشرف قادری اور والدہ کے ساتھ اپنے اساتذہ پروفیسر نا ز قادری، پروفیسر راحت حسین اور سید ہاشم رضا کے خاکے قلم بندکیے ہیں ۔ ان کے علاوہ ممتاز مصنفین شفیع جاوید ،وہاب اشرفی ،مجتبیٰ حسین ،اسرار جامعی، حبیب تنویر ،ش۔ مظفر پوری،مختار الدین احمد،محمد مختار وفا، مرزا کھونچ اور منظر سلطان کے خاکوں سے یہ کتاب آراستہ ہوئی ہے۔واحد نظیر نے یہ توقع ظاہر کی کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں پسندیدہ نگاہوں سے ملاحظہ کی جائے گی۔
یہ مشاعرہ ممتاز اور مقبول شاعر راحت اندوری کی یا د میں منعقد کیا گیا تھا، اس لیے ناظمِ مشاعرہ ڈاکٹر واحد نظیر نے راحت اندوری کی نعت سے محفل کا آغاز کیا۔ان دو اشعار پہ محفل جھوم اٹھی:
اگر نصیب قریبِ درِ نبی ہو جائے
مری حیات مری عمر سے بڑی ہو جائے
میں میم حے لکھوں اور پھر میم دال لکھوں
خدا کرے کہ یوں ہی ختم زندگی ہو جائے
مشاعرے کے پہلے شاعر کے طور پر جھارکھنڈ ، رانچی سے نئی نسل کے ابھرتے ہو ئے شاعر تسلیم عارف کو زحمتِ سخن دی گئی۔تسلیم عارف نے پہلے تحت اور پھر ترنم سے اپنے اشعار سنائے۔ان کے درج ذیل اشعار پہ خوب خوب داد ملی:
کوئی بھی ایسی ڈگر نہیں ہے
جہاں غموں کا گزر نہیں ہے
خدا کا جس دل میںڈر نہیں ہے
مری نظر میں بشر نہیں ہے
کویت میں مقیم مسعود حساس نے اپنے عہد کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کئی غزلیں سنائیں۔زبان کی سطح پرانھوں نے تجربہ پسندی سے تمام سننے والوں کو متاثر کیا۔ان کی پیش کش کا انداز بھی بڑا رواں اور پُر اثر تھا۔ ان کے ذیل کے اشعار داد حاصل کرنے میں کا میاب رہے:
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
ذرا سی بات تھی دل پھر بھی آج بھر گیا ہے
قضا کے آنے سے پہلے ہی کوئی مر گیا ہوگا
اب اس پہ کیسے بھلا کوئی اعتبار کرے
زبان دے کے کئی بار وہ پلٹ گیا ہے
ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش نے لندن سے مشاعرے میںشرکت کی ۔وہ بزمِ صدف قطر کے نائب صدر ہیں۔انھوں نے حالاتِ حاضرہ اور وبائی ماحول کے پیش ِ نظر چند ایسے اشعار پیش کیے جن سے بدلی ہوئی دنیا کا ہر پہلو روشن تھا۔انھوں نے مختلف غزلوں سے جو اشعار سنائے ،ان میں درج ذیل سب سے پسندیدہ قرار پائے:
اے چاند دیکھ تجھ سے ہی ملنے کی آس میں
نکلے ہیں ہم سفر پہ خلائی لباس میں
گنتی ہیں، ہندسہ ہیں اجل کے شمار میں
ہم کیا ہیں ہست و بو¾د کے اس کاروبار میں
ٹھہریں گے تھوڑی دیر مسافر پڑاو میں
کب تک رکیں گے خیمہ¿ نا پایدار میں
ٰدیکھو کسی کی یاد میں راتوں کو جاگ کر
بے چینوں کا لطف کہاں ہے قرار میں
دانش بلا وا دوست کا آجائے کس گھڑی
ہم سب کھڑے ہوئے ہیں اسی انتظار میں
بزمِ صدف کے اس مشاعرے میں قطر کی نمائندگی’ دست رس‘ شعری مجموعے کے خالق احمد اشفاق کر رہے تھے۔حالات کی بے یقینی اور زندگی کی صبر آزما کیفیتوں کو انھوں نے اپنے اشعار میں شامل کیا تھا۔انھو ں نے اپنے مخصوص انداز میں دو غزلیں پیش کیں جن کے مختلف اشعار پر انھیں خوب خوب داد ملی۔ چند اشعار ملاحظہ ہو ں:
جدھر بھی پانو رکھوں راستا بنا ہوا ہے
ترا وجود مسلسل دعا بنا ہوا ہے
کئی دنوں سے کوئی خیریت نہیں اس کی
خموشیوں کا عجب سلسلہ بنا ہوا ہے
ابھی ابھی تو میں لوٹا تمام کرکے سفر
نئے سفر کا نیا وسوسہ بنا ہوا ہے
آج اس کے جنازے میں ہے اک شہرصف آرا
کل مر گیا جو آدمی تنہائی کے ڈر سے
بزمِ صدف کی نئی نسل انعام یافتہ شاعرہ عشرت معین سیماجرمنی سے مشاعرے میں شریک ہوئیں۔وہ ایک ساتھ شاعر ، افسانہ نگاراورتنقید نگار ہیں۔انھوں نے عالمی حالات کے پیشِ نظر چندنئے اشعار پیش کیے جن میں ایک طرف بے بسی کی کیفیت تھی تو اسی کے ساتھ مقابلہ آرا ہو نے کا حوصلہ بھی نظر آیا۔ان کے جو اشعارپسند کیے گیے، ان میں سے چند حسبِ ذیل ہیں:
اب کے سوچا ہے کہ ہم جشن منا ہی لیں گے
خونِ ناحق سے چراغوں کو جلا ہی لیں گے
کب تلک پانو کی زنجیر کو روئیں ہم سب
آج اک رقص کی محفل کو سجا ہی لیں گے
اب ہے اس موجِ تلاطم سے بچانا مشکل
ہم سفینے کو کسی پار لگا ہی لیں گے
سر پہ ڈالی ہے جو تم نے مرے ارمانوں کی
ہم نے سوچا ہے کہ وہ خاک اُڑا ہی لیں گے
مشاعرے کے ناظم ڈاکٹر واحد نظیر کو بہ طورِ شاعر ڈاکٹر ندیم ظفرجیلانی نے مختصر تعارف کے ساتھ آواز دی۔واحد نظیر محقق ،نقاد،نعت خواں اور غزل گو کے طور پر معروف ہیں۔انھوں نے اپنی مرصّع غزل پیش کی جس کے ایک ایک شعر پر انھیں شعرائے کرام نے داد دی۔ان کی غزل لفظیات اور مزاج کے اعتبار سے بالکل مختلف تھی، اسی لیے انھوں نے خصوصی توجّہ حاصل کر نے میں کا میابی پائی۔چند اشعار ملاحظہ کریں:
جبینِ وقت پر منصف نے کب ہے فیصلہ لکھا
رہا محکوم ، حاکم نے اسے جب جو کہا لکھا
یہ کیسے دور میں لوح و قلم سونپے گئے ہم کو
پڑھے لکھوں کے کام آئے نہ کچھ بھی پڑھا لکھا
میں اپنا حال کیا لکھوں بس اپنے ملک جیسا ہے
بہت ہیں مسئلے لیکن نہیں کچھ مسئلہ لکھا
ہمارے چاند سے چندن کی خوش بو¾ بھی نکلتی ہے
پھر اس کو چاند سے اچھا لکھا تو کیا برا لکھا
اب مشاعرے میں ناظم نے بزمِ صدف کے ڈائریکٹر پروفیسر صفدر امام قادری کو آواز دی ۔ وہ نقاد اور محقق کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں مگر انھوں نے گاہے بہ گاہے شعر بھی کہے ہیںجو رسائل و جرائد میں شائع ہو تے رہے ہیں ۔ان کے ان شعار کو محفل میں تو جہ کے ساتھ سنا گیا:
لپٹا ہوا ہے جسم سے جو بوجھ ہٹ سکے
سو¾رج کرو بلند کہ سایہ بھی گھٹ سکے
منھ میں ایک لفظ نہیں، ہاتھ میں زنجیریں ہیں
گھپ اندھیرے میں مرے خواب کی تعبیریں ہیں
قتل کے خونیںمناظر دیکھتے رہ جائیں گے
اس وراثت میں ہمارے مسئلے رہ جائیں گے
سب کے کاندھے پر سلگتے موسموں کا قہر ہے
ایٹمی بارش میں آدم کھوکھلے رہ جائیں گے
اس نگر سے روٹھ کر کب کی گئی تازہ ہوا
آدمی کی شکل میں بس مرثیے رہ جائیں گے
کئی یگوں کے فسانے تھے میری آنکھو ں میں
یہ اور بات کہ خاموش و بے صدا میں تھا
ہر ایک سمت سے یلغار تھی رفیقوں کی
فراتِ وقت پہ سالارِ کربلا میں تھا
جدّہ، سعو دی عرب سے بزرگ شاعر مہتاب قدر بزمِ صدف کے اس مشاعرے میں شرکت فرما رہے تھے۔انھوں نے چند قطعات اور پھر غزل کے اشعار پیش کیے۔ ان کے کلام میں طنز اور روحِ عصر کی یکجائی سے ایک اثر آفریں کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ انھوں نے ایک مختصر سی نظم بھی پیش کی جس میں سماج اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے انسانیت نواز قوتوں کو بے دار کرنے کا تازیانہ پیش کیا گیا تھا ۔ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں ©:
الٹ کے کاسہ اسے تاج کرکے دیکھتے ہیں
چلو فقیری میں اب راج کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس سے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں
تو کل کے کام چلو آج کر کے دیکھتے ہیں
مشاعرے میں لکھنو¿سے مقبول شاعر حسن کاظمی شریک تھے۔ حسن کاظمی نے خاص طور سے راحت اندوری کے ارتحال پر اپنے رقّت آمیز تاثرات کا اظہار کیا۔حسن کا ظمی اپنے دیرینہ تعلقات واضح کرتے ہو ئے راحت اندوری کی یا د میں ایک ایسی غزل پیش کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا ہر شعر رنج و غم اور یادوں کی درد آمیزی سے تیار ہو ا تھا۔ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
کوئی نشان، کوئی نقشِ پا نہیں ملتا
وہ آس پاس ہے لیکن پتا نہیں ملتا
چہک سے جس کے مرے گھر میں ایک رونق تھی
کہاں گیا ہے وہ پنچھی، پتا نہیں ملتا
وہ ساتھ تھا تو مری رہ گزر بھی آساں تھی
بچھڑ گیا تو کوئی راستا نہیں ملتا
کبھی دعائیں نہ مانگیں ،بس اس بھرم کے لیے
میں مانگتا جو خدا سے تو کیا نہیں ملتا
بھری بہار میں کیسی ہوا چلی ہے حسن
کسی بھی شاخ کا پتّا ہرا نہیں ملتا
امریکہ سے محتر مہ حمیرارحمان بزمِ صدف کے اس مشاعرے میں شرکت کررہی تھیں۔نئی تانیثی شاعری میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔انھوں نے نئے معنوی نظام سے پرانے الفاظ کو روشنی بخشی تھی۔حمیرارحمان کی شاعری میں مہجری سو ز اور گذشتگان کا ایک نوحہ بھی نظر آیا۔ ان کے بعض اشعار میں وبائی ابتلا کی کش مکش بھی دیکھنے کو ملی۔ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ ہو ں:
نڈر نہیں تھے مگر یہ کمال کرتے رہے
محبتوں میں بہت سے سوال کرتے رہے
وہ کون تھے جو کسی کے مقابلے پہ نہ تھے
مگر شکست کو ذاتی خیال کرتے رہے
کوئی چراغ حمیرا جلا نا آیا نہیں
اندھیرے بڑھنے کا پیہم ملال کرتے رہے
بہت دن ہو گئے ہیں غار سے باہر نکلنا ہے
ہمیں خود اپنے استفسار سے باہر نکلنا ہے
مہینوں سے کوئی اچھی خبر چھو¾ کر نہیں گزری
ہمیں ہر روز کے اخبار سے باہر نکلنا ہے
حمیرا جس میں رہ کر خواب سے رشتہ نہیں رہتا
ہمیں اس لمحہ¿ بے دار سے باہر نکلنا ہے
اس مشاعرے میں کینیڈاسے محترمہ شاہدہ حسن شریک ہوئیں۔اگرچہ انگریزی زبان وادب کی پروفیسر رہیں مگر ان کی بنیادی شناخت ایک اردوشاعرہ کی ہے ۔انھوں نے ہجرت در ہجرت کے مسائل ملاحظہ کیے ہیں ۔ اس لیے ان کی شاعری میں زندگی کا بے حد گہراشعور نظر آتا ہے ۔ وقت کی نہ جانے کتنی جانی انجانی راہیں ان کی شاعری میں یکجا ہو کر کلام کو جاودانی بخش رہی ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ اب نہ ہوگا کہ پھر ان آنکھوں کو خواب کو ئی نیا ملے گا
ہم اپنے سارے چراغ لے کر چلیںگے تو راستا ملے گا
شور اِ ک ہوش رُبا ہے مجھ میں
کتنا سنّاٹا بسا ہے مجھ میں
کبھی ہونے نہیں دیتا تنہا
کون یہ بول رہا ہے مجھ میں
سوکھے پتوں کی طرح اُڑتی ہوں
کس قدر تیز ہوا ہے مجھ میں
بہہ نکلتا ہے میری آنکھوں سے
اک سمندر جو چھپا ہے مجھ میں
تھام لیتا ہے مجھے گِرتے وقت
مجھ کو لگتا ہے خدا ہے مجھ میں
کسی نے پوچھا جو مجھ سے مری محبتوں کا جواز کیا ہے
میں رفتگاں کی روش کو سلام کرتی ہوئی ملوں گی
دہلی اردو اکادمی کے نائب صدر پروفیسر شہپر رسول کو ناظمِ مشاعرہ ڈاکٹر واحد نظیر نے ان کے بعض مشہور اشعار کا حوالہ دیتے ہو ئے شعر پڑھنے کے لیے مدعو کیا۔ہم عصر اردو شاعری میں شہپر رسول اپنے مخصوص معیار اورمنفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔روایت اور جدت کے درمیان ایک ہم آہنگی اور امتزاج پیدا کرنے میں انھیں جو کامیابی ملی، اسی سے ان کے اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں۔انھوں نے شعرائے کرام کی فرمایش کا لحاظ رکھتے ہوئے متفرق اشعار کے ساتھ تین غزلیں پیش کیں:
میں نے بھی دیکھنے کی حد کر دی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا
میری تنہائی کی خوابوں سے شناسائی ہے
یہ بھی اک زاویہ¿ انجمن آرائی ہے
بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں ، نظر آﺅں کس کو
میری وحشت ہی یہاں میری تماشائی ہے
اس قلندر کو بھی مطلوب ہے شہرت شہپر
جس کو مجذو¾ب سمجھتے ہو، وہ دنیا ئی ہے
محفل میں جب سے اس نے پکارا ہمارا نام
دشمن بنا ہوا ہے ہمارا، ہمارا نام
تم کو پکارتے ہیں ، ہمیں دیکھتے ہیں لوگ
جیسے کہ ایک ہی ہو تمھار ا ہمارا نام
بد دعا اس نے مجھے دی تھی، دعا دی میں نے
اُس نے دیوار اٹھائی تھی، گِرا دی میں نے
شہر سے میرے تعلق کا سبب پوچھا گیا
سادگی میں تری تصویر بنا دی میں نے
اس نے سیلاب کی تصویر بنا بھیجی تھی
اسی کاغذ سے مگر ناو بنا دی میں نے
ابو ظہبی سے جناب ظہور الاسلام جاوید شریک ِ بزم تھے۔وقت کے نشیب وفراز اور ہجرت کے صبر آزما مراحل میں زندگی کی بنتی اور بگڑتی شکلوں کو انھوں نے اپنے اشعار میںپیش کر کے مشاعرے کو عروج تک پہنچایا۔مختلف غزلوں کے جو اشعار لوگوں نے خصوصی توجہ سے سنے،ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:
کسی کے سجدہ¿ حق پہ جبین رونے لگی
کسی نے ایڑیاں رگڑیں زمین رونے لگی
ہمیں معلوم ہے اس سے محبت کیسے کرنی ہے
کہاں پر بھول جانا ہے ، کہاں پر یاد رکھنا ہے
کوئی لمحہ تکبر کا کبھی طاری نہ ہو جائے
ڈرو اس سے وہی لمحہ کہیں بھاری نہ ہو جا ئے
دل ٹٹولا شبِ تنہائی تو محسوس ہوا
ہم بھی اے دوست ترے چاہنے والے نکلے
میں یہ سمجھا کہ کوئی نرم زمیں آ پہنچی
غور سے دیکھا تو وہ پانو کے چھالے نکلے
مشاعرے کی صدارت ممتاز شاعر ناصرکاظمی کے صاحب زادے برطانیہ میں مقیم جناب باصر سلطان کاظمی کر رہے تھے۔2018ءمیں بزم،ِ صدف نے انھیں اپنا بین الاقوامی ایوارڈ پیش کیا تھا۔اردو کے مہجری سرمایہ¿ ادب میں باصر سلطان کاظمی کا ایک خاص مقام ہے۔ناظمِ مشاعرہ نے ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ خاص بات بتائی کہ آس پاس کی چیزوں کو باصر سلطان کاظمی شعر کا قالب عطا کر دیتے ہیں۔باصر سلطان کاظمی نے کبھی طنز و مزاح کا روپ اختیار کیا اور کبھی اس میں اپنے عہد کا سوز پےوست کیا مگر ان کا کمال یہ تھا کہ کبھی ترسیل کی ناکامی ہاتھ نہیں آئی۔انھوں نے چند متفرق اشعار اور غزلوں سے سامعین کو سرشار کیا۔ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ملتا نہیںہے دشت نوردی میں اب وہ لطف
رہنے لگا ہے ذہن میں گھر کا اثر سوار
پڑا ہے آج ہمیں ایک مطلبی سے کام
خدا کرے کہ اسے ہم سے کام پڑ جائے
ہر بار تم کو اس کا کہا ماننا پڑے
باصر یہ دوستی تو نہیں نوکری ہوئی
مجنوں سے کہو کٹ چکی اک عمرجنوں میں
باقی کسی معقول طریقے سے گزارے
بے کار سے پتھر ہیں چمکتے ہیں جو شب کو
پوشیدہ ہیں دن میں تری قسمت کے ستارے
مشاعرے سے پہلے مذاکرہ منعقد ہو ا تھا جس میں اردو کو آزادی اور امن کی زبان کے طور پر پہچاننے کی کوشش ہوئی تھی۔شعرائے کرام کا استقبال بزمِ صدف کے چیر مین جناب شہاب الدین احمد نے کیا ۔سرپرست اعلا جناب محمد صبیح بخاری نے وبائی ماحول میں ایسے پروگراموں کی ضرورت پر زور دیا۔بزمِ صدف کے ڈائریکٹر جناب صفدر اما م قادری نے دنیا کے مختلف ملکوں کے شعرائے کرام کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا۔ جناب جاوید احمد اور جناب عابد انور صاحبان نے اس آن لائن پروگرام کو کامیاب بنانے والوں کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا۔اس طرح یہ مشاعرہ ایک خاص معیار اور علمی وقار کے ساتھ ہندستانی وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے رات میں اپنے انجام کو پہنچا۔