ایران میں سنی مدارس پر شکنجہ کسنے کی کوشش

عبد الحکیم شاہ بخش ایران
تقریبا گزشتہ نو سال سے اب تک ایران میں موجود اہل سنت برادری کے دینی مدارس پر دباو ڈالاجارہاہے کہ وہ ایک ریاستی ادارے کے فیصلے کے مطابق سرکاری تحویل میں چلے جائیں اور مالی، انتظامی اور ادارتی امور کو سرکاری سرپرستی اور مداخلت سے چلائیں۔
اگرچہ دینی مدارس کا جال اکثر سنی علاقوں میں بچھا ہوا ہے، لیکن ایران کے مشرقی صوبوں (سیستان بلوچستان، خراسان اور گلستان) میں غیرسرکاری مدارس کی تعداد کافی زیادہ ہے جو عوامی چندوں پر گزربسر کرکے دین کی خدمت میں مگن ہیں۔ نو سال پہلے جب ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل نے آرڈر دیتے ہوئے اصلاح مدارس کے بہانے پر دینی مدارس کی آزادی و حق خوداداریت پر شبِ خون مارنے کی کوشش کی اس وقت سوائے چند مدرسے کے جو جنوبی و شمالی اضلاع میں اس آرڈر کے تحت چلے گئے، ملک کے باقی تمام اصحاب مدارس نے اس ایکٹ کی سخت مخالفت کی اور ڈٹ کر اس ایکٹ کی بعض شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
متنازع شخصیت کے حامل سابق ایرانی صدر کے دور حکومت میں جہاں دیگر طبقات نے تلخیاں اور سختیاں جھیل کر نئی اعتدال پسند حکومت میں سکھ کا سانس لیا، وہیں سنی برادری کا بھی یہی خیال تھا کہ اب مشکلات و رکاوٹوں میں کافی کمی آئے گی۔ اگرچہ تین سال پہلے کی نسبت سے اہل سنت برادری کے آئینی حقوق میں کافی پیشرفت دیکھنے میں آچکی ہے اور صوبائی سطح پر کم از کم بلوچستان اور کردستان میں حالات کافی بہتر ہوچکے ہیں، لیکن پھر بھی پولیس گردی کی فضا اب بھی قائم و دائم نظر آتی ہے۔
گزشتہ ہفتوں اور مہینوں میں متعدد سنی اکثریت شہروں میں دینی مدارس کے مہتممین اور ذمہ داروں کو حساس اداروں کی جانب سے بلاکر ان پر دباو ڈالا گیا ہے کہ وہ دینی مدارس کے حوالے سے سرکاری قرارداد کے سامنے سرِتسلیم خم کریں اور سرکاری مالی تعاون کو قبول کریں۔
حال ہی میں اس حوالے سے سرکاری نمائندوں سے کچھ میٹنگز بھی منعقد ہوچکی ہیں اور انہیں اصحاب مدارس کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا جاچکاہے۔ اہل سنت کے علمائے کرام نے ہمیشہ تاکید کی ہے حکومت کو مدارس پر نظر رکھنے اور مانیٹرنگ کا حق ہے لیکن مداخلت کا حق ہرگز نہیں ہے۔ اگر حکومتی قرارداد کو مان لیا جائے، پھر نئے اساتذہ کی تقرری، اساتذہ و مہتممین کی تقرری یا برطرفی، درسی نصاب میں تبدیلی سمیت متعدد امور میں سرکار کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ اسی لیے جب تک ان خدشات کا ازالہ نہیں کیا جائے گا، حکومتی ایکٹ کو ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے کئی مرتبہ واضح کیا ہے کہ ہم ہرگز اپنے دینی امور کو حکومتوں کے سپرد نہیں کرتے ہیں۔ اگر زیادہ دباو ڈالاگیا، مدارس کو بند کرکے چھٹی کرادیں گے، لیکن اپنے دین کو کسی بھی حکومت کے حوالے نہیں کریں گے۔ سنی علمائے کرام نے ہمیشہ مدارس کی آزادی و خودمختاری پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنے تک آگے جاچکے ہیں۔
یوں معلوم ہوتاہے اب بھی جن علمائے کرام نے ماضی میں حکومتی سرپرستی ماننے سے انکار کیا ہے، وہ مدارس کی خودمختاری و آزادی پر حرف آنے نہیں دیں گے۔ اگرچہ یہ بات عین ممکن ہے کہ دونوں جانب سے اصولی موقف سے پسپائی کے بغیر ایک درمیانہ حل پر معاہدہ طے پائے اور کچھ مدتوں تک اسی پر عملدرآمد ہوجائے۔
اسی ہفتے کے آغاز میں چابہار شہر میں دینی مدارس کے مہتمم حضرات نے اپنے عمومی اجلاس میں سختی کے ساتھ موجودہ قرارداد کی مخالفت کی ہے جو مرشد اعلی کے نمائندوں کی زیرسرپرستی ایک الگ ادارے کی حیثیت سے مصروف عمل ہے۔ مستقبل میں کیا ہوگا؟ شاید چند ہفتوں میں اس مسئلے کی حقیقت مزید واضح ہوجائے۔(ملت ٹائمز)

SHARE