یادِ رفتگاں: زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

پروفیسر اختر الواسع
انسان کی زندگی میں اگر کوئی ا یک اکیلی اٹل حقیقت ہے تو وہ موت ہے۔ قرآن کے لفظوں میں ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اور بلا شبہ ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اُسی کی طرف واپس جانا ہے، اس کے باوجود بھی اپنوں اور سماج کے لیے نفع بخش انسانوں کی موت پر انسان کا غمزدہ ہونا فطری ہے۔ کرونا وائرس کے وبائی ہیجان کے بیچ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے جاندار اور شاندار عالم ، مدبر، صحافی، سماجی مصلح ہمارے بیچ سے پلک جھپکتے ہی لقمۂ اجل ہو گئے اور ہم کفِ افسوس ملنے، د ل شکستہ ہونے اور آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ رونا صرف لوگوں کی موت کا ہی نہیں اس کا بھی ہے کہ اکثر کے آخری دیدار کرنے یا دو مٹھی مٹی دینے میں بھی شریک نہ ہو سکے ۔
گذشتہ کچھ ہی دنوں میں کیسے کیسے لوگ ہمارے بیچ سے اُٹھ گئے ، عالمِ ربّانی حضرت مولانا قاسم مظفر پوری صاحب، عارف باللہ میاں سراج الحسن صاحب بھوپال، ہندوستانی ہم عصر سیاست کا ایک بڑا نام سابق صدرِ جمہوریہ شری پرنب مکھرجی، فقہ اکیڈمی انڈیا کے بنیاد گزار مردِ صالح جناب امین عثمانی اور ان سے کچھ پہلے اردو صحافت کے جوانِ رعنا اور ملی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مشغول اور اپنے علاقے سیمانچل کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن فکر مند ڈاکٹر عبد القادر شمس ، تعلیم و تعلم سے نصف صدی سے زیادہ جڑے رہے اور اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں غریب طلبہ و طالبات کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے سر سید کالج قائم کرنے والے پروفیسر تلاوت علی اور اسی طرح مشرقی یوپی کے ڈومریاگنج (ضلع سدھارت نگر) میں تعلیمی، ترقی ،سماجی ہم آہنگی اور مساجد کی تعمیر میں سرگرم ڈاکٹر عبدالبار ی خاں بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
حضرت مولانا قاسم مظفر پوری اپنے علمی تبحر ، انکسار اور سادگی میں نمونۂ اسلاف تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم قصباتی مدرسوں میں حاصل کرنے کے بعد لہریا سرائے ، دربھنگہ کے مدرسہ امدادیہ میں مزیدتعلیم حاصل کی، پھر وہاں سے ازہرِ ہند دار العلوم دیوبند چلے آئے اور وہاں سے باقاعدہ عالمیت اور فضیلت کی اسناد حاصل کیں۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ¾، علامہ ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب مراد آبادیؒ سے اکتساب فیض کیا اورزانو ے تلمذ طے کرنے کا اعزاز پایا۔ بعد میں مدرسہ امدادیہ میں کچھ دن درس دینے کے بعد ۶۴ سال مدرسہ رحمانیہ، سوپول کو اپنے وجود سے اعتبار و استناد عطا کیا، آپ مدرسۂ طیبہ ، منت نگر، مادھوپور، مظفر پور کے ناظم بھی رہے، اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی رکنیت کے علاوہ آپ امارتِ شرعیہ بہار میں قاضیٔ شریعت اور رکنِ شوریٰ کے علاوہ اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی سے بھی وابستہ رہے۔ حضرت مولانا قاسم مظفر پوری کی تصنیفات یوں تو کئی ہیں اور ان میں سے ۶، زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر ان کے بھتیجے اور گرامی قدر عالم محمد رحمت اللہ ندوی کی تحقیق ، ترتیب اور تہذیب کے ساتھ منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور دو ابھی زیر طبع ہیں۔
مولانا قاسم صاحب سے مجھے شرفِ نیاز مندی پر ہمیشہ فخر رہے گا وہ مجھ سے ہمیشہ محبت کرتے تھے اور ان کی سرپرستی اور دعائیں مجھے حاصل تھیں ، وہ علم و حلم کا جامع پیکر تھے ۔ ان کے شرفِ نیاز مندی کے لیے میں مولانا رحمت اللہ ندوی (مقیم حال ، دوحہ، قطر) کا ممنونِ کرم رہوں گا۔
اسے حسنِ اتفاق کہیے یا میری خوش بختی کہ مجھے ۲۰۰۷ سے ۲۰۱۴ کے بیچ میں جو بھی سرکاری اعزاز ملا و ہ شری پرنب مکھرجی کا ہی انتخاب تھا۔ مجھے ہندوستان کے حج بیت اللہ کے خیر سگالی وفد میں بحیثیتِ وزیر خارجہ ان ہی کے قلم سے شامل کیا گیا۔ ۲۰۱۳ میں مجھے ’پدم شری ‘کے اعزا ز سے بھی انہوں نے ہی سرفراز فرمایا۔ اسی طرح مارچ ۲۰۱۴ میں ان کے قلم سے ہی مجھے نیشنل کمشنر برائے لسانی اقلیت کے دستوری عہدے پر نامزد کیا گیا ۔ ۱۹۵۷ میں اس دستوری عہدے کے قیام سے یہ کسی اردو بولنے والے کا اس عہدے پر پہلا اور اب تک کا آخری تقرر تھا۔ مجھے اس بات پر بھی فخر رہے گا کہ میں نے اپنی مدت کار میں ہندوستان میں لسانی اقلیتوں سے متعلق جو تین رپورٹ تیار کیں وہ انہیں کے توسط سے پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں رکھی گئیں۔ میں ان سے جب بھی ملا ان کی شفقت نے مجھے ایک تمانیت اور فخر کا احساس دلایا۔ آج وہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کا نام اور کام ہندوستانی سیاست میں یاد رکھا جائے گا۔
مولانا امین عثمانی ندوی جودار العلوم ندوة العلما لکھنؤ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور اس کے باوجود وہ دانش کدۂ پنجاب میں عربی کے باضابطہ استاد بھی رہے تھے۔ لیکن ان کی ملی درد مندی نے انہیں ساحل نصیب ہوتے ہوئے بھی ساحل قبول نہ کرنے پر آمادہ کیا کیونکہ ان کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے۔ ڈاکٹر منظور عالم صاحب کی تحریک پر وہ دہلی آئے اور بعد ازاں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ جیسے جوہری نے ان کی شخصیت کے جوہر کو پہچانا اور فقہ اکیڈمی سے پھر اس طرح جوڑا کہ امین عثمانی اور فقہ اکیڈمی لازم و ملزوم ہو گئے۔ وہ قطر، اردن، مراقش کی مختلف عالمی تنظیموں سے جڑے رہے ، وہ للہیت اور اخلاص کا ایسا پیکر تھے جو آج کل نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ مجھے ان کی دوستی کا شرف حاصل تھا ، وہ فقہ اکیڈمی کے مختلف پروگراموں میں مجھے یاد کرتے تھے۔ انہیں نئے زمانے کے مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں اور مسائل کا شریعت اسلامی کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا مناسب و معقول حل نکلتا ہے اس کی ہر وقت فکر رہتی تھی، ساتھ ہی فارغینِ مدرسہ کس طرح ایک بار پھر اپنے مہتم بالشان ماضی ، شمولیت پسند نصاب اور نظامِ تعلیم کا احیا ءکر سکیں اس کی فکر انہیں ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکڑ وارث مظہری کی طرح ہمیشہ لاحق رہتی تھی۔ ان کی موت ایک اچھے منتظم، نگرانِ کار اور بہترین انسان کی موت ہے اور اسلامی فقہ اکیڈمی کو قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے بعد دوسرا سب سے بڑا نقصان ہے۔
مرحوم ڈاکٹر عبد الباری صاحب سے میرا نیاز مندی کا رشتہ تقریباً نصف صدی پر محیط تھا۔ قادر آباد (ڈومریاگنج) ضلع بستی کے مؤقر ملک خاندان جس میں ملک شفاعت حسین صاحب، ملک الطاف حسین صاحب، ملک مشتاق حسین صاحب، ملک حامد حسین و ملک یوسف صاحبان کے توسط سے میری رسائی ڈمریا گنج کے دو مشہور مسیحا نفس انسانوں سے ہوئی ان میں سے ایک ڈاکٹر یو،پی سنگھ تھے اور دوسرے ڈاکٹر عبد الباری صاحب۔ دونوں صرف علاقے کے مشہور معالجین میں ہی شامل نہ تھے بلکہ ڈومریا گنج اور آس پاس کی قصباتی زندگی میں اپنا اثر رسوخ رکھتے تھے۔
اب خیر سے قادر آباد کے مذکورہ بالا بزرگوں میں سے صرف ملک محمد یوسف صاحب کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا۔ ڈومریا گنج کی رونق جن کے دم سے تھی وہ دونوں بھی آج ہمارے بیچ میں نہیں رہے۔ڈاکٹر صاحب مسلکاً سلفی تھے لیکن ہر طرح کے تعصب سے دور، گروہی عصبیت سے محفوظ اور بغیر کسی امتیاز کے ہر ضرورت مند کی حاجت روائی کو تیار رہتے۔ انہوں نے جدید و قدیم تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعہ اپنے علاقے اور آس پاس کے بچے و بچیوں کے بہتر مستقبل ، دینی صلاح اور دنیا وی فلاح کے لیے جو ادارے قایم کیے ،ان کا فیض خاص و عام کے لیے جاری ہے۔ جس طرح دیارِ پورب میں خدائے واحد کی کبریائی کے اعتراف اور اس کی عبادت کے لیے مساجد کی تعمیر میں جگہ جگہ کھل کر مددکی اور اسی بنا پر ان کی شخصیت کو اس بندۂ مومن کے مثیل ہم سب کو تادیر یاد رہیں گی۔ ڈاکٹر عبد الباری صاحب نے ادارہ سازی کے ساتھ ساتھ افراد سازی بھی کی اور اس کے بہتر نمونے ان کے اپنے گھر میں ان کی اولادوں کی شکل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
جو آیا ہے اسے ایک دن اپنے رب کے پاس جانا ہی ہے لیکن ڈاکٹر عبد الباری جیسے لوگوں کی موت کا غم تادیر باقی رہے گا امید ہے کہ ان کے قائم کردہ ادارے اور ان کے جانشین ان کی درد مندی، دل سوزی، اولوالعزمی اور ایمان کی سرمستی کی روایت کو زندہ رکھیں گے۔
اس بیچ جن لوگوں نے ہمیں داغِ مفارقت دی ان میں ڈاکٹر عبد القادر شمس سب سے کم عمر کے تھے ، ابھی انہوں نے اپنی عمر کا نصف صدی کا سفر بھی پورا نہیں کیا تھا ۔ اس کم عرصہ میں انہوں نے دار العلوم دیوبند سے ایک طرف سندِ فضیلت حاصل کی تو قاضی مجاہد الاسلام صاحب جیسے نابغۂ روزگار شخصیت کی سرپرستی بھی حاصل کی ۔ وہ قاضی صاحب اور ڈاکٹر منظور عالم صاحب کے ذریعہ قائم شدہ ملی کونسل سے وابستہ رہے۔ پٹنہ سے ”ملی کارواں“ نکالا تو پھر قاضی صاحب کے حکم پر مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب کے نائب کی حیثیت سے ملی اتحاد ، دہلی سے وابستہ ہو گئے۔ اور بعد میں ڈاکٹر عزیز برنی کی نگاہِ انتخاب نے انہیں عالمی /راشٹریہ سہارا سے وابستہ کر لیا۔ عبد القادر شمس نے صرف دیوبند سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ انہوں نے ’جواہر لال نہرویونیورسٹی‘ سے صحافت کا کورس کیا تو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے میری نگرانی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، دہلی میں آنے کے بعد بھی وہ اپنے گاؤں اور سیمانچل کے مسائل اور مصائب کو کبھی نہیں بھولے۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک شاندار مدرسہ قائم کیا ، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے مراکز قائم کیے ، غریبوں کے علاج و معالجے کے لئے انہوں نے ایک اسپتال بھی بنایا۔ وہ اپنے علاقے میں کتنے مقبول تھے اس کے بارے میں صرف وہ ہی لوگ بتا سکتے ہیں جو ان کے جنازے میں شامل تھے ۔دہلی سے ان کے گاو¿ں جب میت پہونچی تو ہزاروں لوگ ان کے منتظر تھے۔ عبد القادر شمس قلم کے دھنی تھے لیکن ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ سے بے نیاز ۔ ان کے چلے جانے سے ایک ہنس مکھ، پیارا، نیارا، یاروں کا یار اپنے علاقے پر جانثار شخص جس سے بہت اُمیدیں تھیں ہمارے بیچ سے چلا گیا ۔ کیسے کیسے حادثوں سے وہ زندگی میں دوچار ہوئے لیکن کبھی ہمت نہ ہاری۔ مگر موت سے کون جیتا ہے۔
دار الاقبال، بھوپال میں خانقاہِ مجددیہ اپنے عزو شرف ، روحانی اوصاف اور گونا گوں خوبیوں کے باعث پچھلے ۰۵۱ سالوں سے زیادہ عرصے سے مخلوقِ خدا کی مرجع بنی ہوئی ہے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنے مشہورِ زمانہ کتاب ’صحبتے با اہل دل“ میں اسی خانقاہ کے اپنے زمانے کے مرشد روحانی اور پیر طریقت حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب مجددیؒ کی شخصیت اور ملفوظات کو موضوع بنا کر لکھی تھی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے سعید میاں صاحب ؒنے اسے سنبھالا اور ان کے انتقال کے بعد ابھی کچھ سال پہلے ان کے چھوٹے بھائی میاں سراج الحسن کے حصے میں یہ مسند ر شد و ہدایت آئی۔ سراج میاں مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ، دہلی آتے تو میرے پاس ضرور تشریف لاتے اور میں بھوپال جاتا تو بھائی بدرِ عالم خاں یا ان کے داماد ارشد میاں کے ساتھ میاں کے پاس ضرور حاضر ہوتا۔ میاں ہمہ جہت اوصاف سے متصف شخصیت کے مالک تھے ، علم کی گہرائی و گیرائی ، منطقی استدلال والی گفتگو ، دنیا جہان کی جزیات پر نگاہ، ایک محنت کش کسان اور عرفان و تصوف کے رمز شناس، طریقت کے ساتھ شریعت کے سلسلہ میں راسخ العقیدگی کا پیکر انسان تھے۔ خانقاہ کے علاوہ تاج المساجد کی ذمہ داری بھی ان کے پاس تھی۔ اتنا ہی نہیں اپنے کاشت کاری کے علاقے میں برسوں بہ اصرار سرپنچ انہیں ہی بنایا گیا۔ دربار ہو یا سرکار سب ان کے خاندان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اور حکومتِ مدھیہ پردیش کے اعلی ترین افسران، سیاست داں، معززین ان کے پاس انتہائی احترام کے ساتھ حاضری دیتے تھے اور دعائیں لیتے تھے ۔ لیکن سراج میاں اور ان کے پیش روو¿ں نے اپنی عزت نفس کا سودا کبھی نہیں کیا، سب کے ساتھ محبت سے پیش آتے لیکن ستائش کی تمنا اور صلہ کی پروا سے بے نیاز ہوکر، اب پتہ نہیں ۱۵۰ سال سے زیادہ تک ہدایت، روحانیت، شریعت و طریقت کی اس خانقاہ کا کیا ہوگا؟ اب نہ سراج میاںؒ رہے نہ ان کے دونوں بڑے بھائی۔ بس اللہ ہی کا نام باقی ہے۔
پروفیسرسید تلاوت علی صاحب کی جنم بھومی تو ناندیڑ تھی لیکن کرم بھومی اورنگ آباد بنی ۔ وہ اورنگ آباد جہاں اورنگزیب ابدی نیند سو رہے ہیں ، جس کی زمین برہان الدین غریبؒ کے جسدِ خاکی کی قیامت تک کے لیے امانت دار ہے، جواجنتا ،ایلورا کے لیے ساری دنیا میں مشہور ، جہاں کی’ پن چکّی‘ آج بھی سیاحوں کی کشش کا مرکز ہے اسی اورنگ آباد میں ڈاکٹر رفیق زکریا کے قائم کردہ مولانا آزاد کالج میں انہوں نے تدریسی فرائض انجام دیے اور پھر ایک دن مولانا آزاد کالج کے گوشہ¿ عافیت سے نکل کر اورنگ آباد کے پسماندہ ترین مسلمانوں کی تعلیم کے لیے تلاوت صاحب نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ’رہبر ایجوکیشنل سوسائٹی‘ بنائی اور سر سید کالج کی بنیاد ڈالی اور وہ بھی شہر کی گھنی آبادی کے بیچ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے کہیں دور کالج کی تعمیر کی تو قدامت پسند اور خوف کی نفسیات کا شکار مسلمان اپنی بچیوں کو تعلیم کے لیے وہاں نہیں بھیجیں گے ۔ وہ اس کالج کے بانی ہی نہیں پہلے پرنسپل بھی تھے اور اس میں بھی ایثار پیشگی کا یہ جذبہ شامل تھا کہ شروع شروع میں باہر سے آنے والے کسی پرنسپل کی تنخواہ کے لیے وسائل کہاں سے آتے۔ پروفیسر تلاوت علی صاحب قوم کے ان محسنوں میں تھے جو دردِ تنہا نہیں غمِ زمانہ کی فکر کرتے ہیں۔ مجھے ان کی دعوت پر ’ڈاکٹر ذاکر حسین کی تعلیمی خدمات اور تصورات ‘ پر لیکچردینے کے لیے اورنگ آبادجانے کا موقع ملا تھا جہاں ان کے کام کو بھی دیکھا اور اورنگ آباد میں ہی نہیں بلکہ بعد ازاں مہاراشٹرا میں نیک نام پایا، وہ اقلیتوں کی پسماندگی کولے کر بنائی گئی محمود الرحمن کمیٹی کے بھی ممبر تھے اور اس کے علاوہ نہ جانے کتنے عزت و اکرام ان کے حصے میں آئے مگر انہوں نے بے لوث اورپرخلوص انداز سے جو خدمات انجام دیں وہ ان کے جانے کے بعد بھی زندہ رہیں گی۔ خدا تلاوت علی صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ان کی انتہائی لائق و فائق صاحب زادی ڈاکٹر شمامہ پروین جو رہبر ایجوکیشنل سوسائٹی کی صدر کے طور پرموجود ہیںاور ان کے کام کو آگے بڑھا رہی ہیں ،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیںصحت و عافیت کے ساتھ لمبی عمر دے اور دنیا دیکھے کہ جو کام ”پدر نہ تواند دختر تمام کند ۔
ابھی یادِ رفتگاں کی پہلی قسط چھپی ہی تھی کہ دوسرے دن یعنی منگل ۹، ستمبر ۲۰۲۰ کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ ایک اور ممتاز عالمِ دین جو گجرات کے بھروچ ضلع کے ہانسوٹ میں جامعہ مظہرِ سعادت کے بانی اور سربراہ تھے، درس و تدریس ، تعلیم و تعلم، اور تصنیف و تالیف کے دھنی تھے۔ مولانا عبد اللہ محمد پٹیل صاحب ؒ کوئی ۶۸ سال کی عمر میں داغِ مفارت دے گئے۔ وہ بھی افراد سازی و ادارہ سازی ، ملی خدمات میں بڑے سرگرم تھے، نہ جانے کتنے اداروں سے وابستہ تھے، انہوں نے ڈابھیل میں قرآن کریم کے حفظ کے بعد دینی علوم میں اعلیٰ تعلیم بالخصوص افتاء میں تربیت جامعہ مظاہر علوم سہارن پور سے حاصل کی۔ مولانا عبد اللہ صاحب ؒ بڑے شریف النفس اور صاحب تقویٰ بزرگوں میں سے تھے انہوں نے علومِ ربانی اور سلوک کی تربیت قاری صدیق صاحب باندوی علیہ الرحمہ اور جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی اور دونوں سے ان کو بحیثیت خلیفہ بیت کرنے کی اجازت ملی ہوئی تھی۔ انہوں نے گجراتی، اردو اور ہندی میں کئی اہم کتابیں لکھیں، جو شائع ہو چکی ہیں۔ مجھے آج سے کئی برس قبل مولانا کی محبت بھرے اصرار پر جامعہ مظہرِ سعادت ، ہانسوٹ حاضری کا موقع ملا۔ جامعہ کا کیمپس اپنی تعمیرات، آرائش اور علمی سرگرمیوں کے لیے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اچھے لوگوں کو ہر دور میں مفسدین نے آزمائش میں ڈالا ہے مولانا عبد اللہ صاحب ؒ کو بھی کچھ فتنہ پردازوں نے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا اور انہیں جیل بھی جانا پڑا، لیکن انہوں نے سنتِ یوسفی کی طرح اس کو لیا اور صبر و ثبات ، اور استقلال و استقامت کا مظاہر کیا۔ ابھی مقدمے کا فیصلہ آنا باقی تھا کہ سب سے بڑے منصف نے انہیں اپنے پاس بلالیا ،وہ قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ کئی جسمانی عارضوں کا شکار بھی تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الرحیم پٹیل جو خود ایک عالم دین تھے اور جامہ ’اکل کوا‘ سے وابستہ تھے کا انتقال ہو گیا تھا جس سے وہ دل برداشتہ تھے۔ اب جبکہ مولانا عبد اللہ صاحبؒ اپنے رب کے پاس جا کر داخلِ حسنات ہو چکے ہیں، اُمید ہے کہ ان کے علمی، فلاحی اور اصلاحی مشن کو ان کے بڑے صاحب زادے مولانا عبید اللہ صاحب اپنے متعلقین اور رفقاء کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔
جو آیا ہے سو جائے گا ٬ موت سے کس کو رستگاری ہے؟ لیکن یہ سارے وہ لوگ تھے جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیے ۔ خدائے بزرگ و برتر ہم سب کو بھی ان کی طرح زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور جب اس دنیا سے جائیں تو ہر شخص یہی کہے کہ :
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)