انوار الحق قاسمی نیپالی
صوبہ بہار میں بھی ہر دور اور ہر زمانے میں بڑے بڑے مفسرین، محدثین، فقہاء ، ادباء ، شعراء ، مناطقہ و فلاسفہ پیدا ہوئے اور مختلف طرق سے اشاعت دین متین کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے کر وقت موعودہ پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
صوبہ بہار میں اپنی آنکھیں کھول کر دائمی طور پر بند کر لینے والے عظیم دینی و اسلامی شخصیتوں میں سے ایک بڑی شخصیت اور عظیم ہستی حضرت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی – نور اللہ مرقدہ – کی ہے۔
پستہ قد ، کشادہ پیشانی ، غضب کے حسین و جمیل، سر کے بال اور داڑھی سفید، سرمگیں آنکھیں، تیز نظر ، قمیص، لنگی اور ٹوپی میں سے ہر ایک سفید زیب تن کیے ہوئے ، نظافت پسند اور بڑے ہی نظیف ، آواز میں شدت ؛ مگر خاموش مزاج، حق گو ، اصول پسند ، دوراندیش و دوربین ، وقت کےبڑے قدر داں ،کتب بینی میں ہمہ وقت مصروف ، عظیم محدث اور بے مثال فقیہ، امام المنطق والفلسفہ، دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد کے سابق شیخ الحدیث ، جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے سابق مؤقر استاذ ، کئی نسلوں کے معلم، انتظامی امور میں ماہر، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب – نوراللہ مرقدہ – کے چہیتے، “اسلامک فقہ اکیڈمی “کے محافظ و رکن تاسیسی ، امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی – رحمۃ الله علیہ – کے معتمد ، جن پر حضرت مولانا سعید احمد صاحب تغمد االله بغفرانہ – کی خصوصی توجہ اور شفقت، مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں کے سرپرست ، الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں کے ناظم اعلیٰ حضرت الحاج مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی بھی مختصر علالت کے بعد ۱۳/ جنوری سن ۲۰۱۹ء صبح تقریباً سات بجے، سخت سردی کے زمانے میں ۸۲ سال کی عمر میں صوبہ بہار کے ضلع مدھوبنی کے اپنے آبائی وطن چندرسین پور میں انتقال فرما گئے: انا للہ وانا الیہ راجعون ، تغمد الله بغفرانہ ۔
حضرت کے انتقال کی خبر اس وقت ہوئی جب ناچیز پہلا گھنٹہ کر کے “شعبہ شیخ الہند اکیڈمی “سے باہر نکلا ، تو یکایک دیکھا کہ مدنی گیٹ کے پاس طلبہ دارالعلوم دیوبند کا ایک بڑا انبوہ کھڑا ہے، اور ہر ایک طالب علم ادھر ہی کا رخ کررہا ہے ؛ اس لئے ناچیز بھی سبھوں کی پیروی کرتے ہوئے ادھر ہی کی جانب رواں دواں ہو گیا اور جب مدنی گیٹ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ “بزم سجاد” طلبہ بہار ، اڑیسہ، جھارکھنڈ ونیپال کے بورڈ پر فقیہ ملت حضرت الحاج مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی کی وفات پر ملال کی خبر مکتوب ہے، اور ہر چہار جانب سے حضرت کے لیے دعاء مغفرت ہر ایک کی زبان پر جاری ہے۔
یہ جان کاہ خبر دیکھ کر کافی صدمہ ہوا کہ استاذ الاساتذہ فقیہ زمن حضرت الحاج مولانازبیر احمد صاحب قاسمی بھی اب ہمیں دائمی مفارقت دے کر اور مادر علمی ” الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں ضلع سیتامڑھی بہار “کو یتیم بنا کر جوار رحمت میں داخل ہوچکے ہیں۔
حضرت فقیہ ملت کے سامنے ناچیز کو بھی زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا ہے، درجہ اعدادیہ میں فارسی زبان سیکھنے اور درجہ عربی سوم میں علم منطق کی مشہور و معروف کتاب” شرح تہذیب” پڑھنے کا موقع ملا ہے۔
یہ میرے لیے بہت ہی سعادت و نیک بختی کی بات ہے اور فخر سے اس تحریر ہی میں نہیں ؛ بل کہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ ناچیز بھی حضرت – علیہ الرحمہ – کے جملہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد ہے ، یہ سب ، بس توفیق ایزدی ہے ؛ ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل ۔
حضرت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی کی ولادت باسعادت اپنے آبائی وطن چندر سین پور میں سن ۱۳۵۹ھ مطابق سن ۱۹۳۸ء میں ہوئی، یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جو جس قدر بڑا ہوتا ہے، اسے اسی قدر باری تعالی بڑے بڑے مصائب و حوادثات کے وقوع کے ذریعے آزماتا ہے اور ایک انسان کے لیے اس سے بڑا اور عظیم حادثہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ کہ دور طفولیت ہی میں اس کے سر سے اس کے والد محترم کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اٹھا لیا جائے اور اسے ہر چیز میں ؛ حتی کہ تعلیم و تربیت میں بھی غیروں کا محتاج بنا دیا جائے۔
بعینہ یہی حادثہ میرے استاد محترم حضرت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی – نور اللہ مرقدہ – کے ساتھ پیش آیا کہ ان کے والد محترم جناب منشی عبد الشکور صاحب کا سایۂ عاطفت ان کے سر سے ان کے زمانہ طفولیت ہی میں اٹھا لیا گیا اور تعلیم و تربیت کا مسئلہ ان کے چچا جان کے سپرد کر دیا گیا۔
چناں چہ ابتدائی تعلیم اپنے چچا ہی کی سرپرستی میں گاؤں ہی کے مکتب میں حاصل کی اور عالمیت کی ابتدائی اور متوسطات کی تعلیم کے حصول کے لیے مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں میں داخل ہوگئے اور اس ادارے کے چند اور باصلاحیت اساتذہ کرام سے ابتدائی درجات: یعنی فارسی سےلےکر ہدایہ اولین : یعنی درجہ عربی ششم تک بڑے ہی عرق ریزی اور جاں فشانی کے ساتھ کسب فیض کیا اور ہر فن میں بہت حد تک مہارت پیدا کر لیا۔
اس ادارے کے سب سے مقبول استاذ حضرت مولانا سعید احمد صاحب – نور اللہ مرقدہ – کی نظر شفقت آپ پر ہمیشہ رہتی تھی۔
پھر عالمی ادارہ ازہر ہند دارالعلوم/ دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں مشکات شریف : یعنی درجہ عربی ہفتم کی مختلف کتابیں پڑھیں اور کتب احادیث کا دورہ کرکے سن ۱۳۷۹ھ میں سند فضیلت حاصل کی ۔
آپ کے تابندہ اور درخشاں اساتذہ کرام کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں: (۱) حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد قاری طیب صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند) (۲) حضرت مولانا علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی (۳) شیخ الحدیث حضرت مولانا فخر الدین احمد صاحب مراد آبادی (۴) ادیب زماں حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی (عربی ادب کی مقبول ترین اور درجہ عربی سوم میں ہر ایک مدرسہ میں بحیثیت نصاب تعلیم دی جانے والی کتاب” نفحۃ العرب” کے مصنف) (۵) حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب (۶) حضرت مولانا فخر الحسن صاحب (۷) حضرت مولانا ظہور احمد صاحب – نور اللہ مراقدھم -۔
جب آپ دارالعلوم دیوبند سے رسمی فراغت حاصل کر چکے ، تو آپ کے ہر دل عزیز استاذ محترم حضرت مولانا سعید احمد صاحب کے کہنے پر، انہیں کے زیرسایہ، اپنے مادرعلمی مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں سے اپنے تدریسی سلسلے کا آغاز کیا اور اپنی علمی استعداد و قابلیت کی بدولت ابتدائی سال ہی میں درجہ علیا کی متعدد کتابیں خوب جم کر پڑھائیں؛ مگر چند مہینوں کے لئے نوادہ تشریف لے گئے اور وہاں آپ جم نہیں پائے کہ پھر اپنے استاذ محترم کے ایما پر مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں ہی تشریف لے آئے اور پھر باضابطہ تدریس سے متعلق ہو کر تقریبا ۶/ سال درجہ علیا کی مختلف کتابیں مثلا ہدایہ اولین اور جلالین وغیرہ پڑھائیں اور پھر کسی عارضہ کی وجہ سے اسے الوداع کہہ کر صوبہ بہار کی عظیم دانش گاہ” الجامعۃ العربيہ اشرف العلوم کنہواں” جو – ہندو نیپال کی سرحد پر واقع ہے – سن ۱۳۸۳ھ میں تشریف لےگئے اورآپ نے اس ادارے کو بیش بہا ترقیات سے نوازا، آپ کی خدمات کو ابھی دس سال ہی ہوئے تھے کہ آپس ۔ چشمک و چپقلش کی وجہ سے اس سے بھی علاحدگی کو اپنے حق میں مناسب خیال کرتے ہوئے برطرف ہو گئے اور سن ۱۳۹۷ھ سے ۱۴۱۲ھ کے مابین ایک طویل عرصہ تک چند مدارس اسلامیہ مثلا (۱) جامعہ رحمانی مونگیر (۲)جامعہ مفتاح العلوم مئو (۳) دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد میں یکے بعد دیگرے تدریسی خدمات بڑے ہی شان و شوکت کے ساتھ انجام دیتے رہے اور دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد میں تو بحیثیت شیخ الحدیث علوم دینیہ کے پیاسوں کی علمی تشنگی بجھاتے رہے اور پھر سن ۱۴۱۲ھ میں الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنهواں تشریف لے آئے اور اسی کی تعلیمی و تعمیری ترقی میں باقی ماندہ حیات مستعار بسر کرکے راہی ملک بقا ہوگئے۔
حضرت کی علمی شہرت کےساتھ ساتھ ان کے انداز تدریس کی مقبولیت کا بھی چرچا ہر ایک صاحب علم کی زبان پر تھا اور حضرت کے افہام وتفہیم کا ملکہ بڑا ہی نرالا اور منفرد تھا، حضرت کند سے کند ذہن طلبہ اور غبی سے غبی طلبہ کو بھی اپنے انگوٹھے کے اشارے کے ذریعے عبارت کا مفہوم مالہ و ما علیہاسمجھا دیا کرتے تھے۔
اگر کوئی طالب علم کہتا کہ حضرت مجھے آج کا سبق سمجھ میں نہیں آیا توحضرت الاستاذ اسے اپنے تکیہ کلام کے ذریعے کہتے: “اے منہ بوا “تجھےسمجھ میں نہیں آیا ، لاکتاب، پھر اسے اپنے خاص اسلوب کے ذریعے: یعنی اگر شرح و بسط کی ضرورت پڑتی، تو شرح و بسط کے ذریعے اور اختصار کی ضرورت پڑتی، تو اختصار کے ذریعے؛ لیکن سمجھا کر ہی رہتے تھے۔
حضرت کو درس و تدریس سے بہت محبت تھی، اخیرعمر تک درس و تدریس کے سلسلے کو جاری رکھا، کئی دفعہ اساتذہ کرام نے حضرت کے نا توانائی و کمزوری اور عمر کے مقتضیات کی وجہ سے تدریسی سلسلے کو منقطع کرنے اور صرف اہتمام سنبھالنے کا مشورہ دیا؛ مگر حضرت نے ہر بار ان کے مشوروں کو مسترد کردیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے: کہ جو مزہ تدریس میں ہے، وہ کسی اور چیز میں کہاں ہے؟ اور اخیر عمر تک “شرح تہذیب” اور ہدایت النحو پڑھاتے رہے، اور اپنا فیض جامعہ کے ہر فرد تک پہنچاتے رہے ۔
حضرت کو علم فقہ سے کافی دلچسپی تھی، فقہی کتابوں میں مکتوب ایک ایک جزئیہ کو اپنےذہن کے نہاخانوں میں محفوظ رکھا کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ہر ایک فقہی سیمینار میں آپ کی شرکت لازمی ہوا کرتی تھی، آپ کی شرکت سے سیمینار کامیاب ہوتا تھا، آپ کی بےمثال فقاہت کا ہر ایک فقیہ معترف تھے اور اہل علم کی نظروں میں آپ کی بڑی مقبولیت تھی، آپ کی فقہی بصارت کی مثال پیش کرتے ہوئے لوگ کہتے ہیں :کہ دیوبند ہی میں جمعیت علمائے ہند کی طرف سے ایک فقہی سمینار منعقد ہوا، جس کی صدارت فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب – رحمۃ اللہ علیہ – فرما رہے تھے اور نظامت کے فرائض حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری – نوراللہ مرقدہ – انجام دے رہے تھے، اس سیمینار میں طلاق سکران کے مسئلہ پر بحث چھڑ گئی ، جس میں اکثر فقہاء کی آراء ایک طرف اور حضرت الاستاذ مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی – نوراللہ مرقدہ – کی رائے ایک طرف ؛ مگر جب کتاب کھولی گئی ، تو حضرت ہی کی رائےصحیح اور درست نکلی، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت کو اپنے علم پر کامل یقین تھا ،حضرت جو بات بھی بولتے تھے یقین کامل کے ساتھ بولتے تھے، نیز ان کا یقین مشکک کی تشکیک سے زائل ہونے والا نہیں تھا۔
حضرت کی فقہی گیرائی کا اندازہ اس سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ٹھنڈی کے زمانے میں حضرت جامعہ کے میدان ہی میں درس دیا کرتے تھے ، حسب معمول ایک دفعہ حضرت میدان ہی میں ” شرح تہذیب ” کا درس دے رہے تھے کہ یکایک جنازہ آگیا، اس موقع سے حضرت نے ہم خردوں سے کہا: مجھے اس بات کا یقین کامل ہے کہ میں باوضو تھا ؛ مگر شک ہورہا ہے کہ وضو ہےبھی یاختم ہوگیا؛ اس لیے ازسرِنو وضو کروں یا سابقہ وضو ہی پر اکتفا کرلوں، سبھوں نے کہا کہ حضرت وضو کر لیا جائے ، تو حضرت نے برجستہ ایک فقہی قاعدہ بیان کرکے کہ: الیقین لایزول بالشک، مسند درس سے اٹھ گئے۔
حضرت کے علم میں بڑی گیرائی وگہرائی تھی، حضرت ایک بڑے عالم تھے، حضرت کو درس و تدریس سے بڑی محبت تھی، تصنیف و تالیف کی طرف معمولی توجہ بھی نہیں دئیے ، اگر تصنیف و تالیف کی طرف توجہ دئیے ہوتے، تو آج حضرت کا شمار ایک عظیم مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بےمثال مصنف کے ساتھ بھی ہوتا، درس و تدریس سے بے حد درجہ اشتغال کی وجہ سے حضرت اپنے محبوب جامعہ سے ماہنامہ اور مجلہ کی اشاعت کے بھی قائل نہیں ہوئے اور نہیں اب تک وہاں سے کوئی ماہنامہ شائع ہو رہا ہے۔
حضرت فرمایا کرتے تھے: کہ اگر ماہنامہ شائع کیا جائے گا، تو اساتذہ کرام اپنے قیمتی اوقات مضامین و مقالات نویسی ہی میں صرف کرنے لگیں گے، جس سے طلباء کی تعلیم پر ایک بڑا اثر مرتب ہوگا، اس طرح رفتہ رفتہ جامعہ کا تعلیمی معیار دیگر اداروں کی طرح گرنے لگے گا اور ہم کو تو معیار بلند کرنا ہے، نہ کہ گرانا ہے؛اس لیے میرے جامعہ سے کوئی ماہنامہ شاہ نہیں ہوگا ۔
حضرت کی وجہ سے” الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں ، ضلع سیتامڑھی بہار کو تعلیمی اور تعمیری ترقی حاصل ہوئی ہے، تعمیری ترقی تو بالکل اظہر من الشمس ہے؛ کیوں کہ آج جامعہ میں جتنی بھی عمارتیں نظر آرہی ہیں، سب حضرت ہی کی جدوجہد اور کاوشوں کا ثمر اور نتیجہ ہے، اور تعلیمی ترقی بھی سبھوں کے سامنے عیاں اور آشکارہ ہے کہ حضرت کی آمد سے قبل جامعہ میں طلبہ کی ایک معمولی تعداد تھی اور تعلیمی معیار بھی کوئی خاص بلند نہیں تھا؛ مگر حضرت کی آمد اور ان کی شب و روز کی لازوال محنتوں کی وجہ سے آج اس ادارے میں طلباء کی غیر معمولی تعداد ہے اور تعلیمی معیار بھی بلند ہے کہ” ہدایہ اولین ” یعنی درجہ عربی ششم تک تعلیم ہورہی ہے۔
ہر سال جامعہ ہذامیں ۱۱/۱۲/ شوال المکرم کو سوائےدرجہ عربی اول اورعربی دوم کے ہر درجے میں طلباء کی علمی لیاقت اور قابلیت کی بنیاد پر جدید داخلے لیے جاتے ہیں۔
اس ادارے کے لیے صرف ان ہی طلبہ کا انتخاب کیا جاتا ہے جو داخلہ امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے ہیں، اور باقی طلباء کو دیگر اداروں کا رخ کر دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کی ایک لمبی تعداد جامعہ سے نالاں رہتی ہیں، وہ صرف اس لیے کہ میرے لڑکے کا داخلہ کیوں نہیں لیا گیا؟ جب کہ ناظم صاحب کا کہنا تھا: کہ ملک میں ایک صرف “الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنهواں” ہی تھوڑی نہ ہے ، کہ اسی میں طلبہ تعلیم حاصل کریں گے، تو کریں گے اور بھی تو دیگر ادارے ہیں، میرے یہاں تو صرف انہیں طلباء کا داخلہ لیا جائے گا، جو داخلہ امتحان میں نمایاں نمبرات سے کامیاب ہوئے ہوں۔
اس حسنِ انتخاب کا جامعہ پر یہ اثر مرتب ہوا کہ تعلیمی معیار بلند سے بلند تر ہوتے چلا گیا، جس کی بنا پر آج دیگر ادارے والے بھی اس ادارے پر رشک کرتے ہیں اور بے ساختہ بہار کا “دارالعلوم” کہتے ہیں، یہ سب بس حضرت ناظم صاحب کی کاوشوں اور دعاء سحر گاہی کا نتیجہ ہے۔
حضرت الاستاذ اساتذہ اور طلباء دونوں ہی پر گہری نظر رکھتے تھے، اساتذہ کرام کے ذریعے ہر ایک طالب علم کی خبر رکھتے تھے اورطلباء کے ششماہی وسالانہ نمبرات حضرت کے دیکھ لینے کے بعد ہی منظر عام پر نکالے جاتے تھے، اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کی خوب خوب حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور ناکام ہونے والے طلباء سے حضرت کہا کرتے تھے: کہ آخر ناکامی کی کیا وجہ بنی، جب کہ سبھوں کے اساتذہ کرام ایک اور کتابیں بھی ایک تھیں ، ضرور غفلت برتی گئی ہے اور خوب ڈانٹا کرتے تھے، نیز دوبارہ ناکامی کی وجہ سے اخراج بھی کر دیا کرتے تھے۔
طلبہ سے بھی اساتذہ کرام کے حوالے سے مکمل خبر رکھتے تھے کہ ہرا یک استاذ کماحقہ سبق سمجھا پاتے ہیں یا نہیں؟ اس طرح حضرت کی نظر ہر ایک پر گہری رہا کرتی تھی۔
حضرت ناظم صاحب بڑے ہی اصول پسند تھے، اصول و قوانین کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے تھے، سن ۱۴۳۱ھ کا ایک واقعہ ہے (اس وقت ناچیز درجہ اعدادیہ میں تھا) کہ طفیل نامی ایک طالب علم ، جو اس وقت درجہ عربی ششم کا طالب علم تھا، موبائل رکھنے کے جرم عظیم میں پکڑا گیا ، جامعہ ہذا کا قانون ہے کہ موبائل پکڑے جانے کی صورت میں ( قطع نظر اس کے کہ موبائل سادہ ہے یا ملٹی میڈیا) بلاتردد اخراج ہے، اسی قانون کی روشنی طفیل کا بھی اخراج کردیا گیا، تو درجہ عربی ششم کے جملہ طلباء نے متفقہ یہ فیصلہ کیا کہ اگر طفیل کے داخلہ کو واپس نہیں لیا گیا ، تو ہم جمیع طلباء عربیہ ششم جامعہ کو الوداع کہہ دیں گے ۔
اس کی خبر جب حضرت ناظم صاحب کو ہوئی تو حضرت ناظم صاحب نے دو ٹوک لفظوں میں کہا:کہ جسے جانا ہے، بصد شوق جائے ، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، میرے ادارےمیں دس ہی طلباء رہیں گے؛ مگر پڑھنے والے رہیں گے، بھیڑ جمع کرنے والے نہیں، بالآخر تمام طلبہ ناظم صاحب کے فیصلے پر راضی ہوکر ٹھہر گئے اور طفیل نامی طالب علم کو مدرسہ سے نکلنا پڑ،ا یہ واقعہ اتنا دلچسپ اس لیے ہے کہ مخرج اور اس کے تمام معاونین جامعہ ہذا کےمنتہی طلباء تھے۔
حضرت – علیہ الرحمہ – میں ایک کامل مدرس اور ماہر منتظم کی تمام خوبیاں موجود تھیں ۔
حضرت کے انتقال سے یقیناً ملک و ملت کا عموماً اور الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں کا خصوصاً ناقابل تلافی خسارہ ہوا ہے۔
حضرت ہی کے قول پر میں اپنی یہ مختصر تحریرختم کرنا مناسب سمجھتا ہوں، حضرت – علیہ الرحمہ – اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے: کہ دعا کرنا کہ باری تعالی مرنے کے بعد میرے ساتھ فضل کا معاملہ فرمائے، نہ کہ عدل کا؛ اس لیے ناچیز بھی دعا گو ہے کہ قادر مطلق حضرت الاستاذ کے ساتھ فضل کا معاملہ فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے، کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے اور ان کے خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، آمین ۔
واٹس ایپ نمبر: 9779811107682+