اراضی قوانین سے متعلق حکومت کی وضاحت سفید جھوٹ: نیشنل کانفرنس

اراضی قوانین کی بدولت ہی جمو ں و کشمیر میں غربت اور افلاس کا خاتمہ ہوا اور یہاں کے کسانوں کو کسی بھی بحرانی کیفیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ پورے ملک کے کسانوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

کشمیر: (یو این آئی) نیشنل کانفرنس نے اراضی قوانین کی منسوخی سے متعلق حکومتی وضاحت کو سفید جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب کچھ اصل حقائق کو عوام سے چھپانے کی مذموم کوشش ہے۔ پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کو معلوم ہے کہ انہوں نے عوام کے حقوق سلب کئے ہیں اور اسی لئے گمراہ کن اور فریبی ہتھکنڈے اپنا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے اراضی قوانین انقلابی تھے جن کو نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ان انقلابی قوانین کی بدولت ہی یہاں غربت اور افلاس کا خاتمہ ہوا اور یہاں کے کسانوں کو کسی بھی بحرانی کیفیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ پورے ملک کے کسانوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پورے ملک میں جہاں کسان مسلسل طور پر یشانیوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور بکھمری کے علاوہ خودکشی کا رجحان ایک عام بات ہے اس کے برعکس جموں وکشمیرمیں ایسا کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ یہاں کے اراضی قوانین عوام مخالف تھے اگر ایسا ہوتا تو پھر یہاں بھی ملک کی دیگر ریاستوں کی طرف بکھمری اور کسانوں کی خودکشی کا رجحان عام ہوتا لیکن یہاں ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے عوام دشمن اقدامات کو جواز بخشنے کے لئے سفید جھوٹ بول رہی ہے۔
علی محمد ساگر نے کہا کہ زرعی قوانین سے متعلق شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کے انقلابی اقدامات نے یہاں کے عوام کو غربت سے نکالا اور خوشحالی و فارغ البالی کا نیا سورج طلوع ہوا۔ ان قوانین سے صرف کشمیر یا مسلمان ہی مستفید نہیں ہوئے بلکہ لداخ اور جموں میں کشمیر سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا اور مسلمانوں کی طرح ہندﺅں، بودھوں، سکھوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی مستفید ہوئے۔ نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری نے کہا کہ جموں و کشمیر کے اراضی قوانین قانون ساز اسمبلی اور متواتر منتخبہ عوامی حکومتوں میں منظور کئے گئے تھے اور چند مٹھی بھر بیوروکریٹ ماضی کی عوامی حکومتوں کے فیصلوں کو غلط جتلا کر انہیں تبدیل نہیں کرسکتے۔ ایک جمہوری نظام میں ایسے اقدامات کے لئے کوئی بھی جگہ نہیں۔ جموں و کشمیر کے اراضی قوانین کو منسوخ کرنے کا طریقہ غیر آئینی ہے اور جمہوریت کے لئے سم قتل بھی۔
انہوں نے کہا کہ شیر کشمیر کے زرعی اصلاحات اور دیگر اراضی قوانین نے یہاں کے لوگوں کی تقدیر بدل دی اور آج ایک منصوبہ بند سازش کے تحت جموں و کشمیر کے لوگوں کو بے اختیار کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کو اس لئے ان قوانین کی منسوخی کے بارے میں وضاحت دینی پڑی کیونکہ تینوں خطوں کے لوگوں میں ان اقدامات کے خلاف زبردست غم و غصہ پایا جارہا ہے اور اب عوام کو گمراہ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے جھوٹے دعوے کئے جا رہے ہیں۔
این سی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا کہ نیشنل کانفرنس 5 اگست 2019 کے بعد لئے گئے تمام فیصلوں کو مسترد کرتی ہے اور جموں وکشمیر اراضی قوانین کی منسوخی کو بھی ناقابل قبول قرار دیتی ہے۔