ایران کے عظیم سائنسداں محسن فخری زادہ کی شہادت

احمد عظیم ندوی
27/نومبر 2020 کو ایران کی راجدھانی طہران میں عظیم جوہری سائنسداں محسن فخری زادہ پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں شہید کردیا گیا، یہ ایران کے جوہری پروگرام کے روح رواں تھے نیز ان کو “بابائے جوہری پروگرام برائے ایران ” کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے، 2015 میں نیویارک ٹائمز نے ان کا موازنہ دوسری جنگ عظیم میں سب سے پہلے جوہری ہتھیار بنانے والے اوپن ہائیمر سے کیا تھا، اسی طرح 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی ایک تقریر میں ایران کے جوہری پروگرام کے حولہ سے محسن فخری زادہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خاص انداز میں سامعین سے کہا تھا کہ آپ اس نام کو ضرور یاد رکھیں۔
غیر قانونی اسرائیلی ریاست کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی اسرائیل اور موساد کے اہل کار عالمی پلیٹ فورم پر کسی شخص کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا ایک خاص مطلب ہوتا ہے اسی لیے ایران کا کہنا ہے کہ ہمارے اس عظیم سائنسداں کو اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد اور امریکہ نے شہید کیا ہے ساتھ ہی بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس قتل میں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ سعودی عرب بھی شامل ہے نیز چند دن قبل اسرائیلی وزیر اعظم، امریکی وزیر خارجہ اور سعودی ولی عہد کی باہم ملاقات میں بھی اس حوالہ سے بات چیت ہوئ تھی۔ محسن فخری زادہ سے پہلے بھی ایران کے کئی ہم سائنسدانوں اور رہنمائوں کو شہید کیا گیا ہے، لیکن موجودہ حادثہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کے نومنتخب صدر بہت جلد اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں اور اس بات کے قوی امکان ہیں کہ بائڈین ایک بار پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کریں گے اور ایران پر لگی معاشی پابندیوں کو بھی ختم کردیں گے۔
اس عظیم سائنسداں کی شہادت کے موقع پر ایران کے علاوہ دنیا کے تمام اہم ممالک نے اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی: ہمارے عظیم جوہری سائنسداں محسن فخری زادہ کے قتل کا جواب ضرور دیا جائے گا لیکن ہم جلد بازی میں کوئ فیصلہ نہیں کريں گے بلکہ ہم مناسب وقت پر اس کا جواب دیں گے کیوں کہ اسرائل ان کو شہید کرکے خطہ میں بد امنی پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن ہم اس کے جال میں نہیں آئیں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف: محسن فخری زادہ کا قتل ریاستی دہشت گردی اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور یہ سب اسرائیل نے کیا ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس: محسن فخری زادہ کی شہادت ایک انتہائ مجرمانہ عمل اور کھلی دہشت گردی ہے اور اس کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ اس دہشت گردانہ کاروائ میں اسرائیل اور امریکہ ایک دوسرے کے شریک وسہیم ہیں اور ان کا مقصد سائنسی ترقی نیز طاقت وقوت کو یہودی ریاست اور اس کے لیے توسیع پسندانہ منصوبہ رکھنے والوں تک محدود رکھنا ہے۔
ترکی نے اس قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ایران کے سب سے سینئر جوہری سائنسداں کا قتل ایک گھناؤنا عمل ہے اس لیے عالمی عدالت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے قتل میں ملوث لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
قطر نے اس حادثہ پر رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اس سخت ترین موقع پر ایران کو صبر وضبط سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
رابرٹ میلے (سابق امریکی صدر براک اوبامہ کے مشیر کار): فخری زادہ کا قتل کا مقصد نومنتخب امریکی صدر کی ایران کے ساتھ صلح کی کوشش کو پیچیدہ بنانا ہے۔
جانبرینن (امریکی خفیہ ادارہ سی آئی ائے کے سابق چیف) : یہ مجرمانہ عمل خطہ میں بد امنی پیدا کرسکتا ہے۔
یورپی یونین: یہ قتل ایک مجرمانہ عمل اور حقوق انسانی کے قوانین کو پامال کرنا۔
ڈیلی ٹیلی گرام کی ایک خاتون صحافی نگار ہولی ڈگرس نے لکھا کہ: لوگوں کو سفر کرتے ہوئے قتل کرنا اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا خاصہ ہے اور اس تنظیم نے 2010 سے 2012 کے درمیان ایران کے کئ جوہری سائنس دانوں کے ساتھ ایسا کیا ہے۔ اس حملہ سے امریکہ پر بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں کیوں کہ صرف چند ہفتے پہلے ٹرمپ نے یہ کہا تھا کہ میں نے ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ کرنے کا آپشن تلاش کرلیا ہے ان کے اس بیان کے کچھہ ہی ندوں کے بعد ایران کے سب سے بڑے جوہری سائنسداں کو قتل کر دیا گيا ۔
ڈاکٹر معصومہ طورفہ (لندن اسکول آف اکنامکس کی ریسرچ ایسوسی ایٹ): ایران بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی اور اپنی معیشت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے امکانات سامنے دیکھا رہا ہے چنانچہ ابھی جوابی حملہ کرنا بے وقوفی ہوگی۔
الجزیرہ: اتنی آسانی کے ساتھ محسن فخری زادہ کا قتل ایران کے داخلی سلامتی پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔
بی بی سی عربی: ایران کی طرف سے انتقامی کاروائ کی دھمکی کے بعد پوری دنیا میں اسرائیلی سفارت خانے ہائی الرٹ۔
العربیۃ ٹی وی: محسن فخری زادہ کی شہادت نے ایران کے دوسرے جوہری سائنسدانوں کے قتل کی یاد تازہ کردی ہے، ایران کے اندر 2010 میں جوہری سائنسداں مسعود علی محمدی، مجید شہریاری اور فزکس کے استاذ فریدون عباسی کو قتل کردیا گیا، اس کے علاوہ 2011 میں طبیعیات کے 35 سالہ سائنسداں داریوش رضائی اور 2012 میں 32 سالہ کیمیائ انجینئرمصطفی احمدی روشن کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔