پروفیسر اختر الواسع
ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمانوں نے سائنسی ایجادات، انکشافات اور تجربات کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جن کی بنیاد پر یورپ تاریک براعظم سے نکل کر علم کی روشنی سے منور ہوا اور اس کی نشاتہ الثانیہ ہوئی اور پھر مسلمان ایسے خواب غفلت کے شکار ہوئے کہ بقول شاعر:
کیا خبر تھی یہ زمانے بھی ہیں آنے والے
سوتے رہ جائیں گے دنیا کو جگانے والے
پھر دنیا میں یورپی طاقتوں نے اپنے نوآبادیاتی نظام کا آغاز کیا اور اس میں ان کا ایک لازمی نشانہ ہندوستان جنت نشان بھی تھا۔ پرتگالیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں کی کشاکش کے بیچ ہندوستان میں سب سے بڑا نوآبادیاتی نظام انگریزوں نے قائم کیا اور 1857کی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز 90 سال تک اس ملک کی تقدیر کے سیاہ و سفید کے مالک بن گیے۔
ایسے وقت میں علی گڑھ کے پیرِدانا سرسید نے 1864ء میں سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ایک بار پھر سائنس سے مسلمانوں کی عدم دلچسپی کو ختم کرنا اور ان میں سائنسی مزاج کی بحالی تھی۔ سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کے بعد ایم اے او کالج کا قیام اوراس کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں ترقی پذیر ہونا وہ صورتحال تھی جس نے ایک بار پھر کسی حد تک مسلمان نوجوانوں کو سائنسی مضامین اپنانے کی ترغیب دلائی۔ 1857سے 1947تک کا زمانہ برصغیر کی تاریخ میں غیرملکی سامراج سے آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد اور آزاد ی ملنے پر کس کے حصے میں کیا آئے اسی بحث و تکرار سے عبارت ہے جو بالآخر تقسیم وطن کے ساتھ آزادی کی صورت میں منتج ہوئی۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کو جو سمت اور رفتار ملی اس کا سہرا بلاشبہ پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابواکلام آزاد کی قیادت اور وزارت کے سر جاتا ہے۔ اس بیچ میں ہندوستان میں تعلیم و تحقیق کے میدانوں میں مختلف علوم کے حوالوں سے جو ترقی ہوئی وہ قابلِ رشک ہے لیکن اسی کے ساتھ مسلمانوں کی علمی پسماندگی بھی اتنی ہی تشویش ناک رہی ہے۔
آزادی کے 73سال بعد ایک ایسے وقت میں جب جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے قیام کے صد سالہ سفر کا جشن منا رہے ہیں اچانک خبر ملی کہ امریکہ کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی نے سائنس کے میدان میں صاحبانِ کمال کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں یوں تو بہت سے نام ہیں لیکن ہندوستان میں نمبر ایک سائنس داں کی حیثیت سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کیمسٹری کے پروفیسر عمران علی کا انتخاب ہوا ہے اور اسی طرح دنیا بھر کے دو فیصد سائنس دانوں میں سے ایک کی حیثیت سے جامعہ ہمدر نئی دہلی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر احمد کمال بھی ہیں۔
ہندوستان میں اول حیثیت سے پروفیسر عمران علی کا انتخاب ہو یا ڈاکٹر احمد کمال کا ہمارے لیے خوشیوں کو دوچند کرنے والا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اپنی وابستگی کے دوران ہم پروفیسر فیضان احمد، پروفیسر محمد سمیع، پروفیسر تبریز احمد، ڈاکٹر رفیق احمد، ڈاکٹر عتیق الرحمن، ڈاکٹر عابد حلیم اور ڈاکٹر امتیاز حسن کے ناموں سے واقف تھے اور اسٹین فورڈ یونیورسٹی نے دنیا بھر کے ممتاز سائنس دانوں میں اپنی جاری کردہ فہرست میں ان کے نام شامل کیے یہ ہمارے لیے انتہائی فخر وانبساط کا باعث ہے۔
اس کے بعد فکری طور پر جب ہم نے آزاد ہندوستان میں سائنس کے میدان سے جڑے ناموروں میں مسلمانوں کی تلاش کی تو ہمارے لیے یہ بات خوشگوار استعجاب سے کم نہ تھی کہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ میں جینیٹک انجینئرنگ (Genetic Engineering) کے بانی ڈاکٹر عبید صدیقی تھے۔ اسی طرح وائلڈ لائف میں ڈاکٹر سالم علی مرحوم کا نام زمانے بھر میں انتہائی عزت سے لیا جاتا ہے۔ بحری علوم (Oceanography) کے ماہر، اینٹارٹکا میں پہلی ہندوستانی مہم کے لیڈر اور وہاں گنگوتری نام کے ہندوستانی اسٹیشن کے بانی ڈاکٹر ظہور قاسم اور ان کے ڈپٹی ڈاکٹر صدقی مرحوم، میزائل ٹیکنالوجی میں ہندوستان کا سب سے بڑا نام اور ہمارے مرحوم صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام، ڈی این اے میں نمایاں تحقیقی کارکردگی کے لیے ممتاز ترین مشہور سائنس داں اور جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر سید احتشام حسنین، پلانٹ بائیلوجی میں ڈاکٹر عمران صدیقی (یہ مشہور سائنس داں ڈاکٹر عبید صدیقی کے فرزند ہیں) ، شانتی سروپ بھٹناگر ایوارڈ سے سرفراز زولوجی میں ڈاکٹر بشریٰ عتیق اور زولوجی ہی میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر اور زولوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ڈائریکٹر جنرل پروفیسر شمیم جے راج پوری، امراض چشم کے میدان میںسرگرم ڈاکٹر جاوید علی، اناٹومی میں مشہورِ زمانہ پروفیسر مہدی حسن، علم طبقات العرض (جیولیوجی) میں پروفیسر فخرالدین احمد اور ڈاکٹر نسیم صدیقی کے نام ابھر کر آئے تو دل خوش ہو گیا۔
اس پر مزید یہ کہ ایک سرگرم سائنس داں جس نے انتہائی خاموشی سے علم و تحقیق میں عالمی سطح پر اپنی جگہ بنائی وہ ڈاکٹر شاہد جمیل ہیں جنہیں ڈاکٹر شانتی سروپ بھٹناگرایوارڈ سمیت جو کہ ہندوستان میں سائنس کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے، مل چکا ہے اور ہندوستان کا کوئی سائنسی مقتدرہ نہیں جس سے انہیں وابستگی کے لیے منتخب نہ کیا گیا ہو۔ ڈاکٹر شاہد جمیل کے والد پروفیسر ماجد صدیقی بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بایوکیمسٹری کے بانی تھے۔
ہمارے لیے ایک اور خوشی کی بڑی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں سے بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے کسی نہ کسی سطح پر علی گڑھ میں پڑھا اور پڑھایا ہے اور سرسید کے اس خواب کو جو انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کرکے دیکھا تھا اس کو اپنی محنت اور کوششوں سے شرمندۂ تعبیر کیا ہے۔ یہ نام بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن ان سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ اگر ہمارے نوجوان اور ادارے طے کر لیں تو وہ ایسے نایاب و کم یاب گہرپارے سائنس کے ہر میدان میں پیدا کر سکتے ہیں کہ دنیا جن کی قائل بھی ہو اور عزت بھی کرے۔
ہم نے اپنے کالم کے لیے اس بار اسے اس لیے موضوع بنایا کہ دنیا بھر میں ہماری علمی پسماندگی کا رونا تو بہت رویا جاتا ہے اور اس طرح سے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک طرح سے احساس کمتری میں مبتلا کیا جانا ایک فیشن بن چکا ہے۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کے نام اور کام کو دنیا کے ساتھ خود مسلمانوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کیسے کیسے بحرالعلوم اور علم و دانش کے شناور ان کے یہاں موجود ہیں۔ دنیا کی بات تو چھوڑیے خود ہندوستان میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی نے جن لوگوں کو منتخب کیا ان کے علاوہ بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد اور ملک بھر کے دوسرے بڑے مقتدر اور معتبر ترین علمی و تحقیقی اداروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی سرگرم مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ اور کسی حد تک جامعہ ہمدرد بھی یہ کم دلچسپ بات نہیں ہے کہ کسی بھی دوسرے مذہبی مخلوط معاشرے میں اتنے چھوٹے سے ریڈیس سرکل میں مختلف مضامین کے ماہرین مسلمان مرد اور عورت اتنی بڑی تعداد میں شاید ہی کہیں اکٹھے مل پائیں۔ اب یہ ان اداروں کے سربراہان اور سینیئر اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگلی صدی کے لیے ایسی منصوبہ بندی کریں جس سے کہ ایسے نامور ماہرین علم و فن سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر سماجی علوم و فنون میں دنیا میں اپنی امتیازی جگہ بنا سکیں اور ایک دفعہ پھر ایسی فضا تیار کر سکیں کہ دنیا ان کی عزت و توقیر میں رطب اللسان ہو اور وہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ساری دنیا میں ایک نئی نشاة الثانیہ کا آغاز کر سکیں۔
وہ لوگ جو ایک ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں تخلیق آدم کے ساتھ ہی خالق کائنات نے اپنی اس سنت کو آدم کو فرشتوں سے سجدہ کراکے قیامت تک کے لیے دوام بخش دیا تھا کہ جو نہیںجانتے انہیں ان کو سجدہ کرنا پڑے گا جو جانتے ہیں۔ جن کے رسول جب غارِحرا سے سوئے قوم آئے تھے تو اپنے ساتھ اقرا¿ کا مول منتر لائے تھے۔ ان کے لیے علمی دنیا میں یہ کامیابی اور کامرانی حاصل کرنا مشکل تو نہیں ہونا چاہیے۔
گزشتہ ہفتے ہمارا درجہ بالا موضوع پر جو کالم شائع ہوا اس کو نہ صرف یہ ہے کہ کافی پسند کیا گیا بلکہ ہم میں سے بعض لوگوں جن میں امروہہ کے سبط جمال صاحب، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بایو سائنس کی پروفیسر تسنیم فاطمہ اور مشہورِ زمانہ ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر اور قلم کار جناب نوید مسعود نے کچھ اور ناموں کی نشاندہی کی اور ان لوگوں نے جس محبت کے ساتھ ہماری رہنمائی کی اس نے ہمیں اس پر آمادہ کیا کہ ان ناموں کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے۔ ہم نے آزادی کے بعد ان ناموںکو اس میں شامل نہیں کیا جو ترکِ وطن کرکے سرحد پار چلے گیے تھے اور نہ ہی ان لوگوں کی خدمات کو موضوع بنایا جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور سائنس کی تحقیق و تدریس میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔
اس دفعہ کی سب سے اہم خبر جس پر ہر ہندوستانی کو خوش اور ہر مسلمان کو فخر کرنا چاہیے ، وہ یہ ہے کہ مشہورِ زمانہ انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یکم دسمبر 2020 سے اس کا کیمسٹری ڈپارٹمنٹ ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید کے نام سے معنون ہوگا۔ یہ کسی بھی ہندوستانی کے لیے اور خاص طور سے دنیا بھر کے کسی بھی مسلمان کے لیے اعلیٰ ترین علمی اعزاز ہوگا۔ ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید ہندوستان کی دنیا بھر میں ایلوپیتھک دوا ساز کمپنی سپلا (CIPLA) کے مالکوں میں سے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید اپنے زمانے کے نامور سائنس داں جرمنی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی، ڈاکٹر خواجہ حمید کے صاحبزادے ہیں۔ نامناسب نہ ہوگا اگر یہاں ڈاکٹر خواجہ حمید جو علی گڑھ کے رہنے والے تھے اور علی گڑھ کے منٹو سرکل میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، جب جرمنی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی لے کر آئے تو یہ امید کی جاتی تھی کہ انہیں وہاں پر کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں تدریس و تحقیق کی ذمہ داری سپرد کی جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ انہوں نے کچھ عرصے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سائنس کی تعلیم دی اور ان کے نامور شاگردوں میں ایک نام پروفیسر اخلاق الرحمن قدوائی کا بھی ہے۔ جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے صدر بھی رہے۔ ہندوستان میں یونین پبلک سروس کمیشن کے پہلے مسلمان چیئرمین رہے اور راجیہ سبھا کے رکن اور کئی ریاستوں کے گورنر بھی رہے۔ ڈاکٹر حمید کچھ عرصے کے بعد بمبئی چلے آئے اور انہوں نے کیمیکل اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں سپلا کے قیام، مقبولیت اور وسعت سے قابلِ رشک حد تک کامیابی حاصل کی۔ ان کے بعد ان کے نامور فرزند اور کیمسٹری میں پی ایچ ڈی، بیٹے ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید نے سِپلا کو ملک کی دوا ساز صنعت میں نئی بلندیوں سے ہم آہنگ کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی کو اپنے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کو ان کے نام سے منسوب کرنا آج ساری دنیا میں ان کی اہمیت اور علمیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
اسی طرح فیشیریز (Fisheries) کے میدان میں جس شخص کو فادر آف انڈین فیشیریز کہا جاتا ہے وہ کیرالہ کے ڈاکٹر کے کُنہا علی کا نام ہے۔ اسی طرح جس آدمی نے سمندری نمکیات پر غیر معمولی کام کیا اور اپنی پہچان بنائی وہ مرزا محمد تقی خاں تھے جنہیں علمی اور سائنسی حلقوں میں ایم ایم تقی خاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح علمِ نباتات یعنی باٹنی میں لکھنو¿ کے ڈاکٹر اختر حسین جو بعد میں جامعہ ہمدرد کے پہلے وائس چانسلر بھی بنے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر رعایت خاں کا نام خاصہ اہم ہے۔ غیرنامیاتی علم کیمیا (Inorganic Chemistry) میں پروفیسر وحیدالدین ملک نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ریجنل انجینئرنگ کالج روڑکی میں اپنے نام کو کام سے اونچا کیا۔ پروفیسر وحیدالدین ملک کے علمی مرتبے، تحقیقی مہارت کی وجہ سے جھانسی یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی سری نگر اور الہ آباد یونیورسٹی کا ایک بعد دیگرے وائس چانسلر بنایا گیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں مائیکرو بایولوجی میں پروفیسر سہیل احمد اور بایو کیمسٹری میں پروفیسر احمد صلاح الدین نے انتہائی خاموشی سے جو اعلیٰ و عرفا تحقیقی کام کیے وہ آج بھی جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کے لیے وجہ افتخار ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ جغرافیہ میں سید مظفر علی جنہیں اپنے علم و فضل کی وجہ سے ریڈر کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے بھی ڈاکٹر ذاکر حسین نے اپنی وائس چانسلری کے زمانے میں پروفیسر نہ ہوتے ہوئے بھی صدر شعبہ بنایا اور بعد میں مدھیہ پردیش کی ساگر یونیورسٹی نے انہیں پروفیسر بنا کر اپنے یہاں بلا لیا، دوسرا نام جس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ جغرافیہ کو بین الاقوامی شناخت بخشی وہ پروفیسر محمد شفیع کی تھی۔ شفیع صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر بھی رہے اور بعد میں پرو چانسلر بھی۔
امروہہ جو اپنی ادبی زرخیزی کے لیے ساری دنیا میں جانا جاتا ہے اور جو رثائی ادب کا لکھنو¿ کے بعد بڑا مرکز رہا ہے اس نے بھی ہمیں دو اہم سائنس داں دیے۔ جن میں ایک سید محمود نقوی مرحوم تھے جو علم طبقات الارض (Geo-Chemistry) کے غیرمعمولی ماہرین میں تھے۔ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے لیکن تقریباً چالیس سال تک حیدرآباد میں نیشنل جیو فیزیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے جڑے رہے۔ ڈاکٹر نقوی کو مختلف اعزازات کے ساتھ 1983میں علم طبقات الارض کے میدان میں شانتی سروپ بھٹناگر ایوراڈ سرفراز کیا گیا۔ اسی طرح ڈاکٹر سید وجیہ احمد نقوی کا نام سمندری آبی کیمسٹری، بایو جیو کیمسٹری میں خاصہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے ہندوستان اور جرمنی کے مشترکہ تحقیقی پروجیکٹ میں چیف انڈین سائنٹسٹ کے طور پر غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر وجیہ نقوی کو بھی تمام علمی اعزازات کے ساتھ 1996میں شانتی سروپ بھٹناگر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ سائنس کے متعلق بے شمار انجمنوں اور بین الاقوامی تحقیقی پروجیکٹس کا حصہ رہے ہیں۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے، مختلف مہربانوں کے توجہ دلانے پر یہ نام سامنے آئے تو خیال ہوا کہ وہ جو علامہ اقبال نے کہا تھا واقعی سچ ہے کہ :
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ہم جو اپنی علمی پسماندگی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اپنے سماج میں جن لوگوں نے اپنی محنت سے برے سے برے حالات میں بھی ایسی غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ کسی بھی طرح کم نہیں کہی جا سکتیں۔ کم ہمتی، حوصلے کی پستی، حالات کا رونا روتے رہنا، اس نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم زوال کی اس نفسیات سے باہر آئیں، محنت کریں، غربت کو جہالت کا جواز نہ بننے دیں اور دنیا میں اپنی جگہ بنائیں۔
وہ لوگ جو غربت کو جہالت کی وجہ بتاتے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ شعب ابی طالب کے قیدیوں سے کم عسرت کا شکار نہیں ہیں۔ وہ مکہ کے پریشان حال مسلمانوں اور مدینہ کی ہجرت کرنے والے مجبوروں سے زیادہ دشواریوں کے شکار نہیں ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی قیادت و سیادت میں حصولِ علم کو اپنے لیے لازمی بنا لیا تھا۔ ان کا اس قرآنی فرمان پر ایمان تھا کہ انسان کو کچھ نہیں ملتا اس کی کوشش کے بغیر۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کل کے محکوم، مظلوم، علم و دانش سے بیگانہ ایک عالم کے معلم بن گیے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے دین اور دنیا میں کسی دوئی کو گوارا نہیں کیا تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بجا طور پر فرمایا تھا کہ حکمت مومن کی گم شدہ پونجی ہے اسے جہاں سے ملے حاصل کرو اور نبی امی ﷺ نے صرف کہا ہی نہیں تھا بلکہ اس پر عمل کرکے بھی دکھایا تھا جب آپ نے بدر کے جنگی قیدیوں سے جو مکہ والے تھے، قرآن کو مانتے نہیں تھے، حدیث کو جانتے نہیں تھے، ان کی رہائی کی یہ شرط رکھی کہ یا تو فدیہ دو، فدیہ نہیں دے سکتے تو مدینہ کے بچوں اور بچیوں کو پڑھاو¿ اور رہائی پا جاؤ۔ پیغمبر اسلام ﷺ کے اس اسوہ¿ حسنہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اگر علم و دانش کا حصول بدترین دشمنوں سے ہو سکتا ہے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے ایک بات کا اور پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے استاد کی علمی مہارت کو دیکھنا چاہیے اس کے مذہب کو نہیں۔ کیا ہم قرآن حکیم اور نبی کریم کے اس قول اور عمل کو اپنانے کو تیار ہیں؟ اسی پر منحصر ہے دنیا میں ہماری کامیابی، جہاں گیری اور جہاں داری۔
ہمت مرداں مددِ خدا
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)