ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
ہمارے ملک ہندوستان میں ان دنوں ایک کتاب ” یادگار زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ کی اہل علم اور کتاب دوست کے درمیان دھوم مچی ہوئی ہے، ہر اہل علم اور کتاب دوست کی زبان پر اسی کا تذکرہ ہے، علماء کی ہر مجلس اور ہر محفل میں اسی کی ظاہری اور باطنی خصوصیات موضوع سخن ہے۔
کاتب السطور کی مختصر معلومات کے مطابق ماضی قریب میں اس قدر ضخیم (آٹھ سو بتیس/832/صفحات پر مشتمل) اتنی مقبول غالباً یہ پہلی کتاب ہے، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائی جاسکتی ہے کہ ہندوستان میں اس کی پہلی اشاعت رواں سال (1442ھ) کے پہلا مہینہ ” محرم الحرام “ہے جب کہ اشاعت ثانی صرف ایک ماہ بعد ” ربیع الاول “ہے۔
جب کتاب اس قدر مقبول ہے تو اس کے مرتب کا کیا کہنا، وہ تو یقیناً اہل علم کے قلوب پر حکمراں ہوں گے، ان کا ذکر خیر سے ہر کتاب دوست کی زبان تر ہوگی، اس عظیم علمی کارنامہ پر ہر قاری ان کے لئے دعا گو ہوں گے، ان کی درازی عمر، ان کے علمی و ادبی کاز زیادہ سے زیادہ عام ہووے ، اس کے لئے ان کے محبین و منتسبین بارگاہ ایزدی میں ضرور دست بدعا ہوں گے۔
جی یقیناً! ایسا ہی تھا کہ اچانک اس شہرہ آفاق کتاب کے مرتب، ثانی مولانا ابوالکلام آزاد، اردو ادب کے بے مثال درشہسوار، انمول و البیلے طرز نگارش کے حامل، ممتاز انشاء پرداز ، قلم و قرطاس کے تاجور، سلطان القلم حضرت مولانا ابن الحسن عباسی رحمہ اللہ کی طبیعت علیل ہوئی۔
4/نومبر، 2020 ء کو ٹیلی گرام کے ایک گروپ ” ماہنامہ النخیل، کراچی “ میں حضرت مولانا ابن الحسن عباسی رح کے رفیق خاص ومعاون مدیر ماہنامہ ” النخیل “ کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے مربی و استاذ، ماہنامہ النخیل کے مدیر محترم مولانا ابن الحسن عباسی صاحب کی صحت ان دنوں بہت زیادہ خراب ہے، طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے رات انہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
گروپ ممبران سے دعاؤں کی درخواست ہے۔
محمد بشارت نواز
یوں تو آپ رح کے لئے دعائیں ہوہی رہیں تھیں، اس خبر نے مزید آپ کے محبین کو مہمیز لگایا۔
ربا! اس گوہر آبدار کو صحت و تندرستی عطا فرما!
لیکن ازل میں آپ رح کا وقت مقررہ ہوا ہی چاہتا تھا، حیات مستعار مکمل ہونے ہی کو تھی، مرض کی وجہ سے موت و حیات کی کشمکش تھی، بالاخر موت کی جیت ہوئی اور 28/ربیع الثانی 1442ھ، مطابق 14/دسمبر 2020ء کی شام یہ درد و کرب سے پر، غم انگیز خبر شوشل میڈیا پر گردش میں آئی کہ مشہور زمانہ ادیب شہیر، مایہ ناز قلم کار، سدا بہار قلم کے مالک، کامیاب مصنف ماہنامہ النخیل کراچی کا مطالعہ نمبر”یادگار زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“کے مرتب حضرت مولانا ابن الحسن عباسی صاحب رح (بانی و مہتمم:جامعہ تراث الاسلام، کراچی، پاکستان) اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔
خبر پڑھ کر ایسا معلوم ہوا کہ پاؤں تلے سے زمیں کھسک گئی، ذہن و دماغ معطل سا ہوکر رہ گیا، زبان پر بے ساختہ کلمہ استرجاع جاری ہوا۔
انا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه وادخله في فسيح جناتك يا ارحم الراحمين-
خدایا کیا ہوگیا!
ابھی تو حضرت رح زندگی کی صرف پچپن ہی بہار دیکھے تھے، ابھی تو ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنا تھا، ان کے علمی و ادبی کارنامے سے مستفیض ہونا تھا، ابھی تو ان کے نوک قلم سے بہت سی قیمتی کتابیں منظر عام پر آنی تھیں، ان سے تو بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ مولانا ؒ ” النخیل “ کے ذریعہ سے ادبی شہ پارے بکھیریں گے۔
لیکن موت بھی ایک اٹل حقیقت ہے، وقت مقررہ پر اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، اس کے سامنے ہر ایک کو جھکنا ہے، وقت موعود پر ہر ایک کو اِس فانی دنیا سے اُس عالم جاودانی کی جانب کوچ کرنا ہے۔
اسی سفر آخرت پر میرے ہی نہیں بلکہ ہزاروں اہل علم کے ہردلعزیز، محبوب ترین مصنف حضرت مولانا ابن الحسن عباسی صاحب رح بھی خوش و خرم عازم سفر ہوکر اپنے رب کے حضور تشریف لے گئے۔
ہمیں یقین ہے کہ فرشتے ان سے کہے ہوں گے
” نم كنومة العروس “
آرام فرمائیں، جیسے پہلی رات کی دلہن آرام کرتی ہے۔
حضرت مولانا رح کے نام سب سے پہلے استاذ محترم حضرت مولانا انصار احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم (سابق استاذ:دارالعلوم سلیمانیہ، میراروڈ، ممبئی) کی زبان سے سنا تھا اور آپ نے ہی مولانا مرحوم رح کی دو کتابوں کی طرف رہنمائی کی تھی، (1) متاعِ وقت اور کاروان علم
(2) کتابوں کی درسگاہ میں۔
عربی دوم کے سال ہی دونوں کتابیں دیوبند سے منگا کر مطالعہ کیا،اور اسی وقت سے آپ رح کا گرویدہ ہوا، اس کے بعد پھر آپ کی اردو ادب کے عظیم کتاب ” کرنیں “ بھی پڑھی، بلکہ ” کرنیں “ کے ایک مضمون رٹ کر تقریر بھی کی، اور اسی کتاب نے فدوی کو آپ رح کا عاشق بنادیا۔
اسی طرح آپ رح کی ایک کتاب ”وفاق المدارس العربیہ پاکستان، ساٹھ سالہ تاریخ “ جو تقریباً پونے نو سو صفحات پر مشتمل ہے اس کی بھی ورق گردانی کی، اور ابھی آپ رح کی آخری مرتب کردہ بے مثال کتاب ”یادگار زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ “ زیر بصارت ہے، حضرت مولاناؒ ، 14/دسمبر کو وفات پائے، اور یہ کتاب میرے پاس دیوبند سے 15/دسمبر کو پہنچی۔
اللہ تعالی! مولانا رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل اور جامعہ تراث الاسلام کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے (آمین)