18 دسمبر: عربی زبان کی اہميت کے اعتراف کا عالمی دن

محمد نوشاد نوری قاسمی

    18 دسمبر 1973ء كو اقوام متحده كی جنرل اسمبلی نے عربی زبان كی اہميت، تاريخی حيثيت اور عصر حاضر ميں اس كے دائره ا ثر كو ديكھتے ہوئے ، اسے ان چھ زبانوں ميں شامل كرنے كا فيصلہ كيا، جو اقوام متحده كی دفتری زبان ہے، اس فہرست کی ديگر زبانوں ميں انگريزی، فرانسيسی، روسی، اسپينی اور چينی زبانيں شامل ہيں، اقوام متحده كی ذيلی تنظيم يونيسكو (جو تعليمي ، سائنسي اور ثقافتي امورسے دلچسپي ركھتي ہے) نے 19 فروری 2010ء كو اس زبان كی لسانی اور ثقافتی اہميت كے پيش نظر ، 18 دسمبر كو عربی زبان كے عالمی دن كے طور پر منانے كا فيصلہ كيا اور 18 دسمبر 2012كو پہلی مرتبہ ، پوری دنيا ميں اسے ’’عربك ڈے‘‘ كے طور پر منايا گيا۔

   اقوام متحده كا فيصلہ ، ايك تاريخی فيصلہ تھا اور بڑے دور رس نتائج پر مشتمل تھا، یہ اعتراف تھا كه عربی زبان ايك انسانی ورثہ ہے، عالمی تہذيب وتمدن كا ريكارڈ ہے،تقریباً دوہزار سالوں سے انسانی تاريخ كے مدوجزر كا آئينہ ہے، یہ اشاره تھا کہ دور حاضر ميں مشرق ومغرب كے تہذيبی تصادم كے تناظر ميں، عربی زبان كے خلاف هونے والی سازشيں دم توڑ چكی ہیں، یہ فيصلہ زناٹے دار طمانچہ تھا جدت پسندي كا لباده اوڑھنے والے ان عرب مفكرين پر، جو بلاد عربیہ ميں، عربی كے قواعد، گرامر، اعراب، املا اور تعبيرات كے فرسوده ہونے كا شكوه كرتے اوراس كی آڑ ميں عربی اور اسلامی ثقافت پر شبخوں مارتے تھے۔

   عربی زبان دنيا كی سب سے قديم ترين زبان ہے، قرآن كے نازل ہونے سے پہلے ، یہ جزيرة العرب ميں محدود تھی؛ ليكن قرآن كريم نے اسےحيات جاودانی عطاكی، اسے صحراے عرب كے تنگ ناے سے نكال كر، عالمی تہذيب وتمدن كانشان بنايا، اسےدنيا اورآخرت، كائنات اور خالق كائنات كے اسرار كا محرم بنايا، زمين وآسمان كے درميانی رابطہ كی زبان بنايا اور اس كو زمان ومكان كی قيد سے آزاد كيا، قرآن كريم كا عربی ميں نازل ہونا ، عربي كے ليے سب سے بڑا اعزاز ہےاوراس كے ليے وثيقۂ دوام بھی۔

     وه دن ہے اور آج كا دن، عربی زبان كاسورج اسی تابانی كے ساتھ، فكر وفن، تہذيب وتمدن اور علم وادب كی دنيا كے افق پر ، چمك رہاہے، فكروثقافت كے مينارے پر اس كا جھنڈا نصب ہے ، اپنے ادبی معجزوں كی وجہ سے اس كا جادو سر چڑھ كر بول رہا ہے، پندره سوسال كے دورانيے ميں، بلاد عربیہ ميں ہزاروں طوفان آئے، سياسی انقلابات آئے، مختلف نسلوں اور خاندان كے ہاتھوں ميں زمام اقتدار آئی، بعض حالات ميں مختلف زبانوں كےدرميان مقابلہ آرائی كی بھی كيفيت بن گئی اورعربی زبان پر اس كا اثر بھی پڑا؛ ليكن كبھی ايسانہيں ہوا کہ اس كی چمك ماند پڑگئی ہو، اس كی بساط الٹ دی گئی ہو يا اس نے زمانے كی ہمسری سے عاجزی كا اظہاركيا ہو؛ بلکہ مشرق اور مغرب كی سينكڑوں زبانوں پر عربی اثر انداز ہوئی اوراس كے ہزاروں مفردات آج بھی دنيا كی زبانوں كے الفاظ كی اساس ہیں۔

   عربی زبان كا دور جديد ــ جو بيشتر مؤرخينِ عربی ادب كے مطابق، 1798ء ميں مصر پر فرانسيسی حمله سے شروع ہوتا ہے ــ عربی ادب كي تاريخ كا سب سے سنہرا دور ہے، اس دور ميں عربی زبان نے مثالی انداز ميں ترقی كی، زبان وادب كے نئے گوشوں سے عربی متعارف ہوئی، نثر ونظم كے انتہائی اعلی اور معياری شاہكار وجود ميں آئے، عربی ادب كو صرف ايك زبان كی حيثيت سے نہيں ؛ بلكه فكری اور تہذيبی نقطۂ نظر سے بھی ديكھا گيا اور ماہرين عربی ادب كے افكار وخيالات كے انسانی معاشرے پراثرات كا بھی خوب جائزه ليا گيا، اس دور كی اہم ترين خوبی یہ رہی کہ مختلف مذاہب كے لوگوں نے عربی كی خدمت اور فروغ ميں حصه ليا، بلاد عربیہ كے مسلمانوں كے ساتھ، غير مسلم ادبااور مفكرين نے بھی كارہائے نماياں انجام ديےاوران كی حصہ داری قابل قدر بھی رہی اور قابل فخر بھی، عربی ادب كی تاريخ پر سب سے پہلے ايك جرمن مستشرق كارل بروكلمان (1956-1868) نے انتہائی قابل قدر كتاب لكھی، جس كا مختلف زبانوں ميں ترجمہ ہوا، بلاد عربیہ كے علاوه دنيا كے مختلف ممالك ميں عربی كے مراكز قائم ہوئے اور ’’ادب المهجر‘‘ كے نام سے عربی زبان وادب ميں ايك خوش گوار صنف كا اضافہ ہوا، مشرق وسطی كي سياسی، اقتصادی، سفارتی اور تہذيبی اہميت نے بھی عربی كے فروغ ميں بڑا كردار ادا كيا۔

    دور جديدكے سائنسی ايجادات، عربی اور اسلامی ثقافت سے يكسر مختلف، مغربی تہذيب وثقافت كے عالمی اقتدار اور بحر وبر كے ساتھ فضائی تسخير كے حيرت انگيز كارناموں كے پس منظر ميں، زمانه كہ ہمسری اور برق رفتار ايجادات كےلغوی استيعاب كا چيلنج ، عربی زبان كے سامنے دور حاضر كا سب سے بڑا چيلنج تھا، كچھ لوگ مغرب كی ترقيوں سے مبہوت تھے اور مايوسی كے عالم ميں يا سازش كا شكار ہوكرعصر حاضر ميں عربی كی معتبريت پر سوال كھڑے كررہے تھے؛ ليكن سلام هو عربی زبان كے ان مخلص فرزندوں پر، جنہوں نے اپنی مخلصانہ جدوجہد كے ذریعہ اس مشكل پر بھی قابو پاليا، دسيوں اكيڈمياں قائم ہوئيں، مفردات اور تعبيرات كی جانچ پركھ كے ليے بڑی بڑی ذہانتوں نے حصه ليا اور یہ ثابت كردكھايا کہ آج بھی عربي كا دامن اتناہی وسيع ہے جتنا كل تھا، وه علوم وفنون كا دفتر اور تمام انسانی تہذيب وتمدن كے عروج وزوال، ان كے كارناموں اور ان كے فكری وادبی ورثے كی نگہبان ہے۔

  یہی وجہ ہے کہ عربی زبان آج چار سو بائیس ملین عربوں کی قومی اور ایک ہزار ملین مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، یہ۲۱ ممالک کی پہلی اور پانچ ملکوں کی دوسری سرکاری زبان ہےاور دنيا بھر كے لاكھوں مدارس اور يونيورسيٹيوں ميں ، عربي كے شعبے قائم ہيں، اقوام متحده كا فيصلہ عربی كي عالميت اور عصری معنويت كے اعتراف كا شاندار منشور ہے، جس كی ستائش ہوني چاہيے ، بصيرت كی آنكھوں سے نہیں تو كم ازكم تقليد مغرب ميں ہي ، عربي كی اہميت كو سمجھنے اور اس كے فروغ كی كوشش كرنی چاہيے۔