زرعی قوانین: مودی حکومت کو لگ سکتا ہے جھٹکا، آئینی جواز پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کل!

عدالت عظمیٰ نے تینوں زرعی قوانین کو لے کر کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ سے نمٹنے کے طریقے پر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کسانوں کے ساتھ اس کی بات چیت کے طریقے سے وہ بہت مایوس ہے۔

نئی دہلی: (تنویر) متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک دہلی کی سرحدوں پر جاری ہے۔ آج سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا نے مرکز کی مودی حکومت کو جس طرح سے پھٹکار لگائی، اس سے کسان تنظیمیں بہت خوش ہیں اور کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے تو عدالت کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ اس درمیان خبریں آ رہی ہیں کہ زرعی قوانین کو لے کر مرکزی حکومت کو بڑا جھٹکا لگا سکتا ہے۔ ایسا امکان اس لیے ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ سپریم کورٹ زرعی بل کے آئینی جواز پر منگل یعنی 12 جنوری کو فیصلہ سنا سکتی ہے۔
اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ اگر ماہرین کی کمیٹی انھیں کہے گی تو وہ زرعی قوانین پر فی الحال روک لگا سکتی ہے۔ قوانین کے آئینی جواز پر آج ہوئی سماعت پر مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ ’’زرعی اصلاح بلوں سے متعلق موضوع سپریم کورٹ کے سامنے زیر غور ہے۔ اس لیے اس وقت اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت مجھے محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
پیر کے روز عدالت عظمیٰ نے تینوں زرعی قوانین کو لے کر کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ سے نمٹنے کے طریقے پر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کسانوں کے ساتھ اس کی بات چیت کے طریقے سے وہ بہت مایوس ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس تنازعہ کا حل تلاش کرنے کے لیے وہ اب ایک کمیٹی تشکیل کرے گا جو کہ دونوں فریقین سے بات چیت کر کوئی درمیان کا راستہ نکالے گی۔
سپریم کورٹ نے مرکز کی جانب سے پیش سالیسٹر جنرل سے کہا کہ بات چیت مثبت انداز میں ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ فی الحال تینوں زرعی قوانین نافذ نہ ہوں۔ اس سے کسان تنظیمیں بہتر طریقے سے بات کر پائیں گی اور جب تک کوئی حل نہیں نکلتا تب تک کسان تحریک کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے گا۔