جنید احمد نور
ہندو نیپال سرحد پر کوہستان ہمالیہ کی مینوسوادوادی میں آباد ایک چھوٹا سا ضلع بہرائچ علاقہ اودھ کا ایک تاریخی علاقہ ہے جسے سلطان الشہدا فی الہند حضرت سید سالار مسعود غازی ؒکا جائے شہادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بہرائچ زمانہ قدیم سے علم کا مرکز رہا ہے ۔دریائے گھاگھرا کے کنارے صوبہ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے ۱۲۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بہرائچ صوبہ و خطہ اودھ کا تاریخی ضلع اور شہر ہے۔ضلع بہرائچ کو اگر جغرافیائی نقط نظر سے دیکھا جائے تو یہ اتر پردیش کا ایک ایسا ضلع ہے جو نیپال کی سرحد پر اور ہمالیہ کی گود میں بسا ہوا ہے۔ویسے تو یہ ضلع ترقیاتی نقطئہ ونظر سے کافی پسماندہ ہے لیکن قدرتی دولت سے مالامال بھی ہے ۔ ہرائچ زمانہ قدیم سے ہی علم کا گہوارہ رہا ہے۔یہاں خاص طور پر اردو ادب نے بہت ترقی پائی۔ مشہور بزرگ اور شاعر حضرت مرزا مظہر ؔ جان جاناں شہید ؒ کے خلیفہ خاص اور آپ کی اولین سوانح لکھنے والے معمولات مظہریہ کے مصنف حضرت شاہ نعیم اللہ صاحب بہرائچیؒ کوبہرائچ کا پہلا اردو شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے۔شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ کا کلام آج بھی آپ کے خانوادے کے پاس محفوظ ہے۔بہرائچ ہی وہ سر زمین ہے جہاں شہنشاہ غزل میر تقی میؔر نے اپنی مثنوی’’ شکار نامہ‘ تصنیف کی تھی۔
میر ؔنے بہرائچ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ
چلےہم جو بہرائچ سے پیشتر
ہوئےصید دریا کے واں پیشتر
مشہور ادیب ،عید گاہ اور گودان جیسے بے مثل شاہکار لکھنے والے منشی پریم چند نے بھی شہر بہرائچ کو اپنی رہائش کا شرف بخشا ہے۔منشی پریم چند صاحب کی پیدائش۳؍جولائی ۱۸۸۰ءمیں ہوئی۔آپ صرف۲۰ سال کی عمر میں ٹیچر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے۔ اس دوران۲؍ جولائی ۱۹۰۰ء میں آپ کا ٹرانسفر بہرائچ کے گورنمینٹ انٹر کالج میں ۲۰؍روپے ماہانہ پر ہوا ۔جہاں پرآپ نے تین ماہ تک بطور ٹیچر کے تعلیمی خدمات انجام دی۔اوریہیں بہرائچ میں ہی اپنے ناول ” اسرار معابد “ کی شروعات کی تھی۔پروفیسر سید مسعودحسن رضوی ادیبؔ کی ولادت محلہ ناظر پورہ بہرائچ میں ہوئی۔ عصمت ؔچغتائی،عظیم بیگ چغتائی اور کیفیؔ اعظمی کی ابتدائی زندگی کا ایک دور یہاں گزرا ہے۔
یہ تو تھا بہرائچ اور اردو ادب کے درمیان کا تعلق ،ہمارا یہ مضمون اصل میں کیفیؔ اعظمی صاحب پر ہے اور ان کی ہی کتاب کے حوالے سے بہرائچ سے آپ کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
مشہور شاعر کیفیؔ اعظمی صاحب کی ولادت 14 جنوری 1919ء کو ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی تھی۔ کیفی صاحب کا ہمارے تاریخی شہر بہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔ آپ کے بچپن کے دن بھی بہرائچ میں گزرے ہیں۔ کیفیؔ صاحب کے والد صاحب نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ کے نواب قزلباش کے یہاں ملازمت کرتے تھے اور شہر بہرائچ کے محلہ سید واڑہ قاضی پورہ میں رہتے تھے۔کیفیؔ صاحب نے اپنی پہلی غزل بہرائچ میں ہی پڑھی تھی۔جیسا کہ کیفی ؔصاحب خود اپنے مجموعہ کلام ’’سرمایہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
واقعہ یہ ہے کہ ابّا بہرائچ میں تھے۔نواب قزلباش اسٹیٹ (تعلقہ نواب گنج علی آباد بہرائچ) کے مختار عام یا پتہ نہیں کیا وہا ں ایک مشاعرہ منعقد ہوا اس وقت زیادہ تر مشاعرے طرحی ہوا کرتے تھے اسی طرح کا ایک مشاعرہ تھا۔بھائی صاحبان لکھنؤسے آئے تھے۔بہرائچ ،گونڈہ، نانپارہ اور قریب دور کے بہت سے شعراء مدعو تھے۔مشاعرے کے صدر مانیؔ جائسی صاحب تھے ان کے شعر سننےکا ایک خاص طریقہ تھا کہ وہ شعر سننے کے لئے اپنی جگہ پر اکڑوں بیٹھ جاتے اور اپنا سر اپنے دونوں گھٹنوں سے دبا لیتے اور جھوم جھوم کے شعر سنتے اور داد دیتے ۔اس وقت شعراء حسب مراتب بٹھائے جاتے ایک چھوٹی سی چوکی پر قیمتی قالین بچھا ہوتا اور گاؤ تکیہ لگا ہوا ہوتا صدر اسی چوکی پر گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھتا تھا جس شاعر کی باری آتی وہ اسی چوکی پر آکے ایک طرف نہایت ادب سے دو زانو ہوکے بیٹھتا ، مجھے موقع ملا تو میں بھی اسی طرح ادب سے چوکی پر ایک کونے میں دو زانو بیٹھ کے اپنی غزل جو طرح میں تھی سنانے لگا طرح تھی ’’ مہرباں ہوتا رازداں ہوتا ‘‘ وغیرہ میں نے ایک شعر پڑھا ۔
وہ سب کی سن رہے ہیں سب کو دادِ شوق دیتے ہیں
کہیں ایسے میں میرا قصئہ غم بھی بیاں ہوتا
مانیؔ صاحب کو نہ جانے شعر اتنا کیوں پسند آیا کہ انھوں نے خوش ہو کر پیٹھ ٹھونکے کے لئے پیٹھ پر ایک ہاتھ مارا تو میں چوکی سے زمیں پر آرہا۔ مانیؔ صاحب کا منھ گھٹنوں میں چھپا ہوا تھا اس لئے انھوں نے دیکھا نہیں کہ کیا ہوا جھوم جھوم کے داد دیتے اور شعر مکرّر مکرّر مجھ سے پڑوھواتے رہے اور میں زمین پڑا پڑا شعر دوہراتا رہا، یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں شاعر کی حیثیت سے میں شریک ہوا۔ اس مشاعرہ میں مجھے جتنی داد ملی اس کی یاد سے اب تک کوفت ہو تی ہے۔بزرگوں نے داد دی اور کچھ لوگوں نے شک کیا کی یہ غزل کسی اور کی ہے اور میں نے اسے اپنے نام سے پڑھی ہے۔اس پر میں رونے لگا تب بڑے بھائی شبیر حسین وفاؔ جنہیں ابا سب سے زیادہ چاہتے تھے انھوں نے ابا سے کہا انھوں نے جو غزل پڑھی ہے وہ انہیں کی ہے شک دور کرنے کئے لئے کیوں نہ ان کا امتحان لے لیا جائے اس وقت ابّاکے منشی حضرت شوقؔ بہرائچی تھے جو مزاحیہ شاعر تھے۔انھوں نے اس تجویز کی تائید کی مجھ سے پوچھا گیا امتحان دینے کے لئے تیار ہو میں خوشی سے تیار ہو گیا۔ شوقؔ بہرائچی صاحب نے مصرعہ دیا
’’اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے ‘‘
بھائی صاحب نے کہا ان کے لئے یہ زمین بنجر ثابت ہوگی کوئی شگفتہ سی تجویز کیجئے لیکن میں نے کہا اگر غزل کہوں گا تو اسی زمین میں ورنہ امتحان نہیں دوں گا طے پایا کہ اسی طرح میں طبع آزمائی کروں اور تھوڑی دیر میں تین چار شعر کہے جو اس طرح تھے جسے بعد میں بیگم اختر نے اپنی آواز سےپنکھ لگا دیئے اور وہ ہندوستان ،پاکستان میں مشہور ہوگئی وہ غزل میری زندگی کی پہلی غزل ہے کو میں نے 11 سال کی عمر میں کہی تھی۔
اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکوں نہ رونے سے کل
جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک
یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے
اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے
ساقی سبھی کو ہے غم تشنہ لبی مگر
مے ہے اسی کی نام پہ جس کے ابل پڑے
مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے
کیفی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اب اس غزل کو آپ پسند کریں یا نہ کریں خود میں بھی اب ایسی غزل نہیں کہہ سکتا لیکن اس کی یہ افادیت ضرور ہوئی کہ اس نے لوگوں کا شک دور کر دیا اور سب نے یہ مان لیا کہ میں نے جو کچھ اپنے نام سے مشاعرے میں سنایا تھا۔وہ میراہی کہا ہوا تھامانگے کا اجالا نہیں تھا۔بہرائچ میں یہ غزل کہنے اور مشاعرے میں سنانے کے بعد لکھنؤ تو سب نے یہ سمجھایا کہ اگر سنجیدگی کے ساتھ شاعری کرنا چاہتے ہو تو کسی استاد کا دامن پکڑ لو۔کوئی بے استاد شاعر نہیں ہو سکتا ،ہو سکتا ہے گونڈہ ،بہرائچ میں ہو جائے لیکن یہ لکھنؤ ہے۔اس زمانے میں وہاں دو استادوں کا سکہ چل رہا تھا ۔حضرت آرزوؔ لکھنوی اور مولانا صفیؔ ۔میں آرزوؔ صاحب کے مقابلہ میں صفیؔ صاحب کو زیادہ پسند کرتا تھا ہمت کر کے ان کے گھر پہنچ گیا۔
بہرائچ کے مشہور استاد شاعر منشی محمد یار خاں رافتؔ بہرائچی ،جمال الدین بابا جمالؔ بہرائچی ، بابو سورج نارائن سنگھ آرزوؔ بہرائچی ،بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی ، راقم کے پرنانا اور بہرائچ کے مشہور تاجر و شاعر جناب حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی کیفی ؔ اعظمی صاحب کے بہرائچ کے دوستوں میں سے تھے۔ بعد میں بھی کیفی کا بہرائچ آناجانا بنا رہا جس میں وہ اپنے بچپن کے دوستوں سے شفیع ؔصاحب کی دکان پر ملاقات کرتے تھے۔ کیفیؔ صاحب آخری مرتبہ8 فروری 1986ء کو بہرائچ کے روڈویز میدان میں منعقد ایک مشاعرہ میں آئے تھے ۔