استغفراللہ

سیمیں کرن
اور پھر اس طوطے نے، اس بزرگ طو طے نے جو سو سا ل سے سجدے میں پڑا تھا، طوطی کے آتے ہی سجدے سے سر اُٹھایا ،پَر پھڑ پھڑائے اور اُڑان بھر کر طو طی کے پہلو میں آن بیٹھا ۔۔۔ اُس کے سا تھی حیرا ن رہ گئے اور پو چھنے لگے :’’ یہ کیا ہُوا؟‘‘ بز ر گ طو طے نے اپنی تمام تربز رگی کو بُھلا کر بڑی ڈھٹا ئی سے جوا ب دیا :’’ ہاں ! تو سا ری عبا دت اسی لئے تو تھی ‘‘۔
یہ لطیفہ اُس نے بہت با ر سُن رکھا تھا ۔ یہ پیغا م کی صورت موبا ئل فو ن پربھی با ر ہا آچکا تھا ۔ مگر آج جب اس کے معصو م سے بیٹے نے یہ لطیفہ اُسے سنا یا تو جا نے کیا ہُوا؟ اُس کا اثر دو گنا ہو گیا ۔ اُس کے سنا نے کا انداز کچھ ایسا تھا یا پھر الفاظ کی ادا ئیگی و حا لا ت کی ذو معنی کہ وہ بے تحاشہ ہنسنے لگا۔ ہنستے ہنستے اُسکے پیٹ میں بل پڑ گئے، آنکھیں سُرخ ہو گئیں اور پھر ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ مگر یہ کیسے آنسو تھے جو ٹپا ٹپ اُس کے چہرے کو بھگو نے لگے اور پھر اُس کے چہرے کو بھگو تے ہی چلے گئے ۔۔۔
اُسے لگا کہ یہ لطیفہ اس کے بیٹے نے جا ن بو جھ کر اُس کو سُنا یا تھا ۔ وہ اُس پر، اس کی بز رگی و ریا ضت کو شک کی نگا ہ سے دیکھ رہا تھا ، اُسے لگا کہ وہ تما م حقیقت جا نتا تھا، وہ حقیقت جو کہ اُس نے شا ید خو د سے بھی چھپا رکھی تھی ، وہ جو دِل کے چور نہاں خا نوں میں چھپی بیٹھی تھی جس سے اُس نے ہمیشہ نگا ہیں چرا ئی تھیں اور اپنے ذا ت کے کوا ڑوں کو سختی سے بند کر لیا تھا کہ کہیں کسی درز سے وہ خوا ہش مُنہ زوری کرتے ہو ئے اندر دا خل ہوجائے۔ یوں جیسے کسی تنگ شگا ف سے دریا کا منہ زور ریلا دا خل ہو تا ہے تو کتنی تبا ہی مچا تا ہے ۔ اسی لئے خوف کے ما رے اُس نے اپنی ذا ت کے کواڑ اِتنی سختی سے بند کیے تھے اور یہی سختی اورکٹڑ پن اُس کے مزا ج میں بھی در آیا تھا۔
جب اِنسا ن اپنی ذا ت کی اِس طرح سے نفی کرتا ہے ،دِل کی سر ز مین سے پھوٹنے وا لی اُن خوا ہشوں کو جن کا تعلق دِل و رو ح سے بہت گہرا ہوتا ہے ،اُن کو کچل کر ضرورتوں کے سا منے ذبح کر ڈا لتا اور ضرورتیں انہیں اُدھیڑتے ،نو چتے با لکل نیم جا ن کر ڈا لتی ہیں ۔۔۔ ہا ں تب بھی وہ خوا ہشیں صرف نیم جان ہی ہو تی ہیں مرتی پھر بھی نہیں کہ وہ روح و دِل کی سر زمین سے جنم لیتی ہیں۔۔ تو پھر انسا ن کچھ ایسا ہی ہو جا تاہے دو غلا سا ،کچھ خود غرض ،کچھ درو یش سا ،کچھ بے نیا ز سا، کچھ سخت اور کٹڑ اور کچھ___ غرض اِک عجیب مغلو بہ سی بن جاتی ہے اُس کی ذا ت بھی اور شاید ہر انسا ن کی ذا ت اِک مغلو بہ ہی ہے مختلف رنگوں کا ، وہ یہی سو چ خو د کو تسلی دیا کرتا تھا مگرو ہ شروع سے تو ایسا نہ تھا ، وہ تو بڑا نٹ کھٹ ،بڑا ہنسوڑ ،بڑا دلر با بلکہ بڑا دِل پھینک تھا، رنگوں ،خوا ہشوں سے سجامنہ زور خوا ہشیں جو توا نا ئی کے احساس سے اُبل اُبل پڑ تی تھیں ۔
ہا ں ایسا ہی تھا ار مغا ن حسین ۔۔ وہ اپنے بچپن سے اُن بچوں میں تھا جو گھر کے بڑے بچے کی قو ت یا پھر مقبو لیت کوجا ن کا رو گ بنا لیتے ہیں اور اُس اُلجھن سے تمام عمر نہیں نکل پا تے، شاید اُس کے اندر کا وہ ضدی ،ہٹیل اور اڑیل بچہ کبھی بڑا ہو ہی نہیں پایا ۔ وہ بیک وقت بہت معصوم ،بہت چا لا ک ، بہت خو د غرض اور اِ ک دَم نثا ر با لکل کسی بچے کی طرح رنگ بدلتا ، اپنی منہ زوری اور خود غر ضی میں چا لا کی دِکھا تا مگر ایسی چا لا کی جو چھپ نہ پاتی۔
یہ تھا ارمغا ن حسین، دو بہنوں اور ایک چھوٹے بھا ئی کا بڑا بھا ئی ، آپا حِنا سب سے بڑی ، پھر ار مغا ن ، اس سے چھوٹی صبا اور صبا سے چھوٹا حسا ن ۔۔ دیکھا جا ئے تو ایک طرح سے وہ گھر کا بڑا بیٹا تھا مگر آپا حِناکی شخصیت اِ سطرح گھر پر چھا ئی ہو ئی تھی ۔۔اور یہ وہ وقت تھاکہ وہ کسی کیکر کے درخت کی طرح کا نٹوں اور پھو لوں سے لدا ہُوا تھا جس کے کا نٹوں سے صرف گھر وا لے لہو لہا ن ہو رہے تھے اورپھو ل اپنی بہا ر با ہر بکھرا رہے تھے۔۔ اور آپا حِنا انہیں تو شوق تھا کو ئی مندر کی دیو ی بننے کا ، ایثا ر کی مو رتی بننے کا ، وہ بہت نفرت سے سو چتا ، اُ س کا بس چلتا تو وہ آپا حِنا کو کِسی اونچی پہا ڑی سے نیچے کسی کھا ئی میں دھکا دے دیتا جہاں اُن کی ہڈیوں کا سُر مہ بھی نظر نہ آتا مگر جب ایسا مو قع آیا کہ آپا حِنا سیڑھیوں سے گر کر شا ید خود ہی مر مرا جا تیں تو اس نے جا نے کیسے ،جیسے کو ئی خود کا ر نظا م خود بخود چَل پڑ ے، کِسی غیر مرئی احساس کے تحت ،کسی بہت اندرونی جذ بے کے تحت اُ نہیں بچا لیا تھا اور وقتی طور پر تو یا پھر نیکی کے احساس کے تحت اُس کا چہرہ تمتما اُٹھا تھا ، لیکن اندر ہی اندر وہ خو د پر ششدر تھا کہ یہ اُس نے کیا اور کیوں کیا ؟ تو کیا وہ آپا حِنا سے نفرت نہیں کرتا تھا؟؟؟یہ صرف اوپر تلے کے بچوں کے مابین کا حسد تھا ؟ وہ آج تک اِ س حقیقت کو سمجھ نہیں پا یا تھا بلکہ اندر ہی اندر یہ گُھن بھی اُسے چا ٹتا تھا کہ وہ صرف آپا حِنا سے حسد کرتا ہے ، نفرت نہیں کہ نفرت تو آپ کو طا قت دیتی ہے اور حسد آپکے اندر احساسِ کمتری پیدا کرتا ہے ۔
ہا ں تو یہ وہ دِ ن تھے جب ارمغان حسین جوا نی کی طرف قدم بڑھارہا تھا ، رنگ برنگی اور دِل میں چٹکی بھرتی خوا ہشو ں سے لبا لب بھر ابلکہ اِ ن خوا ہشوں سے لتھڑا ہُوا تھا کہ اُن کے آگے اُس کو کچھ نظر نہیں آتا تھا ، اپنی ذا ت کی مر کز یت و خو د پسندی جِس کی تقویت صرف گھر کے با ہر ملتی تھی اور گھر میں جیسے اُس کی مکمل نفی ہو جا تی تھی کیو نکہ وہ گھر وا لوں کے لیے سچ مچ کیکر کی کا نٹوں بھی جھا ڑ ی تھی ،کبھی بہنوں کوما ر پیٹ حتٰی کہ حِنا آپا بھی اس کے عتاب سے نہ بچ پا تیں ، کبھی ہا تھ اور زبا ن کی زد میں اور کبھی بس نہ چلتا تو اُن کی چیزیں بیچ کھا تا ، چھوٹے بھا ئی کو با ہر لیجا کر دوستوں میں ڈینگیں مارتے ہو ئے مرغوں کی طرح لڑوانا اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ، سو دے سلف میں سے پیسے بچا نا ،بٹو رنا جہاں دا ؤ لگے گھر میں چوریکرنااور آوارہ و بد معا ش لڑکوں کی صحبت میں بیٹھنا جہاں ننگی فلمیں چلتیں اور شرا ب پیپسی کی کا لی بو تلوں میں بھر کر لا ئی جاتی گو کہ وہ بیٹھک کے دروا زے و کھڑکیاں سختی سے بند کر دیتا مگر ایسے کا موں کی خو شبو یا بد بو درزوں سے بھی با ہر آجا تی ہے ،بہنیں اور چھوٹا بھائی جا نے کیسے تا ک جھا نک کر سب دیکھ لیتے ،درزوں میں سے آنکھیں چپکا ئے وہ عمر کے جِس حصے میں تھے یہ سب دیکھتے اور مُنہ سے سی سی کی آوازیں نکا لتے مگر اما ں ابا کے سا منے با لکل پارسا بن جا تے اور مجر م ایک ہی ہوتا اور وہ تھا ار مغا ن حسین جس پر کبھی کبھا ر بلکہ اکثر غم و غصے کی شدت سے ابا کا ڈنڈا بھی چلتا اور مجر م و معتو ب ار مغا ن حسین اِک نا فر ما ن بیٹا اِ ک ناپسندیدہ شخص اپنی اہمیت سے نا آشنا بلکہ اپنی نا قدری پر غمز دہ و غصے کا شکا ر ۔۔یہ تھاارمغا ن ححسین جسے باہر کی دُنیا میں ہا تھوں ہا تھ لیا جا تا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہر ایسے ہر لوا ز م سے سجا تھا جو لو گوں میں اسے مقبو ل و پسندیدہ بنا تے تھے ،وہ بچپن میں اِک نہا یت حسین و ذہین بچہ تھا جس پر بے وجہ پیا رآجا ئے اورجب جوا نی میں قدم رکھا تو وہ ایسا خو برو و حسین نو جوا ن تھا جِسے لڑکیاں مُڑ مُڑ کر دیکھتی ہیں اور دیکھ کر بہا نے بہا نے سے اپنے گِرے نقا ب اُٹھا دیتیں ہیں ۔ وہ چرب ز با ن تھا ،دا ستا ن گو تھا بلکہ با توں سے دِل مو ہ لینے وا لا ،دِ ل میں کھب جا نے والا ۔۔۔ وہی ز با ن جو گھر میں صرف گندگی و غلا ظت اُگلتی ، ما ں بہن ایک کرتی ۔ وہ ز با ن محفلِ یاراں میں بلکہ محفلِ مستورا ں میں کِس قدر شیریں بیاں ہوتی اور وہ لڑ کیاں ،بے وقوف ،احمق لڑ کیاں خوابوں کی دُنیا میں رہنے وا لی خوا بوں کے شہزا دے ڈھو نڈھنے وا لی ڈا ئجسٹ پڑھ پڑھ کر سمجھنے لگتی ہیں کہ خوا بوں کے شہزا دے سچ مچ بھی مِل جا تے ہیں یو نہی حا دثا تی طور پر،وہ یہ نہیں سمجھتی کہ شکا ری پھندوں سے لیس شکا ر کو تیا ر کھڑا ہے ۔۔لیکن کو ن جانے شکا ر کو ن ہو تا ہے ؟ اگر دونوں ہی شکا ری ہو ں تو پھر شکا ر کون ہو گا ؟ یقناً صرف و نا م نہا د اخلا قی قدریں ،انسا نیت اور سب سے آخر میں وہ مذ ہب کا جھنڈا جسے ہم ضرورت پڑنے پر سب سے آخر میں اُٹھا تے ہیں اور کِس شدت سے اُٹھا تے ہیں ۔۔
ار مغا ن حسین سمجھتا تھا کہ وہ اُن کو بے وقوف بنا لیتاہے ، اُس کی اَنا کا نا گ پھن پھیلا کر کُنڈلی ما رے بھیتر بیٹھ جا تا یہ سو چ کر کہ وہ ایسا ہے کہ کو ئی اس پر اس طرح سے فِدا ہو جا ئے کہ بے خودی میں انگلیاں کا ٹ بیٹھے ، جا نے وہ کیا جا دو چلا تا تھا کہ لڑ کیاں اُس کے آگے سب کچھ نچھا ور کرنے پر تیا ر ہو جا تیں ،ہاں ہوں گی اُن میں سے کچھ ایسی جنہوں نے سوچا ہو گا ’’ ہا ں ! پھا نس لو بچی ،عیش کرو گی تم ،مرغا اچھا تگڑا اور پھنسنے کوتیا ر ‘‘ مگر زیا دہ تر ایسی ہی تھیں کہ اُس کے پیچھے سب نچھا ور کر نے پر تیا ر ۔۔ خوا بوں کی وا دی میں اُس کا ہاتھ تھام کر بہت دور تک چلی جا تیں ۔ آپا حِنا اکثر حیرا ن ہو تیں کہ اُس کے پا س آخر وہ کو نسا منتر تھا کہ لڑکی با لکل اندھی ہو کر اُس کے پیچھے چل پڑتی کیا صِرف اس کی صورت دیکھ کر ؟ کیا اُس کی لچھے دا ر با تیں سُن کر ؟ آخر وہ کو نسا ہتھیار تھا اُ س کے پاس کہ ہر لڑ کی اس کے سا منے مو م کی ناک ثا بت ہو تی یا پھر وہ سب کو محبت کا دھو کا دیتا تھا اور یہی تو وہ سب سے آسا ن پھند ہ ہے جس میں ابنِ آدم عمو ماً اور بنتِ حوا خصوصاً بڑے آرا م سے آجا تی ہے اور ہر دو چا ر ہفتوں بعد اور بعض اوقا ت چند مہینوں کے لیے اور کبھی کبھا ر ایک دو سا ل کے لیے بھی کسی نئے نویلے عشق کا بھو ت سوا ر ہو تا ،بڑی شدت سے ہو تا اور اِن دنوں میں اُس کے تعلقا ت ماں بہن بھا ئیوں سے اچھے ہو جا تے اور وہ بڑے سنجیدہ گھمبیر لہجے میں کہتا :’’ قسم اللہ کی ! جو اس بار محسوس ہو رہا ہے کبھی نہیں ہُوا سچ میں یہ نہ ملی تو مر جا ؤں گا بس ____‘‘ وہ ہا تھ کے اشارے سے یوں گرد ن پر کرا س بنا تا ’’ سب کچھ ختم بس کود جا ؤں گا کہیں سے کچھ کھا لوں گا میں سچ کہہ رہا ہوں ‘‘۔
با قی دو نوں چھوٹے بہن بھا ئی تو سہم جا تے ،متا ثر بھی ہو جاتے گو کہ سا تھ تو آپا حِنا بھی دبتیں تھیں ہمیشہ اُس کا ،کہ بھائی کے لیے بھا بھی چُننا بہنوں کا پسندیدہ مشغلہ ہو تا ہے مگراسے سمجھتی تھیں، اَب بھی ذرا چمک کر بو لیں :’’ تو وہ شا ئستہ کی دفعہ کیا ہُوا تھا ؟‘‘ وہ ڈھیٹ بن کر بو لا :’’ لو ایویں وہ تو بس وہی مرتی تھی مجھ پر میں تو بس یو نہی ذرا ‘‘ ،’’ اچھا تو پھر ہُما کا کیا قصہ تھا ؟‘‘ وہ بو لیں ۔ وہ ڈھیٹوں کی طرح ہنسے جا تا ’’ اور وہ بشریٰ بھی تو ہُوا کرتی تھی ‘‘ آپا حِنا نے پھر وار کیا ،وہ تھوڑا سا سنجیدہ ہو گیا ۔ ’’ ہاں! اس سے مجھے وا قعی میں کچھ محبت ہو ہی گئی تھی مگر اس کا چکر تو جا نے کہاں کہاں چَل رہا تھا ‘‘ آپا حِنا جَل کر بو لیں : ’’ یہ کچھ محبت کیا ہوتی ہے ؟ یہ ہو تی ہے یا نہیں ہو تی‘‘ وہ غصے میں آگیا :’’ اچھا اچھا! زیا دہ فلا سفر نہ بنو اور مجھے نئے سبق نہ پڑ ھا ؤ نہ زیا دہ رعب جما ؤ ‘‘۔ مگر مقا بل بھی آپا حِنا تھیں، وہ بغیر متا ثر ہو ئے بولیں:’’ ہاں! تو پھر بشریٰ کے بعد فا ئزہ ، را حت اور گلناز اِن سب کی دفعہ بھی تمہیں کچھ ایسا ہی دعوا تھا تو اب میں کیسے تم پر اعتبا ر کر لوں ‘‘
اُس وقت بس نہیں چلتا تھا کہ وہ آپا حِنا کی گر دن دَبا دے ،وہ کم بخت شا ید دُنیا کی وا حد لڑ کی تھی جو اس سے متا ثر نہیں تھی بلکہ شا ید اصلیت سے آگا ہ تھی اور ہر معا ملے میں اُس کی ٹکر بلکہ شا ید اُس سے بڑھ کر تھی ،اُسی کی طرح حسین شہزا دیوں کی سی آن با ن وا لی ذہین فطین ،ماں با پ کی لا ڈلی ، اُن کی غمگسا ر بیٹی جس کو اما ں ابا بڑے فخر سے اپنا بیٹا کہتے تھے ، اُسے دِل میں بے تحا شہ نفرت و غصہ محسوس ہُوا جو صرف حِنا آپا کے لیے تھا ، اُس کے دِ ل نے بڑی گہرا ئی سے خوا ہش کی کہ کاش اس کی شا دی کسی ایسی جگہ ہو جہاں یہ تما م عمر سر نہ اُٹھا سکے ، اس کی شخصیت مسخ ہو کر کچلی جائے ، سا ری اکڑ دھری رہ جا ئے ، وہ جل کر سو چتا لیکن وہ یہ نہیں جا نتا تھا کہ کچھ وقت ، کچھ گھڑیا ں قبو لیت کی ہو تی ہیں ، جہاں قدرت با لکل آپ کے پہلو میں تیا ر کھڑی آپ کے خیا ل کو عملی جا مہ پہنا نے کے لیے بیتاب ہو تی ہے ، کچھ اس طرح اِس بھو نڈے اندا ز میں کہ آپ قدرت کے اس مذاق پر نہ ہنس پا تے ہیں اور نہ رو سکتے ہیں بس ششدر رہ جا تے ہیں ۔
اِنہی دنوں میں جب اُس کی آوا رگی و عا شقی اپنے عروج پر تھی ، وہ عیب دا ر پھل کی طرح سڑا ند دینے لگا تھا اور گھر وا لوں کے لیے نا قا بلِ برداشت ، با پ کے لیے اِک ناسو رکی ما نند دُکھتا پھوڑا تھا جس کو ہا تھ لگا تے اور پھوڑتے دو نوں طرح سے درد ہو تا ہے ۔
اس کا مشغلہ صرف شرا ب و شبا ب اور آوارہ دو ستوں کی صحبت تھااور اس کاباپ جو سیدھا سادہ شریف مزا ج دیہا تی آد می تھا ، اس کی اِن آوا رگیوں پر اندر ہی اندر گھلتا تھا مگر یہ خبر نہیں تھی کہ وہ سچ مُچ کھوکھلا پیڑ بن چکا تھا جو آن کی آن دھڑا م سے گِر جا ئے گا، وہ شجرِ سایہ دا ر جس نے مکینوں پر چھا ؤں کر رکھی تھی وہ گِرا تو پتہ چلا کہ دھو پ کیا ہو تی ہے اور رشتے نا طے جب کڑکتی دھو پ میں دیکھے جا تے ہیں تووہ کتنے مکروہ اور تا ریک نظر آتے ہیں جب گھنے چھتنا ر پیڑ کا سا یہ اس کے سر پر سے اُٹھا تو وقتی طور پر دھو پ کی شدت اور جلن سے اس کی آنکھیں سُرخ اور چُندھیا سی گئیں مگر جلد ہی وہ اپنی ڈگر پر وا پس آگیا بلکہ دِل میں خبیثا نہ را حت اور آزا دی کا احساس ہُوا۔ ۔وہ ڈنڈا جو اس پر بر سا کرتا تھا ، اَب با پ کے جا تے ہی جیسے مردہ ہو کر صحن میں بھیگتی با رشوں اور کڑکتی دھو پوں میں بے جان پڑا تھا، اِ س ڈنڈے کو دیکھ کر اُسے عجیب سی را حت ہو تی ،اس کی بے بسی پر وہ دل ہی دِل میں مسکرا تا اپنے مشا غل میں مصروف تھا ۔۔
اصل معنوں میں چھت تو اُس پر تب گر ی جب اُسے پتہ چلا کہ اُن کی تمام جائیداد بمعہ مکا ن و دکان چچا کے قبضہ میں چلی گئی ہے اور چچا آگے بھی اُن کے تما م خر چے بخوشی اُٹھا نے کے لئے تیا ر ہے۔ اگر وہ ______اور یہ اگر اتنا بھا ری بھرکم تھا کہ اِسکے بو جھ سے وہ اپنی ماں بہنوں سمیت جیسے پِسا جا تا تھا ۔ چا چاتما م رستے اپنی طرف موڑ کر تما م تا لے لگاکر کنجیاں اپنے تہ بند میں اُڑسے مکروہ مسکراہٹ سجا ئے اپنی مر ضی کی شطرنج بچھا ئیبیٹھا تھا جس میں اُن سب کو، ارمغا ن حسین کو یقینی شہ ما ت تھی اور وہ اپنی اس مکروہ مسکرا ہٹ کو عاجزی و مسکینی کا لبا دہ اوڑھائے بڑے ڈھیلے سے لہجے میں اُس کی ماں کو کہہ رہا تھا : ’’دیکھ نا بھا بھی یہ سب کچھ انہی بچوں کا ہے ، انہی کے لیے ہے ہما را کیا پتہ ،بھا یا کی طرح آج ہیں، کل نہیں تو میں نے سو چا ،کچھ ایسا بندو بست کر دیا جا ئے سب کچھ انہی کو مِل جا ئے تو میری زینت تیری دھی بن جا ئے اور حِنا اور صبا کو میں اپنی بیٹیا ں بنا کر لے جا ؤں ، تیرا بھا ر بھی ہو لا ہو جا ئے اور بچیاں گھر میں ہی ڈھکی رہ جا ئیں گی اور سب کچھ اِن بچوں کو ہی مِل جا ئے گا ‘‘ ۔
یہ پیشکش وہ چھچھوندر تھی جسے نگلنا اور اُگلنا دو نوں ہی مشکل تر تھا مگر ار مغا ن حسین اورُ اس کی ماں دو نوں جا نتے تھے کہ انکا ر کی کو ئی گنجا ئش بھی اُن کے پاس نہیں تھی ،سوا ئے اس کے کہ وہ ہر شے سے
دستبرا دا ر ہو کر ننگے سر جوا ن بچیوں کے سا تھ راہ میں آبیٹھے ۔
ارمغان حسین کی آنکھوں میں کرب کی شدت سے آنسو آگئے ،اُس کی دُعا نہیں بد دُعا قبو ل ہو ئی بھی تو کیسے؟ وہ آندھی طوفا ن کی طرح سب کو بہا لے گئی۔۔ آپا حنا اور صبا دو نوں جنت کی حوریں اور کہاں
چا چے کے نکھٹو آوارہ اور تھوڑے جھلے سے بیٹے ۔۔ چو با رے کی اینٹ سچ مُچ نا لی میں لگنے جا رہی تھی اور ارمغا ن حسین۔۔ اُس کے حصے میں کیاآیا، زینت جس میں نا م کی بھی کو ئی زیب و زینت نہ تھی ،کم رو،کم صورت ،سا نو لی او بھدے جسم کی ما لک، ایسا جسم جس میں کسی مرد کے لیے کو ئی کشش نہ ہو، اس کے ا معاشقے جن لڑ کیوں سے چلے ،سب ایک سے ایک طرح دا ر تھیں اور اُن سب کے سا منے یہ زینت ! اسے لگا ،اس بے ڈھبی ،بے ڈھنگی ،کم صو رت سی زینت کو وہ نگل نہ سکے گا ،اُگل دے گا اور سچ مچ یہی تھا کہ اُسے اس کے سا تھ کے تصورسے ہی متلی ہو نے لگی ،اُسے کرا ہت سی محسوس ہو ئی کہ وہ کیسے اسکو چھوئے گا ،یوں جیسے مُردار کھا نا پَڑ جائے۔ ۔۔اُس کے دِ ل نے اُسے بغا وت کی را ہ دکھا ئی ، اس نے سرکش ہو کر سو چا :’’ بھا ڑمیں جا ئیں یہ سب ،میں ان کی خا طر یہ مُردار کیوں کھا ؤں ، میں بھا گ جا ؤں گا چلا جا ؤں گا ، پھر جو مر ضی کر تے رہیں ،مجھے مرغا سمجھ کر پھا نسنا چا ہتاہے چا چا سُوّ ر کہیں کا _‘‘
اُس نے دِل ہی دِل میں اُسے مو ٹی موٹی گا لیاں بکیں ،منہ زور بغا وت کی سڑ ک پر گھوڑا بگٹٹ دوڑا نے لگا مگر اس گھو ڑنے کی لگا میں اگلی سو چ نے اس بُری طرح سے کھینچیں کہ گھوڑا الف ہو کر پچھلی
ٹا نگوں پر تن گیا ۔
’’یہاں سے جا کر بھلا میں کیا کروں گا ؟ کہاں رہوں گا ،زندگی کی گا ڑی کیسے کھینچوں گا ؟ نہ میرے ہا تھ کو ئی ہنر ، وا جبی سی تعلیم ، نہ رہنے کو چھت جیسے تیسے کر کے محنت مزدوری کر کے، جس کی مجھے نہ عا دت نہ میرا مزا ج ۔۔ کیا میں کر پا ؤں گا ؟ نہیں با لکل نہیں اور کر بھی پا ؤں تو کب اور کیسے ؟
زند گی کی گا ڑی سیدھی کر کے شا دی اور گھر بسا نے کے قابل ہو پاؤں گا ؟؟!میں ارمغا ن حسین جو چو بیس بر س کا ہو چکا ، اگلے دس سا ل تک شاید شا دی کے قابل ہو سکوں تو کیا میں اتنا صبر کر سکوں گا ؟ ؟؟اَب تک تو میرے عیش ابا کے دم سے پو رے ہو رہے تھے ۔۔ لڑ کیاں سا لیاں خر چ نہ کرو ان پر تو یہاں قا بو میں کب آتی ہیں ؟ ؟؟!!یہ شرا ب شبا ب سب اِس لیے تھاکہ سب کچھ دیکھنے کے لیے وہ میرا ابا تھا ‘‘
اُسے بے طرح اپنا با پ یا د آیا ،آج پہلی مر تبہ بہت دِل سے اُس نے اپنے با پ کی کمی کو محسوس کیا اور اُس کڑکتی دھو پ کا احساس اُسے ہُوا جو اُس کے سر پر آن پڑ ی تھی ،اُس نے محسوس کیا کہ وہ وا قعی میں یتیم ہو گیا ہے اور اُسے لگا کہ وہ زندگی کی سب سے بڑی بازی ہا ر گیا ہے اور یہ مردار اُسے کھا نا ہی پڑے گا ۔ ۔اُس نے اپنے دِل کی میلی آلو دہ اور کمینی سوچ کے سا تھ سو چا کہ ہاں ضرورت پڑ نے پر مُرادر جا ئز ہو جا تا ہے اور میں بھی اس وقت ضرورت مند ہوں ۔۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب اُ س کا ضمیر گہری نیند سو رہا تھا ، وہ رشتوں کی حرمت و تقدیس سے نا بلد، منہ زور
خوا ہشوں کا شہ سوا ر تھا ۔ بنیا دی طور پر وہ ایک سطحی سی سو چ ،اپنی ذا ت میں مقید ایک خو د غرض انسا ن تھا مگر اس کی ان تما م اندرو نی کمزوریوں پر اس کی وجیہہ و خوبصورت شخصیت کا پردہ تنا تھا اور وہ ایسا تھا کہ اُس سے لو گ خوا ہ مخوا ہ اور خصوصاً صنفِ نا زک متا ثر ہو تی تھیں اور اِ س بات کا اُسے بخو بی احساس بھی تھا ۔۔ اس نے ایک با ر سوچا کہ اُس کی بد دُعا کیسے قبو ل ہو گئی ، وہ آپا حِنا سے جلتا تھا ،حسد کرتا تھا ، اُسے تڑپتا دیکھنے کی خوا ہش میں زندگی کی سب سے بڑی با زی ہا ر گیا تھا ،یہ جا نے کِس وقت کا غرور تھا جو اس کے آگ�آآگیا تھا ، ایک ددفعہ آپا حِنا نے اسے مذا ق سے کہا تھا کہ زینت تجھے کیسی لگتی ہے ؟ وہ بڑا تیرا پو چھتی ہے آخر کسی لڑ کی کو چھوڑے گا بھی تو کہ نہیں ‘‘تو اس نے بڑی نخوت سے کہا تھا : ’’ہوہنہ میرے لیے کیا وہی رہ گئی ہے وہ تو تمہا ری بھی آپا لگتی ہے ۔۔حِنا آپا ویسے تم ہو عمر چور ، زینت تم سے کتنی بڑی لگتی ہے اور رہی با ت اس کے پو چھنے کی تو تمہا رے بھا ئی کے پیچھے تو جانے کو ن کو ن پھر تی ہے ؟ ‘‘
اب وہی زینت اُس کی سیج سجا نے آرہی تھی ۔۔ جب مقدر میں وہی لکھ دی گئی تھی تو اس نے کو شش کی کہ مقدر کے اس لکھے کو قبو ل کر نے کی کوشش کرے اور اپنی آزردگی اور دِل کے ملا ل کو کہیں ظا ہر نہ ہ
و نے دے ۔ اُس نے زینت کو کا فی سنوا رنے کی کو شش کی کہ وہ اس کے برا بر میں کھڑی سجے، مگر یہ سب بے سود ہی ہو تا ۔۔ کہنے وا لے کہہ دیتے کہ جوڑ تو کو ئی نہیں، پھر زینت تھی بھی کچھ گر م دماغ کی ،بیا ہ کر آئی تو اسے مکمل حکمرا نی مل گئی ، نندیں اس کی بھابھیاں بن کر چلی گئیں ،بو ڑھی سا س معزو ل حکمرا ں جیسی تھی اور شو ہر ۔۔ار مغا ن حسین اپنی سی کو ششوں میں مصروف کہ اُسے خو د اپنے قا بل بنا سکے حالانکہ وہ کو ئی اس سے محبت نہیں کرتا تھا ، مگر اس کی انا، ایک مرد کی انا یہ اجا زت نہیں دیتی تھی کہ کو ئی اس کی بیو ی کی طرف انگلی اُٹھائے اور خاص طور پر آپا حِنا کو یہ جرأت ہو کہ وہ اُس کا مذا ق اُڑا ئے، اسی لیے اس نے اپنے بھر م کو قا ئم رکھا مگر وہ نک چڑھی سی ، پگلی سی زینت، اسے ار مغا ن حسین کی محبت سمجھ بیٹھی ۔۔اِس محبت نے اُسے جیسے مزید نخرہ اور غرور عطا کیا اور یہ پُر غرور اور پُر شکن رو یہ اس کی شخصیت کو مزید شکنیں عطا کرگیا ۔
بچارا ار مغا ن حسین جو بڑا عیا ش تھا ، شو قین مزا ج تھا ، حُسن پر ست تھا ، حُسن پسندتھا ، اپنی ذا ت کے دا ئرے میں مقید ۔۔ یہ بڑا ہو لنا ک تجر بہ تھا جو اس کی ذا ت پر گزرا کہ اُسے ایک ایسی بیو ی سے نبا ہ
کر نا پڑا جو نہ اُس کی پسند تھی اور نہ اُس کے معیا ر کی اور حا لا ت کی مجبو ری کہ وہ دِل کی کھو لن کبھی اس کے سا منے نہ نکا ل سکا کہ اُس کی ذا ت پر کیا بیتی ۔۔ وہ لڑتے جھگڑتے بھی، خو فنا ک قسم کے جھگڑے بھی ہوا جاتے مگر ہا ر ہمیشہ ار مغا ن حسین کی ہوتی۔۔۔
زینت اس کی مجبو ری بن چکی تھی۔۔۔ کیا مُردار کھا نا بھی مجبو ری بن جا تا ہے ؟! ہاں! جب اُس کاچسکا
زبا ن کو لگ جا ئے تو ۔۔شا ید وہ جا نتا تھا کہ اُسے ہر حا ل میں زینت سے نبا ہ کر نا ہے تاکہ اس کی بہنیں اپنے شو ہروں کے گھروں میں رہ سکیں ۔۔وہ بمعہ بچوں اُن دو نوں بہنوں کو نہیں پا ل سکتا تھا ، اُسے نبا ہ کرنا تھا کیو نکہ وہ دو بچوں کا با پ بن چکا تھا اور اپنے بچے ہر چوپائے کی طرح اُسے بڑے عزیز تھے،اُسے نبا ہ
کر نا تھا کیو نکہ اب اُسے یہی عورت میسر تھی۔
جب مجبو ری اس حد تک گلے کو آجا ئے کہ سا نس بند ہو نے لگے، زند گی اُن تنگ گزر گا ہوں سے گزرنے لگے کہ جہاں ہَوا کا جھو نکا بھی میسر نہ ہواور گھٹن اس قدر شدید ہو کہ کو ئی رو زن ما نگے اور دِل اتنا بے بس ہو کہ یہ حبس ، یہ گھٹن ، اس کا اظہا ر بھی نہ کر پا ئے تو کہیں مَن میں اندر ہی سرنگ لگ جا تی ہے اور یہی ار مغان حسین کے سا تھ ہُوا ۔۔کہیں اندر من میں سرنگ لگنی شروع ہو گئی ۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ وہ پہلے جن غلا ظتوں میں لتھڑا تھا ،اُن کا احساس اور شر مند گی نہ تھی اور اَ ب اپنے اُوپر لگی غلا ظت اُسے نظر آنے لگی تھی ۔
جب آپ کو اپنا آپ غلیظ نظر آنے لگے تو لا محا لہ صفا ئی کا عمل بھی شروع ہو جا تا ہے اور ارمغا ن حسین کو بھی اپنی صفا ئی کرنے کا احساس ہو گیا تھا ۔۔۔ اپنے من کی صفا ئی کا اور یہ احساس اُسے مذہب کے قریب لے گیا ،گو بہت تو نہیں مگر ایسے ہی جیسے گا ڑھے گھنے جنگل میں کہیں کہیں چھدری رو شنی کی کرنیں نیچے اُتر آتی ہیں ۔
جب وہ مذ ہب کی طرف ما ئل ہُوا تو پہلے پہل اُس کو سخت تنقید اور تمسخر کا نشا نہ بننا پڑا ، بہن بھا ئیوں ، عزیز رشتے دا روں نے وہی پھبتی کَسی ’’ نو سو چو ہے کھا کے بلی حج کو چلی ‘‘ یہ من کی صفا ئی کا عمل اُسے بڑا سا نس پھلا دینے وا لا محسوس ہُوا ۔۔وہ ہا نپ ہا نپ جا تا اور کبھی گئیر پیچھے کو بھی لگ جا تا ۔۔ خوا ہشوں کی لپٹیں اُسے اپنی جا نب کھینچتیں اور کبھی وہ اُن کی جانب کھچ جاتا ۔ کبھی دا من چھڑا لینے میں کا میا ب ہو جا تا ۔
لیکن اِ س صفا ئی اور مذہب پر ستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ زینت اُسے کم بُری لگنے لگی یا شاید اب وہ اس کاا عادی ہو رہا تھا ۔۔۔ مذ ہب نے اس کے اندر جنت اور جنت کی حوروں کی خواہش جگادی ۔۔۔ اس نے دِل میں چُپکے سے سو چا کہ زینت جیسی بیو ی سے نبا ہ کر نا بھی تو اِک نیکی ہے ۔ شا ید یہی نیکی اُس رَب کو پسندآجا ئے تو ز مین پر ہی کو ئی حور اس کا مقدر____‘

مگر اِ س سو چ کے آتے ہی اس نے اپنی ذا ت کے کواڑ سختی سے بند کر لیے ،اس خوا ہش کو کہیں اتنا گہرا دبا دیا کہ کہیں کو ئی اس کی جھلک نہ پا جا ئے ،مگر یہ خوا ہش کہیں بہت اندر دبی اِک مہمیز کا کا م کر تی رہی اور ارمغا ن حسین کو جیسے من کی صفا ئی کا اور مذ ہب پر ستی کا خبط سا ہو گیا ، اس نے تبلیغی جما عتوں کے سا تھ جا نا شروع کر دیا ۔۔۔ دا ڑھی رکھ لی اور پھر شلوار ٹخنوں سے اونچی ہو گئی ۔۔ اس کے مزا ج میں سختی اور کٹڑ پن آنے لگا ۔۔ کل کا ارمغا ن حسین اب ’’ مو لوی صا حب یا مولا نا صا حب ‘‘کہہ کر پکا را جا نے لگاخواہشوں ، ما حول سے فرار! !!!
اُس کی عبا دتوں ، ریا ضتوں اور کو ششوں نے لوگوں کے ذہنوں سے پچھلی تصویر محو کردی حتیٰ کہ اب تواس کے دو نوں بہنوئی ، بہنیں اور حتیٰ کہ چچا بھی اس سے دبنے لگے۔۔اُن کی آنکھوں میں اِک احترا م ساجاگ اُٹھتا اور زینت گو کہ اس کی ز با ن تو وہی رہی مگر اس کو بھی اُس پر اعتقا د سا ہو نے لگا تھا ۔جو نہی کو ئی بچہ بیما ر پڑتاوہ فوراً آگے کر دیتی ’‘ارمغان ذرا دم کر نا اسے‘‘ ۔
وہ بدل گیا تھا ،با لکل بد ل گیا تھا اتنا بد ل گیا تھا کہ اپنا ما ضی بھی شا ید بھو لنے لگا تھا ۔ ۔اپنی عبا دتوں پر اِک غرور سا شا مل ہو نے لگا تھا مزاج میں اور اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اُس کے من کی صفا ئی مکمل ہو چکی ۔ اَب تو لوگ اُسے گنا ہوں اور غلا ظتوں کی دلدل میں لتھڑے اور پھنسے نظر آتے اور وہ انہیں دیکھ کر
حقا رت سے کہتا :’’ تو بہ تو بہ استغفراللہ ‘‘ ۔
وہ سفر جو اندر دبی خوا ہشوں اور گھٹن سے شروع ہُوا تھا ، اَب ملنے وا لی عزت و اکرام سے پُر لطف اور پُر لذت ہو گیا تھا ، عبا دتوں میں سرور آنے لگا تھا اور وہ واقعی خود کو اللہ کا مقرب سمجھنے لگا تھا ۔۔۔ بھلا اس سے بڑھ کر سند کیا ہو گی من کی صفا ئی کی کہ عبادت میں لذت حاصل ہو جا ئے۔‘‘
وہ خود سے مخا طب ہو تا گو یا ما ضی کو دفنا بیٹھا تھا کہ آج جا نے کیا ہُوا ۔۔
اُس کے بچے جو اَ ب اُس کے مزا ج اور رجحا نا ت کی وجہ سے کم ہی اس کے قریب آتے تھے، آج اچا نک اس کے بیٹے نے بڑے ذو معنی اور ڈرا ما ئی اندا ز میں اسے لطیفہ سُنا یا اور جب طو طے نے کہا : ’’ہا ں! تو
سا ری عبا دت اسی لئے تو تھی ‘‘ ۔وہ ہنسنے لگا اور ہنستے ہنستے آنسو گر نے لگے ۔۔۔ْ اُسے لگا کہ اُس کے بیٹے نے اُس کے اندر سُرنگ لگا کر اس کی خوا ہش کو پڑ ھ لیا ہے ۔ اُسے لگا کہ عمر بھر کی عبا دتیں اور رریا ضتیں
را ئیگاں گئیں اور را ئیگاں جا نے کا احساس بڑا شدید تھا ۔
آج اُسے صحیح معنوں میں اپنے من کی غلا ظتیں نظرآئیں ۔ ۔۔یہ را ئیگاں جا نے کا احساس تھا یا پھر ا عبادتوں کی قبو لیت کا لمحہ کہ اُسے سچ مُچ اندر غلا ظت اور غلیظ و کثیف خوا ہشیں نظرآنے لگیں کہ وہ بیسا ختہ گھبرا کر کہہ اُٹھا : ’’ استغفر اللہ ‘‘۔(ملت ٹائمز)
(افسانہ نگار معروف ادیبہ ہیں ،پاکستان کے شہر فیصل آباد سے وطنی تعلق ہے )

SHARE