کون ہیں شمس تبریز قاسمی ؟

شمس تبریز قاسمی ہندوستان کے نوجوان صحافی ، تجزیہ نگار ، اسلامی اسکالر اور ملت ٹائمز کے بانی و چیف ایڈیٹر ہیں ۔ اس کے علاوہ بھارت میں صحافیوں کی سب سے قدیم تنظیم پریس کلب آف انڈیا کے بھی وہ مستقل ممبر اور ڈائریکٹر ہیں ۔ سیاسی ، سماجی اور ملی ایشوز پر تقریباً ایک ہزار سے زائد مضامین لکھ چکے ہیں ۔ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر خبر در خبر کا پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ ہندوستان کی نئی نسل کے صحافیوں میں ان کا ایک نمایاں نام ہے اور بیباک صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

 ابتدائی حالات 

شمس تبریز قاسمی کی ولادت بہار کے سیتامڑھی ضلع میں واقع رائپور گاؤں میں ہوئی ۔ یہیں ان کا گھر ہے جہاں پوری فیملی رہتی ہے ۔ 20دسمبر 1993ان کی تاریخ پیدائش ہے ۔ والد محمد ذاکر حسین کاشتکار اور علاقائی سماجی لیڈر ہیں ۔ رائپور پنچایت میں لگاتار تین مرتبہ ممبر منتخب ہوچکے ہیں ۔ والدہ محترمہ صالحہ خاتون کا شمس تبریز قاسمی کی تعلیم میں خصوصی کردار ہے ۔

تعلیم 

شمس تبریز قاسمی نے ابتدئی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب سے حاصل کرنے کے بعد علاقے کے ایک مدرسہ تعلیم الدین بِرابر میں اپنے استاذ قاری عبد المالک رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں صرف گیارہ ماہ میں حفظ قرآن مکمل کیا ، جب ان کی عمر دس سال کی تھی۔ اس کے بعد 2002 سے 2009 تک وہ بہار کی مشہور درس گاہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں میں زیر تعلیم رہے ، جہاں انہوں نے حفظ دور کرنے کے بعد درجہ اعدادیہ سے عر پنجم تک کی تعلیم حاصل کی ۔ 2009 میں وہ ایشاء کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند آگئے جہاں سے 2012 میں انہوں نے فضیلت مکمل کیا ۔ 2013 – 2014 میں دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ انگریزی زبان و ادب کے دوسالہ ڈپلومہ کورس میں انہوں نے داخلہ لیکر انگریزی کی تعلیم حاصل کی ۔ 2014 میں دیوبند کے ایک انسٹی ٹیوٹ دارالعلوم الحنفیہ سے افتاء کیا۔ اس کے بعد دہلی آگئے ۔ یہاں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیکر عربی میں گریجویشن اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی حیدر آباد کے فاصلاتی کورس سے بھی انہوں نے ایم اے اردو کیا ہے ۔ تعلیمی سلسلہ ابھی جاری ہے ۔جرنلزم ، ٹرانسلیشن سمیت متعدد موضوعات پر دسیوں ورکشاپ میں شرکت کرچکے ہیں ۔

کیریئر کا آغاز

شمس تبریز قاسمی کو شروع سے پڑھنے لکھنے کا شوق رہا ہے ۔ مدرسہ میں طالب علمی کے زمانے میں وہ دیواری پرچہ کے ایڈیٹر کے طور پر فرائض انجام دیتے تھے ۔دارالعلوم کے طالب علمی کے زمانہ میں ہفت روزہ عالمی سہار ا ، روزنامہ عزیز الہند کیلئے موقع بہ موقع وہ مضامین لکھتے تھے ۔ 2015 کے اخیر میں دہلی آنے کے بعد انہوں نے معروف نیوز ایجنسی آئی این ایس انڈیا میں بطور ایڈیٹر کام کرنا شروع کیا ۔ دسمبر 2015 میں ہی انہیں دہلی سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ خبریں نے ہفت روزہ کالم لکھنے کی پیشکش کی جہاں مشرق وسطی اور عالم اسلام کے حالات پر پس آئینہ کے عنوان سے ہر جمعرات کو پابندی سے سال 2019 تک شائع ہوتا رہا ہے ۔ معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی سے بھی شمس تبریز قاسمی وابستہ ہیں جہاں وہ میڈیا کوآرڈینٹر کے طور پر فرائض انجام دیتے ہیں ۔ 

ملت ٹائمز کا قیام 

شمس تبریز قاسمی نے آئی این ایس انڈیا میں کام کرنے کے دوران جنوری 2016 میں ملت ٹائمز کے نام سے آن لائن اخبار کا آغاز کیا ۔ ممبئی کی سرزمین پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کے ہاتھوں اس کا افتتاح عمل میں آیا ۔ یہ ہندوستان کی معروف اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اردو ویب سائٹ ہے ۔ اس کے علاوہ ملت ٹائمز کا انگریزی اور ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوتا ہے ۔ اس کا یوٹیوب چینل بھی ہے جہاں وہ ایشوز اٹھائے جاتے ہیں جسے مین اسٹریم میڈیا کے ذریعہ نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ ملت ٹائمز ” ملت نیوز نیٹ ورک پرائیوٹ لمٹیڈ “ کے ماتحت ہے جو ایک رجسٹر ڈ کمپنی ہے اور اس کے منیجنگ ڈائریکٹر شمس تبریز قاسمی ہیں ۔

ملت ٹائمز کے یومیہ قارئین تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ یوٹیوب پر 8 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں ۔ فیس بک پر 5 لاکھ سے زیادہ فلووز ہیں ۔ وہاٹس ایپ پر تقریباً 2000افراد ملت ٹائمز کے ممبر ہیں ۔ اس کے علاوہ ٹوئٹر ، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا سائٹ پر بھی ملت ٹائمز موجود ہے ۔ پلے اسٹور پر ملت ٹائمز کا ایپ بھی دستیاب ہے ۔ ملت ٹائمز کی کچھ خبریں ایسی ہیں جسے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے پڑھا ہے ۔ ایک خبر کو بیس لاکھ مرتبہ پڑھا جا چکا ہے ۔ ویڈیوز کے ناظرین لاکھوں میں ہوتے ہیں ۔ مجموعی طور پر ملت ٹائمز کے ماہانہ قارئین اور ناظرین کی تعداد 42 ملین سے زیادہ ہوتی ہے اور گذشتہ پانچ سالوں کے دوران ملت ٹائمز نے تقریباً 100 سے زیادہ ایسی خبریں شائع کی ہے جو حکومت ، سماج اور انتظامیہ پر اثر انداز ہوئی ہیں اور ان خبروں کو قارئین و ناظرین کے درمیان بیحد مقبولیت ملی ہے ۔

مضامین و مقالات اور کتابیں 

ہندوستان ، پاکستان ، جرمنی ، امریکہ ، برطانیہ اور ترکی سمیت دنیا کے تقریباً دس ممالک سے شائع ہونے والے اردو اخبارات اور ویب پورٹل میں شمس تبریز قاسمی کا کالم پس آئینہ شائع ہوتا ہے ۔ وہ روزانہ ’ خبر در خبر ‘ کے نام سے بھی ملت ٹائمز میں ایک تجزیاتی کالم لکھتے ہیں جس کی تقریباً 700 قسطیں پوری ہوچکی ہیں ۔ ’ خبر در خبر ‘ کا پروگرام یوٹیوب پر بھی وہ پیش کرتے ہیں جس میں اہم خبروں کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ ملت ٹائمز کا مقبول ترین پروگرام مانا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ملت ٹائمز کے اسپیشل پروگرام خاص ملاقات کے بھی وہ میزبان ہیں جس میں متعدد اہم شخصیات سے ان کی زندگی ، خدمات اور نظریات کے حوالے سے انٹرویو کرچکے ہیں ۔ اب تک تقریباً ان کے ایک ہزار سے زائد مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔ مالدیپ اور متحدہ عرب امارات کے سفرنامہ سمیت تقریباً دس کتابیں زیر طبع ہیں۔ علاوہ ازیں پانچ سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کے علاوہ مشرق وسطی اور عالم اسلام کے حالات سے انہیں خصوصی لگاؤ ہے ۔

مؤثر اسٹوریز 

 شمس تبریز قاسمی کی کئی رپوٹ بہت مقبول اور مؤثر ہوئی ہے ۔ دہلی فساد میں شمس تبریز قاسمی نے براہِ راست گراؤنڈ پر جاکر رپوٹ کیا تھا اور وہ تمام سچ دکھایا تھا جسے مین اسٹریم میڈیا نے چھپانے کی کوشش کی تھی ۔ تین طلاق کے معاملہ پر بھی شمس تبریز قاسمی کی رپورٹ سرخیوں میں رہی جس میں انہوں نے عشرت جہاں کا اسٹنگ آپریشن کرکے یہ سچ بتایا تھا کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق ہی نہیں دی تھی جبکہ سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے دعوی کیا گیا تھا کہ شوہر نے دبئی سے فون پر تین طلاق دے دیا ہے اور یہی میڈیا میں موضو ع بحث تھا ۔ اکتوبر 2020 میں بہار کے ویشالی میں ایک مسلمان لڑکی گلناز خاتون کو یادو سماج کے لوگوں نے زندہ جلا دیا تھا اور میڈیا نے اسے نظر انداز کردیا تھا ، شمس تبریز قاسمی نے ویشالی جاکر تفصیلی رپوٹ کی جس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی ۔ سال 2018 میں سیتامڑھی میں ایک 83 سالہ بزرگ زین الانصاری کو زندہ جلا دیا گیا تھا ، علاقائی میڈیا اور انتظامیہ اس معاملہ پر پرد ہ ڈال دیا تھا ۔ شمس تبریز قاسمی کی رپورٹ آنے کے بعد انتظامیہ ماب لنچنگ اور زندہ جلائے جانے کے معاملہ کا اعتراف کیا جس کے بعد یہ معاملہ سرخیوں میں آیا اور مین اسٹریم میڈیا نے بھی اس پر توجہ مبذول کی ۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروٹیسٹ اور شاہین باغ تحریک کو عام کرنے اور میڈیا کی توجہ مبذول کرانے میں بھی شمس تبریز قاسمی نے خصوصی کردار نبھایا ۔ ملت ٹائمز پر انہوں نے مسلسل رپوٹنگ کی جب کے بعد شاہین باغ پروٹیسٹ کا معاملہ سرخیوں میں آیا ۔

اہم انٹرویوز 

شمس تبریز قاسمی ملک و بیرون ملک کی متعدد اہم سیاسی ، سماجی اور ملی شخصیات کا انٹرویو کرچکے ہیں جن میں آنجہانی شیلا دیکشت سابق وزیر اعلی دہلی ۔ آنجہانی کلدیپ نیر صحافی اور مصنف ۔ جیتن رام مانجھی سابق وزیر اعلی بہار ۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی رکن لوک سبھا حیدر آباد ، صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ۔ مولانا بدر الدین اجمل قاسمی رکن لوک سبھاآسام ، صدر آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ۔ مشہور صحافی روش کمار منیجنگ ایڈیٹر و اینکر این ڈی ٹی وی ۔ سینئر صحافی عزیز برنی سابق گروپ ایڈیٹر روز نامہ راشٹریہ سہارا ۔ مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند ۔ مولانا محمد ولی رحمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ۔ مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیت علماء ہند ۔ ڈاکٹر محمد منظور عالم جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل ۔ جنرل ضمیر الدین سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ۔ سینئر صحافی آنند کے سہائے صدر پریس کلب آف انڈیا ۔ سلمان خورشید سابق مرکزی وزیر خارجہ حکومت ہند ۔ جسٹس اقبال انصاری سابق چیف جسٹس پٹنہ ہائی کورٹ ۔ طارق انور سابق مرکزی وزیر حکومت ہند وغیرہ کے نام اہم اور قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ دسیوں ممبران پارلیمنٹ ، وزراء ، افسران ، سماجی ، ملی قائدین صحافی ، ایکٹویسٹ اور دیگر طبقہ کی شخصیات کا انٹرویو کرچکے ہیں ۔

پریس کلب آف انڈیا میں ڈائریکٹر 

پریس کلب آف انڈیا ہندوستان میں صحافیوں کی سب سے قدیم اور مؤثر تنظیم ہے ، جس کا قیام 1957 میں عمل میں آیا تھا ۔ میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کیلئے یہ تنظیم ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے ۔ پارلیمنٹ کے سامنے رائے سینا روڈ پر اس کی آفس ہے ۔ اس تنظیم میں اردو صحافیوں اور مسلمانوں کی نمائندگی طویل عرصہ تک صفر رہی ۔ پہلی مرتبہ اردو کے سینئر صحافی جناب اے یو آصف 2017 اور 2018 میں لگاتار ایگزیکیٹو کمیٹی کے ممبر اور ڈائریکٹر منتخب ہوئے ۔ ان کے بعد شمس تبریز قاسمی کو اردو صحافیوں کے نمائندہ کے طور پر ایگزیکیٹو کمیٹی کے ممبر اور ڈائریکٹر کیلئے الیکشن میں امیدوار بنایا گیا۔ وہ دسمبر 2019 کے چناؤ میں ایگزیکیٹو کمیٹی کے ممبر اور ڈائریکٹر کا چناؤ جیتنے میں کامیاب ہوگئے اور اس طرح ایک مدرسہ کے فاضل ہوکر وہ پریس کلب آف انڈیا کے نہ صرف ممبر بننے تک محدود رہے بلکہ اس کی انتظامیہ کا حصہ بن گئے اور اب وہ اس کے ڈائریکٹر ہیں ۔ مین اسٹریم میڈیا کے صحافیوں میں شامل ہوچکے ہیں اور سینئر صحافیوں کی جانب سے ہمیشہ ان کے کاموں کی تائید بھی ہوتی ہے ۔  

اسفار اور کانفرنس میں شرکت 

شمس تبریز قاسمی جون 2016 میں مالدیپ کی مذہی وزارات کی دعوت پر وہاں کا دورہ کرچکے ہیں ، جہاں انہوں نے متعدد اسکولوں کا معائنہ کیا ۔ نصاب تعلیم پر بات چیت کی اور اسلامی افکار اور بچوں کی تربیت پر لیکچر پیش کیا ۔ اس کے علاوہ رمضان میں وہاں انہوں نے نماز تراویح کی بھی امامت کی ۔ جولائی 2016 میں شمس تبریز قاسمی متحدہ عرب امارات ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض جاچکے ہیں ۔ ہندوستان کی تقریباً بیشتر ریاستوں اور شہروں میں ان کا سفر ہوچکا ہے ۔ صحافت ، اسلامی شخصیات اور ملی ایشوز پر ہونے والے سمینار اور ورکشاپ میں بطور مقالہ نگار اور اسپیکر کے انہیں خصوصیت کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے ۔ اب تک تقریباً پچاس سے زیادہ سیمنار ، ویبینار اور کانفرنس میں بطور مقالہ نگار اور اسپیکرز شرکت کرچکے ہیں ۔

اہم ایوارڈ 

شمس تبریز قاسمی کو ان کی صحافتی خدمات پر اب تک دسیوں ایوارڈ مل چکا ہے جن میں چند اہم ہیں ۔ 2 جنوری 2021 کو ملت ٹائمز کے پانچ سال مکمل ہونے پر معروف رہنما ڈاکٹر محمد سید فاروق صاحب ڈائریکٹر ہمالیہ ڈرگس نے ملت ٹائمزکی ٹیم کو ملک کی سرکردہ شخصیات کی موجودگی میں استقبالیہ دیا اور شمس تبریز قاسمی کو مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ سے سرفراز کیا ۔ سال 2019 میں معہد الشیخ نظام الدین نے انہیں جرنلسٹ آف دی ایئر کا ایوارڈ دیا ۔ سال 2018 میں نمایاں خدمات کی بنیاد پر ہماری دنیا ٹرسٹ کی جانب سے انہیں اندرا گاندھی انٹر نیشنل پرائڈ ایوارڈ سے نواز اگیا ۔30مئی 2019 کو انہیں مجلس تحفظ شریعت اسلامی ہند کی جانب سے شیخ الہند پیس ایوارڈ دیا گیا ۔ سال 2017 میں سابق جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کے ہاتھوں وہ اسٹار ٹوڈے نیوز کی جانب سے بھی ایوارڈ سے سرفراز کئے جاچکے ہیں ۔ 

سوشل میڈیا 

شمس تبریز قاسمی سوشل میڈیا پر بھی فعال ہیں ۔ فیس بک پر ان کے پرسنل پیج کے فلووز تقریباً 26 ہزار سے زیادہ ہیں اور وہاں ان کی پوسٹ کی ریچ لاکھوں میں ہوتی ہے ۔ ٹوئٹر پر بھی ان کے فلووز تقریباً 5 ہزار ہیں حالاں کہ وہ یہاں زیادہ متحرک نہیں رہتے ہیں ۔ یوٹیوب پر بھی شمس تبریز قاسمی کا پرسنل چینل ہے جس کے سبسکرائبرز تقریباً دو ہزار ہیں اور وہاں انہیں ویڈیوز کے ساتھ تصویر اور ٹیکس پوسٹ کرنے کی بھی یوٹیوب نے اجازت دے رکھی ہے ۔ انسٹاگرام پر بھی ان کے ہزاروں فلووز ہیں ۔ وہاٹس ایپ بھی تقریباً چار ہزار لوگ ان سے جڑے ہوئے ہیں ۔ شمس تبریز قاسی حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر زیادہ فعال نہیں رہتے ہیں ۔ ان کی وجہ شاید ان کی بڑھی ہوئی مصروفیات ہیں ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں