کلیم الحفیظ ، دہلی
جنوبی بھارت کے سر سید اور بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خان ہمارے لیے مشعل راہ ہیں
انسان کو خالق کائنات نے زمین پر اپنا نمائندہ بنایا ہے ۔اس کو اشرف المخلوقات کا شرف عطا کیا ہے ۔اس کی خدمت کے لیے تمام کائنات کو مسخر کیا ہے ۔ اسے بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ بے شمار نعمتیں بخشی ہیں ۔لیکن اکثر انسان نہ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہیں اور نہ نعمتوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں لیکن جو کرتے ہیں وہ زمانے کے امام بن جاتے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ توفیق الہی سے ہی انسان کچھ کرنے کی توفیق پاتا ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ توفیق الہی اسی کو ملتی ہے جو خود کو اس کے لائق بناتا ہے۔دنیا کے ہر خطے میں اور ہر دور میں ایسے باہمت،مخلص،دوراندیش اور با کمال لوگ پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے دوسروں کے غم کو اپنا غم بنا لیا ۔جنھوں نے اپنی پوری زندگی،اپنی تمام تر صلاحیتیں اور اثاثے کسی عظیم مقصد اور مشن کے لیے قربان کردیے ۔ان میں ایک نام بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کا ہے ۔اللہ انھیں سلامت رکھے۔
ڈاکٹر ممتاز صاحب جنوبی ہندوستان کی ریاست تمل ناڈو کے شہر ترچرا پلی میں مرحوم اسماعیل خان ایڈوکیٹ اور بیگم سعادت النساء بی اے ایل ٹی کے گھر 6 ستمبر 1935 کو پیدا ہوئے ۔آپ کے والدین اے ایم یو سے تعلیم یافتہ تھے
آپ نے مدراس یونیورسٹی سے 1964 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی ۔عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد آپ کی شادی ہوگئی ۔آپ کا اپنا خاندان بھی اس وقت کے اہل علم اور مال دار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور آپ کی سسرال کا تعلق بھی بنگلور کی صاحب ثروت فیملی سے تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب ملک کی آزادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ۔فرقے وارانہ فسادات اور تقسیم ملک کے زخم بھی تازہ تازہ تھے ۔جدو جہد آزادی کے ستون بھی موجود تھے اور گواہ بھی ۔مسلم ملت تقسیم کے نتیجے میں تباہی و بربادی کا شکار ہوچکی تھی ۔سرحدوں پر کشیدگیاں تھیں ۔جنوبی ہندوستان پہلے سے ہی پسماندہ خیال کیا جاتا تھا ملک کی تقسیم کے بعد مزید مشکلات کا سامنا تھا ۔ڈاکٹر صاحب کی جوانی کے ایام تھے ۔مختلف علمی مجالس میں مسلم رہنماوں کی گفتگو سے مستفید ہوتے تھے جس کا مرکزی موضوع ملک اور ملت کی موجودہ صورت حال پر تبصرہ ہوتا تھا اور مستقبل میں مزید تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی کی پیشن گوئیاں ہوتی تھیں ۔ڈاکٹر صاحب ایک مسیحا تھے ۔کسی مریض کو دیکھ کر تڑپ جانے والا انسان جب پوری قوم کی بیماری کی صورت حال سنتا اور دیکھتا تو بے چین ہوجاتا تھا ۔تاریک مستقبل کا خیال ہی دن کا سکون اور رات کا چین و آرام چھین لیتا تھا۔اسی بے کلی میں دن رات گزرتے رہے۔چند سال شش و پنج میں گزر گئے۔1964 میں آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ قوم کا روشن مستقبل صرف نوک قلم سے ہی لکھا جاسکتا ہے ۔آپ کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ قوموں کا عروج و زوال تعداد کی کثرت و قلت اور قلعے و محلات کی شان و شوکت میں نہیں ہے بلکہ کتاب اور قلم سے وابستگی میں ہے ۔ آپ نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا اور1964 میں جسٹس بشیر احمد سعید اور ڈاکٹر پی کے عبد الغفور کے ساتھ مل کر آل انڈیا مسلم ایجو کیشن سوسائٹی قائم کی ۔دوسال کی محنت کے نتیجے میں حوصلہ افزا رزلٹ حاصل ہوئے۔ اس کے پیش نظر 1966 میں بنگلور میں الامین ایجوکیشنل سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔
الامین ایجوکیشنل سوسائیٹی کے ذریعے آپ نے تعلیم کا چراغ روشن کیا۔ہم راہی ملتے چلے گئے ۔اپنا سارا اثاثہ اس کام میں لگا دیا ۔نیک دل بیوی نے اپنا زیور بخوشی قدموں میں لاکر ڈال دیا ۔اس سے بھی کام نہ چلا تو بیوی نے اپنے مائیکے سے ملنے والی وراثت بھی ڈاکٹر صاحب کے حوالے کردی ۔وہ شخص جس کی پرورش بڑے عیش و آرام میں ہوئی ہو ۔جس نے خود اعلی تعلیم حاصل کی ہو اور جس کے پاس دنیا کے تمام آرام حاصل کرنے کے ذرائع ہوں ۔جو اگر چاہتا تو چند مریضوں کی نبض دیکھ کر ہی ہزاروں اور لاکھوں روپے کما سکتا تھا اس شخص کو جب قوم کی زبوں حالی کا احساس ہوا تو ایسا لگا کہ سر سید کی روح اس میں حلول کرگئی ہے اور اس نے ان کے نقش قدم کی پیروی کا فیصلہ لے لیا ۔
ڈاکٹر صاحب کو درجنوں ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے وہ بشمول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کئی یونیورسٹیوں کے اہم مناصب پر فائز رہے ہیں ،بڑے لوگوں کی عظمت اور ان کے قد کی بلندی دیکھنے والوں کو رہ عظمت و رہ عزیمت کی تلخیوں اور دشواریوں کو بھی دیکھنا چاہیے ۔اللہ جب کسی انسان کو عظمت عطا کرتا ہے تو یوں ہی نہیں عطا کردیتا بلکہ اس کے ایثار اور قربانیوں کے بدلے میں عطا کرتا ہے ۔قوم کی فلاح کا بیڑہ اٹھانے والوں کے راستوں میں پھولوں سے زیادہ کانٹے آتے ہیں،حوصلہ افزا جملوں سے زیادہ طعن و طشن آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی ہمارے سامنے ہے اب تک وہ زمانے کی چھیاسی بہارہیں دیکھ چکے ہیں ۔انھوں نے 1966 میں جو منصوبہ بنایا تھا وہ شاید اتنا بڑا نہ ہو جتنا بڑا آج ان کا کام ہے ۔یہ سب ان کی مخلصانہ جدو جہد کا نتیجہ ہے ۔اگر ہم ان کے کام کا جائزہ لیں اور ان کے اثرات کا حساب لگائیں تو حیرت سے آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں ۔اس اکیلے فرد نے تعلیم کے لیے درجنوں کالج اور اسکول قائم کیے،مکاتب اور مدارس کی رہنمائی کی،غریب طلبہ کو اسکالرشپ مہیا کرائی ،اعلی تعلیم کے میدان میں ملک کا پہلا مسلم میڈیکل کالج بیجا پور میں قائم کیا،انجینئرنگ کالج کھولے،صحت کی برقراری کے لیے ڈسپنسری،کلینک ،شفا خانے اور اسپتال قائم کیے،کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے الامین اتھلیٹ کلب بنائے،ملت کی معاشی بہتری کے لیے امانت بنک،ہاوسنگ سوسائیٹیاں،بلاسودی قرض اسکیم چلائیں۔آج 250 سے زائد اداروں کے لاکھوں فارغین برسر روزگار ہیں ۔غرض اکیلی جان نے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ مل کر اور سیاسی و مذہبی لیڈرشپ سے باوقار رشتے قائم رکھتے ہوئے ہر شعبہ زندگی میں مثالی کارنامے انجام دیے۔
بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز صاحب نے جنوبی ہند کے ساتھ ساتھ پورے ملک پر توجہ دی انھوں نے یوپی کے مراداباد اور بنگال کے مرشدآباد پر اتنی ہی توجہ دی جتنی کیرل پر دی ،انھوں نے اگر جنوبی ہندوستان کے لوگوں کا تعاون کیا تو شمالی ہندوستان میں، ناگپور،جے پور،احمد آباد،امروہہ،کانپور،نارتھ ایسٹ میں آسام و اڑیسہ وغیرہ کے لیے بھی رقومات فراہم کیں ۔یہ الگ بات ہے کہ کیرل کے لوگوں نے ان کے ذریعے عطا کردہ پانچ لاکھ کو پانچ ہزار کروڑ اور مرشداباد کے لوگوں نے پانچ کروڑ میں بدل دیا جب کہ بعض علاقوں میں پانچ لاکھ بھی ڈوب گئے ۔
آج آپ کی تحریک پورے ملک میں سرگرم عمل ہے ۔آپ سے تربیت پاکر بنگال میں ڈاکٹر نور الاسلام صاحب کے ذریعے الامین مشن شروع ہوا،کیرل میں پی پی ایم ابراہیم خان اور پونے مہاراشٹر میں پی اے انعام دار صاحب نے مورچہ سنبھالا اور خاکسار نے سہسوان یوپی میں الحفیظ ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کی۔ان کے علاوہ بھی درجنوں تعلیمی تحریکوں نے آپ سے رہنمائی حاصل کی اور مسلسل کررہے ہیں ۔ان تمام کاموں کے مثبت اثرات کا نتیجہ ہے کہ جنوبی بھارت میں شرح خواندگی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔معاشی صورت حال بھی بہتر ہوئی ہے ،جرائم میں بھی کمی آئی ہے ۔ جنوبی بھارت کے لوگ تمام میدانوں میں پورے ملک کے رہنما بنے ہوئے ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ ملک اور ملت کی خوشحالی میں خاص طور پر جنوبی بھارت میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کے ذریعے اختیار کیےگئےاقدامات کا اہم کردار ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
عام طور پر ہم لوگ کسی شخصیت کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں ۔ڈاکٹر ممتاز صاحب کے تعلق سے قلم اٹھانے کا میرا مقصد یہ ہے کہ ہم ان کے کارناموں سے ان کی زندگی میں ہی واقف ہوں،ان کی تحریک سے فائدہ اٹھائیں،ان کے نقش قدم کی پیروی کریں۔تاکہ اپنے آس پاس کا ماحول روشن ہو ۔1966 میں ڈاکٹر ممتاز صاحب کے ذریعے لگائے ہوئے درختوں پر آج 55 سال بعد خوب پھل آرہے جس سے خاص طور پر جنوبی بھارت کے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں اگر شمالی بھارت کے لوگ آج کچھ پودھے لگائیں تو امید ہے کہ آئیندہ 50 سال بعد ملک اور قوم دونوں کو لازوال عروج حاصل ہوجائے ۔ڈاکٹر صاحب کے یہاں آج بھی کام کرنے والوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ۔انھوں نے 2014 میں اترپردیش سمیت شمالی بھارت کے لوگوں کی تربیت کے لیے تین دن کا ایک ورکشاپ بھی کیا تھا جس میں یوپی سے 80 افراد راقم کی نگرانی میں شریک ہوئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا محور اللہ پر کامل یقین، پہاڑ جیسا صبر و تحمل ،عزم محکم،کاموں میں تسلسل ،پر امیدی اور غیر تعمیری تنقید کو نظر انداز کرنا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی ان مذکورہ چھ اصولوں سے عبارت ہے ۔ اللہ ڈاکٹر صاحب کا سایہ تادیر سلامت رکھے،کاش ہمیں ان کے نقش قدم چومنے کی سعادت حاصل ہوجائے ۔
کیا لوگ ہیں جو راہ وفا پر چلا کیے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں