مفتی محفوظ الرحمن عثمانی
ماہ ربیع الاول کودیگر مہینوں پرجو عزوشرف حاصل ہے اس کی وجہ ’پیر‘ کادن اور۱۲؍ تاریخ ہے۔یہی وہ تاریخ ہے جس دن رسول مقبول رحمت للعالمین محمد رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میںاس دنیا میں تشریف لائے۔ تاریخ انسانیت میں یہ دن سب سے زیادہ با برکت ، سعید اور درخشاں و تابندہ ہے۔ایک روایت میں ہے:
حضرت جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔
(البداية والنهاية ط إحياء التراث)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور وقت بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتا ب۔ ایک روایت میں دوشنبہ کے ساتھ 12 ربیع الاول کا بھی ذکر ہے اور ساتھ ہی معراج نبوی کا دن بھی دوشنبہ بتایا گیا ہے۔ جمہور علما و مورخینؒ کے نزدیک ولادت مبارک کی تاریخ قمری حساب سے 12 ربیع الاول ہے، مگر کتب سیرت میں ولادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں دوسری تاریخیں بھی مذکور ہیں۔ (علامہ شبلی نعمانیؒ نے’ سیرت النبی‘ میں مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کے پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ؒ نے اپنی کتاب رحمت للعالمین 40:1 ) میں آپؐ کی پیدائش 9 ربیع الاول ، عام الفیل / 22 اپریل 571 ء / یکم جیٹھ 628 بکرمی قرار دی ہے ۔ اس وقت شاہ ایران نوشیروان کے جلوس تخت کا چالیسواں سال تھا اور اسکندر ذوالقرنین کی تقویم کی رو سے سنہ 882 تھا ۔جبکہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی ؒکی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17 جون 569 ء تھی۔
خالق کائنات نے اپنے پیارے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا بنایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بن سکتا ہے، نہ آئے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے آعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس وہ ان الفاظ کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا ہے۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا ساظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اُس کو برداشت نہ کرسکتیں۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سارا حسن ظاہر کیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حسن کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہِیں، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اُس جمال کی تاب لا سکتی، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کو بیان کیا، فرماتے ہیں:
”حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد تھے، آپ کا سینہ مبارک وسیع تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال گھنے تھے ،جن کی درازی کان کی لو تک تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ دھاری دار کپڑا زیب تن کیا ہوا تھا، میں نے آپ سے زیادہ حسین کبھی کوئی چیزنہیں دیکھی۔‘‘
نگاہوں نے نہ دیکھا ہے نہ ہرگز دیکھ پائیں گی:
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ شاعرِ رسول اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا:
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني ** وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ ** كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ
’’آپﷺ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی دیکھا نہیںاورآپﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی ماں نے جنا نہیں،آپﷺ کو ہر عیب سے بری پیدا کیاگیا، گویاآپﷺ کی تخلیق آپ کی مرضی اور چاہت کے عین مطابق کی گئی‘‘
، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو۔)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چالیس سال کی عمرمبارک میں اعلان نبوت فرمایاجبکہ آپ اس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے جیسا کہ حدیث پاک موجود ہے:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا ،حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اُس وقت بھی نبی تھا جب کہ آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے ۔‘‘
(ترمذی شریف )
اعلان نبوت کے ساتھ ہی خوش نصیب و سعادت مند لوگ آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہوکر صحابیت کے شرف سے مشرف ہوئے اور جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے وہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت ، دیانت و شرافت، بزرگی و کرامت، جملہ محاسن و کمالات اور فضائل و مکارم اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا اعتراف کئے کیونکہ حق تعالیٰ نے آپ کو تمام فضائل و کمالات کا جامع اور عیوب و نقائص سے پاک پیدا فرمایا۔اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام مبارک “محمد” صلی اللہ علیہ والہ وسلم رکھا اور اس کو اپنے نام مبارک کے ساتھ کلمہ طیبہ میں شامل فرمادیا۔
آپ کی حیات طیبہ و سیرت مبارکہ کا ایک ایک پہلو عظمت توحید و حقانیت اسلام کی شہادت دیتا ہے،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مقدسہ وسیرت طیبہ کی قسم یاد فرمائی ’’لعمرک‘‘اے حبیب !آپ کی مبارک زندگی کی قسم۔ (سورۃ الحجر)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خلقت مبارکہ اور ولاد ت باسعادت سے وصال اقدس تک کے تمام گوشوں اور آپ کی ذات مقدس وصفات عالیہ ، عبادات ومعاملات ، فضائل ومعجزات ، احوال وارشادات وغیرہ کا جامع بیان سیرت کہلاتاہے۔
اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ کی سیرت مبارکہ ،اسوۂ حسنہ اوربے مثال کردار سے واقف ہونا ہر مسلمان پر لازم وضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے عمل کو شریعت بنادیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پاکیزہ چیزوں کو حلال فرماتے اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔
اللہ تعالی آپ کی ذات والا صفات کو ساری انسانیت کے لئے کامل نمونہ اور رہبری وہدایت کا ذریعہ بنایا اور زندگی کے ہر مرحلہ میں آپ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ قرار دیا اور آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت فرمایا ارشاد الہی ہے:
’’من يطع الرسول فقد اطاع اللّٰه-(سورۃ النساء) “
(جس نے رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی حقیقت میں اُس نے اللہ کی اطاعت کی)
سورۂ احزاب میں ارشاد ہے:
’’لقد کان لکم فی رسول اللّٰه اسوة حسنة‘‘
(بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے)
نبی کی اطاعت واتباع کرنے والے ابدی سعادتوں کے مستحق اور بارگاہ خداوندی میں محبوب ہیں۔ پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو روشن ، تابندہ ، درخشندہ اور چمکدار نظر آتا ہے۔آپ بیواؤں،مسکینوں اور غلاموں کے ساتھ ان کی حاجت برآری کے لئے چل پڑتے تھے۔کھیلتے بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں بھی سلام کرتے،غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے۔اپنے اصحاب و ساتھیوں کی تالیف قلبی فرماتے اور ان سے خیرو عافیت اور حال احوال پوچھتے رہتے تھے۔
بیماروں پر آپ کی شفقت و رحمت کا یہ عالم تھاکہاپنی امتی کو بھی بیماروں کی عیادت اور مزاج پرسی کی تلقین فرمائی،بیماروں کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ترغیب دلائی اور انہیں خوش رکھنے کا حکم فرمایا۔حضرت علیؓ فرماتے ہیںکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:
’’جوشخص کسی ایسے مریض کی مزاج پر سی کو جائے جس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو پھر وہ اس کے پاس بیٹھ کر سات دفعہ یہ کلمات پڑھے:میں عظمت والہ اللہ سے درخواست کرتا ہوں جو عرش عظیم کا مالک ہےکہ وہ تمہیں شفاعطا فرمائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس مرض سے عافیت بخش دیتا ہے۔
اسی طرح حیوانات،پرندوں اور چوپایوں پر بھی آپ ﷺ کی شفقت و رحمت کی بےشمار مثالیں موجود ہیں۔حضرت انس ؓ سے منقول ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جو مسلمان کوئی درخت لگائے یا فصل کاشت کرے اور اس میں سے کوئی پرندہ یاانسان یا جانور کچھ کھاجائے تو اس شخص کو اس کے بدلے ثواب ملے گا۔حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہےکہ ایک آدمی بکری کو لٹانے کے بعد چھری تیز کر رہا تھا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
کیا تو اسے با ربار مارنا چاہٹتاہے؟تو اسے لٹا نے سےپہلے چھری تیز کیوں نہیں کی؟‘‘
حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے،لہذا جب تم کسی کو (حد لاگو کرنے کی بنا پر)قتل کروتو اچھے طریقے سے قتل کر و اور جب تم کوئی جانور ذبح کرنے لگو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ذبح کرنے والے کو چاہئے کہ اپنی چھری(خوب)تیز کرلے اور ذبیحے کو کم سے کم تکلیف دے‘‘
رحمت عالم ﷺ کو اگر بحیثیت باپ کے پیمانے پر دیکھا جائے تو بیٹی کے ساتھ شفقت و محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ جب بھی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے استقبا ل کے لیے سرو قد کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور عصمت و طہارت کی حامل پیشانی مبارک پر بوسہ دے کر خاتون ِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹھنے کے لیے وہ مبارک چادر ِ بچھا دیتے تھے۔
بحیثیت شوہر اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو بیوی کے ساتھ محبت کا ایسا پاکیزہ انداز پڑھنے کو ملتا ہے کہ جب کائنات کے مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس برتن سے منہ لگا کر پانی نوش فرماتیں تھیں اُسی برتن میں اُسی جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنا منہ مبارک لگا کر پانی نوش فرماتے تھے بیوی کے ساتھ محبت و شفقت کا ایسا مثالی و عملی نمونہ پیش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کائنات پر بسنے والی جمیع انسانیت کو اپنی اپنی بیویوں سے محبت و شفقت کا طریقہ بتا دیا ، بحیثیت آقا اگر دیکھنا ہو تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُن دس سالوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفیق و کریم بارگاہ ِ عظمت میں بسر ہوئے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ:
” میں نے 10سال اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزارے مگر میرے کریم و شفیق آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی مجھے جِھڑ کا تک نہیں اور یہ تک نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا ہے اور یہ نہیں کیا‘‘ آپ سب لوگوں سے بڑھ کر صاحب اخلاق تھے میں نے کوئی حریر و ریشم آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں دیکھا اور آپ کے پسینہ مبارک سے بڑھ کوئی اچھی خوشبو نہیں سونگھی‘‘
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :
’’رسول اللہﷺ نہ طبعا ترش کلام تھے نہ تکلفا،کبھی شور نہیں مچایا۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے۔عفو ودرگزراور تحمل سے کام لیتے‘‘۔
یہ تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے صرف چندنمونے ہیں۔
اگر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قلم لکھنا چاہیے تو بالآخر ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ قلم عاجزی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے کائنات میں جگہ جگہ جو حُسن و جمال کے جلوے نظر آرہے ہیں یہ سب میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے مبارک تلوئوں کو چھونے والے ذروں کی خیرات کا صدقہ ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ:
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
ضرورت اس بات کی ہےکہ آج کےد ن کی مناسبت سے بحیثیت اُمتی ہماری ہر ہر ادا میں سیرت رسول ۖ کا عکس نظر آنا چاہیے۔یہ بڑے افسوس کی بات ہےکہ ہم تعلیمات نبوی سے دور ہوتے جا رہےہیں۔ہمارے پاس قرآن پاک،حدیث اورسیرت طیبہ سب کچھ موجود ہے اس کے باوجودہم اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیںاور یہی ہماری تباہی و بربادی کی اصل وجہ ہے۔آج اگر پوری دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو محمد رسول اللہ کی امت سے نہ زیادہ کوئی قوم پریشان ہے اور نہ کسی قوم پر اتنے مظالم ڈھائے جا رہےہیں۔جس امت کے پاس اللہ کی کتاب اور اسکے پیغمبر کی سیرت اور اس کے اصحاب کا عظیم الشان کردار موجود ہو وہ امت اگرروبہ زوال ہے اور اس پرروز مظالم کی ایک داستان رقم کی جارہی ہے تو یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم اللہ کے نہیں رہے اس لئے اللہ بھی ہمار ناصرو مددگار نہیں۔چلے چلتے ایک اور اہم وقعہ پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتاہوں۔۱۰۰عظیم آدمی کے مصنف مائیکل ہارٹ نےدنیا کے ۱۰۰؍عظیم اور متاثرکن شخصیات کی زندگی کے حالات پر اپنی کتاب لکھی تو اس نے سب سے پہلا مقام اپنے انتخاب میں نبی اکرمﷺ کو دیا ہے۔اورسب سے پہلے آپﷺ کا ذکر کیا ہے،وہ اپنے مضمون کی ابتدا ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’ممکن ہےکہ انتہائی متاثرکن شخصیات کی فہرست میںحضرت محمدﷺکا شمار سب سے پہلےکرنے پر چند احباب کو حیرت ہواورکچھ معترض بھی ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہےجو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔حضرت محمدﷺ نے عاجزانہ طور پر اپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا۔وہ ایک انتہائی موثرسیاسی رہنما بھی ثابت ہوئے ۔آج تیرہ سوبرس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں۔‘‘
آج بھی اگر مسلمان اپنے نبی کی سیرت کو اپنی زندگی میں ڈھال لے تو پوری دنیا اس کی غلام بن سکتی ہے۔انسان تو دورچرند اور پرند سب ان کے تابع ہو سکتے ہیں ۔سیرت طیبہ کو اپنائے بغیر قوم مسلم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طہٰ
(علامہ اقبالؒ)
(مضمون نگار کئی کتابوں کے مصنف اور جامعۃ القاسم دارالعلوم اسلامیہ سپول بہار کے بانی و مہتمم ہیں)