ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ملک میں کورونا نے نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ پہلے بزرگ اس کے نشانہ پر تھے۔ اب جوانوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ بچاؤ کےلئے ٹیکوں کے ساتھ احتیاط برتنے کو کہا جا رہا ہے۔ مگر دوسری طرف اسمبلی انتخابات کا سلسلہ جاری ہے۔ پانچ میں سے چار ریاستوں میں ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ مغربی بنگال میں ابھی چار مرحلے کی ووٹنگ باقی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابی جنگ میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ ہر پارٹی چاہتی ہے کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو لیکن عوامی سروکار کے بغیر۔ اس لئے موجودہ الیکشن میں عام آدمی کے بنیادی سوال انتخابی بحث سے غائب ہیں۔ خاص طور پر مغربی بنگال کا الیکشن جے شری رام کے نعرے، ہندو بنام مسلمان، گھس پیٹھ، ماٹی مانس اور مرکز کی اسکیموں کے ریاست میں لاگو نہ ہونے پر لڑا جا رہا ہے۔ جبکہ بنگ بھومی کی دائمی غربت ایک کڑوی سچائی ہے۔ صدیوں کی غریبی، رینگتی زندگی اور بنیادی ضرورتوں کی حقیقت کو سیاسی سطح پر کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مرشدآباد سے لے کر بھوٹان کی سرحد پر بسے آدی واسی اکثریتی علاقے ٹوٹا پاڑا تک دو روپے کلو چاول والی جمہوریت دکھائی دیتی ہے۔
پرولیا کے نو، بانکورا اور مالدا کے بارہ، بیر بھوم کے گیارہ، جل پائی گڑی کے آٹھ اور مرشد آباد کے کئی انتخابی حلقوں میں مفلسی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہاں حالات آج بھی خستہ ہیں۔ مقامی زمینداروں کی من مانی کے خلاف مالدہ کے جیتو سنتھال کی بغاوت تاریخ کا حصہ ہے۔ ملک سے زمینداری ختم ہونے کے بعد یہ مان لیا گیا کہ استحصال کی تمام شکلیں ختم ہو گئیں۔ زمانہ بیتنے کے بعد بھی یہاں کے حالات نہیں بدلے۔ الیکشن کے سال میں دہلی یا کلکتہ کا سرکاری خزانہ کھول کر سہولیات کی بہار لٹا کر عوام کی مفلسی کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت ان محروم طبقات کو پالیسیوں سے جوڑنے کی ہے۔ حکومتی نظام پرولیا، بانکورا، بیربھوم، جل پائی گڑی، مالدا اور مرشدآباد کی طرف نہیں دیکھتا۔ نہ اڑیسہ کے ملکان گری کی طرف جھانکتا ہے، نہ کرناٹک کے رائچور کی سچائی جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا پورے ملک میں غریبی کو لے کر کوئی مستقل پالیسی یا منصوبہ نہیں بن سکا۔ مغربی بنگال کے یہ تمام اضلاع ملک کی غریبی کے نقشہ پر ابھرے ایسے ٹاپو ہیں جہاں خوشحالی لانے کےلئے کتنے ہزار کروڑ روپے خاک ہو چکے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار مغربی بنگال میں ترقی کے نعرے کی قلعی کھولتے ہیں۔ وہاں غریبوں کی کل تعداد ایک کروڑ اسی لاکھ (تیندولکر رپورٹ کے مطابق) میں 37 فیصد حصہ داری انہیں اضلاع کی ہے۔ ان کے 48 فیصد گھروں میں بجلی نہیں ہے۔ تقریباً آٹھ فیصد گھروں میں پینے کا پانی اور 62.4 فیصد میں فلیش بیت الخلا نہیں ہے۔ 87.4 فیصد گھروں میں اجولا یوجنا کی موجودگی نظر نہیں آتی۔ ریاست میں 73.6فیصد گھر کچے ہیں۔ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 72 فیصد گھروں کو بی پی ایل کارڈ نہیں ملا ہے۔ ریاست میں غیر تربیت یافتہ مزدور اور کاریگروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کام نہ ملنے کی صورت میں یہاں کے مزدور نقل مکانی کر کے دوسری ریاستوں میں کام کرنے کو مجبور ہیں۔ یہاں کے 71 لاکھ 60 ہزار خاندان زراعت سے جڑے ہیں۔ کھیتی گھاٹے کا سودا ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ سب سے خراب حالت 24 پرگنا ضلع کے جزیروں پر رہنے والوں کی ہے۔ انسانی زندگی کی سہولیات وہاں قابل رحم حالت میں ہیں۔ لوگ موسم کی مار اور اس کی مہربانی کے بیچ ڈولتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں دھلتے اور ڈوبتے جزیروں کے بیچ جمہوریت سبسڈی کے چاول اور مٹی کے تیل تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔
جنسی تناسب میں کمی اور نومولود اموات کی زیادہ شرح کے معاملہ میں چنے گئے پہلے سو اضلاع میں مغربی بنگال کا ایک بھی ضلع شامل نہیں ہے۔ یہ اس وقت ہے جب ٹیکہ کاری، زچہ بچہ اور حاملہ خواتین کی دیکھ بھال سے جڑی سہولیات کا برا حال ہے۔ آیوش صحت کی سہولت 26 فیصد گاؤں میں دس سے اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ 40 فیصد گاؤں میں سرکاری ڈسپنسری کا فاصلہ دس کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ پرولیا اور مرشدآباد کے کم آبادی والے علاقوں کے گاؤں سے پرائمری ہیلتھ سینٹر کا فاصلہ پچاس کلومیٹر تک ہے۔ اس کے باوجود نوزائیدہ شرح اموات اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات شرح قومی اوسط سے کم ہے۔ البتہ عدم غذائیت اور آرسینک ملے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے وہاں کے لاکھوں لوگ متاثر ہیں۔ ناقص غزائیت یا عدم تغذیہ غریبی کی ہی نشانی ہے ۔
کورونا بحران 2020 کے دوران غریبوں کی تعداد میں 7.5 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ غریب بھارت میں بڑھے ہیں اور متوسط لوگوں کی تعداد میں 3.2 کروڑ کی کمی آئی ہے۔ رپورٹ میں دو ڈالر یعنی 150 روپے کمانے والے کو غریب اور 750 سے 1500 روپے یومیہ کمانے والے کو متوسط طبقہ کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ بھارت کی 28 فیصد آبادی یعنی 38 کروڑ یا یوں کہیں کہ ہر چار میں سے ایک غریب ہے۔ 80 فیصد غریب گاؤں میں رہتے ہیں۔ درج فہرست قبائل سب سے زیادہ غریب ہیں 43 فیصد، درج فہرست ذاتیں پسماندہ طبقات اور دیگر غریبوں کا نمبر ان کے بعد آتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم 2020 کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے کسی غریب خاندان کو متوسط طبقہ میں آنے کےلئے سات پیڑھیوں کا وقت لگتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کہتی ہے کہ امیروں کے مقابلہ غریب علاقوں میں رہنے والوں کو چار گنا زیادہ ہوائی کثافت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غریبوں کےلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی قانون کے تحت کھانے کی گارنٹی دینا، نل جل یوجنا کے تحت پینے کا صاف پانی فراہم کرنا اور علاج کےلئے آیوشمان بھارت اسکیم اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات ابھی جیت بنرجی غریبی کو حکومتوں کی غلط پالیسی کا نتیجہ بتاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ غریبوں کےلئے بنی ساری پالیسیاں اس لئے ناکام ہو جاتی ہیں کیوں کہ سرکاروں کو غریبی کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اپنی زندگی بھر کی کمائی کا زیادہ حصہ کھانے، صحت، ایندھن اور بجلی پر خرچ کر دیتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی معیشت والے ملک بھارت کے ماتھے پر غریبی ایک بدنما داغ ہے ۔
وزیراعظم رہتے ہوئے اٹل بہاری واجپئی نے یونائٹڈ نیشن کے ملنیم ڈویلپمنٹ گولز کے چارٹر پر ملک سے 2015 تک غریبی ختم کرنے کےلئے دستخط کیے تھے۔ وہیں وزیراعظم نریندر مودی نے 2019 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ملک سے غریبی کو دور کرنے کا عہد کیا تھا لیکن انہوں نے غریبی کو کبھی الیکشن کا مدا نہیں بنایا ۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے غریبی سے نبٹنے کیلئے کم از کم آمدنی کی گارنٹی اسکیم سے انتہائی غریب خاندانوں کو جوڑنے کی 2019 میں تجویز پیش کی تھی ۔ اس کے تحت کانگریس کی حکومت آنے پر چھ ہزار روپے ماہانہ 250 ملین لوگوں کو دینے کا اعلان کیا تھا۔ غریبی دور کرنے کےلئے ضروری ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، بند پڑی صنعتوں کو دوبارہ شروع کیا جائے اور غریبی کے مدے کو انتخابی بحث کا حصہ بنایا جائے۔ ملک کے وسائل تک عام آدمی کی رسائی ہو۔ نابرابری کو کم کر معیار زندگی کو بہتر بنانا آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ اس کے بغیر نہ مغربی بنگال سونار بنگلہ بن سکے گا اور نہ ہی ملک کی ترقی کا خواب پورا ہو سکے گا ۔