لکھنؤ میں ایک ساتھ جلائی جارہی ہیں لاشیں، ناکامی کو چھپانے کیلئے کھڑی کردی گئی دیواریں

لکھنؤ – نئی دہلی: (جاوید اختر) بھارتی ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں انتظامیہ نے ایک شمشان گھاٹ کے اطراف لوہے کی اونچی اونچی چادریں کھڑی کردی ہیں تاکہ جلتی چِتاؤں کے ڈھیر پر لوگوں کی نگاہ نہ پڑ سکے۔
جمعرات کے روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں لکھنو¿ کے بھینسا کنڈ شمشان گھاٹ پر درجنوں لاشوں کو ایک ساتھ جلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ لوگوں کا الزام ہے کہ یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت کورونا پر قابو پانے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اسی طرح لوہے کی اونچی اونچی چادریں نصب کررہی ہے جیسی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس احمد آباد کی ایک خستہ حال بستی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قافلے کی نگاہوں سے چھپانے کے لیے دیواریں کھڑ کی تھیں۔
لوگوں نے اترپردیش حکومت کے اس اقدام پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ایک تو اپنے عزیز و اقارب کی موت سے وہ پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں اس پر اب ان کی آخری رسومات کے وقت موجود رہنے سے بھی محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دیواریں کھڑی کردینے کی وجہ سے لوگ اب دور سے بھی اپنے پیاروں کی جلتی ہوئی چِتا کو دیکھ نہیں سکیں گے۔
لکھنؤ انتظامیہ نے دراصل یہ قدم جمعرات کے روز وائرل ہوجانے والے اس ویڈیو کے بعد اٹھایا ہے جس میں بھینسا کنڈ نامی شمشان گھاٹ پر ایک ساتھ درجنوں لاشوں کو جلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد یوگی حکومت کی کافی بدنامی ہو رہی تھی۔ اس پر کورونا سے مقابلہ کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہ کرنے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت کورونا سے مرنے والوں کی اصل تعداد چھپا رہی ہے کیونکہ وہ ہلاکتوں کی جتنی تعداد بتاتی ہے اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہیں۔
دہلی کے صحافی سدھیر کمار پانڈے نے فیس بک پر انتہائی دلدوز انداز میں اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے لکھا، ”لکھنؤ شمشان گھاٹ کے وائرل ویڈیو میں ایک چتا میری ماں کی بھی جل رہی ہے۔ ان کے کلیجے میں موجود کورونا وائرس تو جل کر بھسم ہو گیا لیکن میرے دل میں لگی آگ بجھ نہیں پارہی ہے۔ دل کرتا ہے کچھ دن بے ہوش ہوجاو¿ں تو شانتی ملے … ابھی میرا ذہن ماؤف ہے لیکن یہ اجتماعی چتائیں دیکھ کر اپنی اماں کے ساتھ ہونے والی انہونی کا ایک ایک پل یا د آ گیا ہے۔ میں چالیس پچاس لاشوں کے درمیان اپنی ماں کو جلانے کا ظلم کرنے والا بدقسمت بیٹا بن گیا۔”
لکھنو¿ کے گلالہ گھاٹ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہےے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گھاٹ کے قریب واقع پورا پارک جلی ہوئی لاشوں سے بھرا ہوا ہے۔
دوسری طرف بھینسا گھاٹ کے چاروں طرف لوہے کی چادریں کھڑی کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے۔ لوگ اس کا موازنہ احمدآباد میں گزشتہ برس کھڑی کی گئی اس دیوار سے کررہے ہیں جسے ایک غریب بستی کو ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قافلے کے لوگوں کی نگاہوں سے بچانے کے لیے کھڑی کی گئی تھی۔
لکھنو¿ کے کمشنر اجے کمار دویدی نے انتظامیہ کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ”ایسا اس لیے کیا گیا کہ غیر کووڈ لاشیں لے کر آنے والے لوگ کووڈ شمشان گھاٹ کی طرف نہ جا سکیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگ سازش کے تحت ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال رہے ہیں۔احمدآباد میں ایک غریب بستی کو ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قافلے کے لوگوں کی نگاہوں سے بچانے کے لیے دیوار کھڑی کی گئی تھی۔
کانگریس رہنما اور فلم اداکار راج ببر نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ بھینسا کنڈ کی تصویروں نے روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ حکومت ایسے شواہد کو غلط ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت کو صورت حال پر قابو پانے کے لیے حالانکہ ایک سال ملا لیکن اس نے یہ پورا وقت بیان بازی اور اشتہار بازی میں برباد کردیا۔ (جاوید اختر کی رپوٹ ۔ بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو )