بلیک منی کا خاتمہ یا دجالی مشن کا احیاء

احمد شہزاد قاسمی
ہندوستان کی موجودہ مرکزی سرکار کے سربراہ نریندر مودی جی کے نوٹ بندی کے تغلقی فرمان کو تقریبا چالیس دن ہو گئے اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ عوامی اضطرابی وبے چینی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ،عوام کے ناگفتہ بہ حالات صنعت وتجارت کی معطلی یو میہ مزدوروں کی بے روزگاری سینکڑوں گھروں کے چولہوں میں آگ نہ جلنا اور اس جیسے دوسرے خطرات جو 8 نومبر کو ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ بند ہو نے کے بعد پیدا ہو سکتے تھے ان تمام موضوعات پر تقریبا اطمینان کی حد تک لکھا جا چکا ہے اس موضوع پر لکھنا لکھا نا اگرچہ ایک معنی میں پرانا ہو چکا ہے لیکن اس پر لکھنے بولنے اور تبصروں کا سلسلہ بہر حال اب بھی جاری ہے اس لئے اس میں چند سطروں کا اضافہ بعد ازوقت نہیں ہوگا ،مودی نے کالے دھن کرپشن دہشت گردی اور رشوت خوری پر قدغن لگا نے کے لئے اچانک رائج کرنسی کے 85 فیصد حصہ کو غیر قانونی قرار دیکر نا صرف تمام ہندوستانیوں کو حیرت میں،ڈال دیا بلکہ پورے ملک کو بنکوں کی قطار میں لگا کر زندگی کی رفتار پر بریک لگاکر لوگوں کو خوف میں مبتلا کردیا نوٹ بندی سے کس طرح کرپشن اور کا لے دھن پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اب تک حکمراں پارٹی کا کوء ایک فرد بھی اطمینان بخش نہیں دے پایا ملک کے طول وعرض میں نء اور رائج کرنسی کی شکل میں بلیک منی پکڑی کا رہی ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ نوٹ بندی بلیک منی کا علاج نہیں ہے ۔
نومبر کے اواخر میں مودی جی نے ریڈیو پر “من کی بات” کر تے ہوئے ہندوستان کو “کیش لیس سو سائٹی” (نقد لین دین سے پاک معاشرہ ) بنا نے کا عزم ظاہر کیا خاص طور سے نوجوان طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان کو کیش لیس بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں انہوں نے نو جوانوں سے کہا کہ وہ لو گوں کو کیش لیس کے فوائد اس کا طریقہ کار اور اسکی سہولتوں کے بارے میں بتائیں کیش لیس نظام میں خرید وفروخت کا مکمل انحصار کریڈٹ کارڈ اور سوائپ مشین پر پوتا ہے ہر فروخت کنندہ لے پاس مشین اور ہر خریدار کے پاس کارڈ کا ہو نا ضروری ہے ساتھ ہی ساتھ انٹرنیٹ کی سہو لت ہر وقت ہر جگہ اور اسمارٹ فون وغیرہ بھی لازم ہیں چاہے آپ بچے کے لئے چاکلیٹ آئس کریم اور گھر کے لئے سبزی فروٹ وغیرہ ہی خریدیں آپ کے پاس کارڈ اور سبزی وپھل فروش کے پاس مشین کا ہونا ضروری ہے اسکے بغیر آپ کچھ نہیں خرید سکتے
زیرِ مضمون کے لئے قائم کردہ عنوان پر گفتگو کر نے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت یہودی عیساء اور مسلمان تینوں کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں مسلمان اور عیساء تو حضرے مسیح (عیسی) علیہ السلام کے انتظار میں (جن کے ساتھ حضرت مہدی کا لشکر ہوگا) اور یہودی مخالف مسیح یعنی دجالِ اکبر کے انتظار میں ہیں
یہودیوں کا چونکہ یہ عقیدہ ہے کہ دجال انکا مسیحا اور مقتدا ہوگا نیز خروجِ دجال کے بعد اسکی قیادت میں پوری دنیا پر اہلِ یہود کی حکومت قائم ہو گی اپنے اس عقیدہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اور عالمی یہودی حکو مت کے قیام.کے لئے یہودی نہ صرف یہ کہ خروجں دجال کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں بلکہ اسکے خروج کی ہر ممکنہ صورت کو یقینی بنا رہے ہیں دجال کے پاس بے پنا طاقت وقوت ہو گی لوگوں کی آزمائش کے لئے اللہ تعالی اسے ایسے اختیارات دینگے جس سے وہ کچھ خارقِ عادت واقعات بر پاکر کے اپنی خداء کا دعوی کریگا حدیث شریف میں ہے کہ اس کے پاس آگ اور پانی ہونگے (جو) آگ (نظر آئے گی) وہ ٹھنڈا پانی ہوگا اور (جو ) پانی (نظر آئے گا) وہ آگ ہوگی (بخاری کتاب الانبیا باب ماذکر عن بنی اسرائیل) دوسری حدیث میں ہے کہ اس (دجال) کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہو گا (مطلب یہ کہ اس کے پاس پانی اور غذا وافر مقدار میں ہونگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان باتوں کے لئے وہ نہایت حقیر ہے لیکن اللہ اسے اسکی اجازت دے گا (تاکہ لوگوں کو آزمایا جا سکے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں یا دجال پر) (بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
ان حدیثوں کی روشنی میں ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں
(1) دجال کا قبضہ تمام زندگی بخش وسائل مثلًا آگ پانی اور غذا پر ہوگا
(2) اسکے پاس بے تحاشا دولت اور زمین کے خزانے ہونگے
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص پوری دنیا کے خزانے اور تمام زندگی بخش وسائل پر کیسے قبضہ کر سکتا ہے؟ جو لوگ احادیث میں بیان کردہ فتنہء دجال اور موجودہ عالمی یہودی سازشوں سے واقف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کس طرح یہ سب کچھ ممکن ہے لوگوں کو اس فتنہ اور ممکنہ صورتوں سے آگاہ کر نے کے لئے محقق علماء نے کتابیں لکھ کر اس فتنہ کے نمایاں خد وخال اور احادیث کی عصری تطبیق کو واضح طور پہ بیان کیاہے اس موضوع کو سمجھنے کے لئے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی “دجالی فتنہ کے نمایاں خد وخال” حضرت علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی “معرکہء ایمان و مادیت ” مفتی ابو لبابہ شاہ منصور کی “دجال کون کب کہاں؟ ” مولانا عاصم عمر کی “برمودا تکون اور دجال ” تیسری جنگِ عظیم اور دجال “اور اس جیسی دوسری کتابیں کا فی ہیں
مذکورہ احادیث کو عصرِ حاضر کے تناظر میں سمجھئے کہ دجال کے پاس بے تحاشہ دولت زمین کے خزانے اور زندگی بخش وسائل پر قبضہ کس طرح ہو گا
جب پوری دنیا کیش لیس نظام میں رنگ جائے گی اور کرنسی نوٹ بالکل ختم ہو جائیں گے لوگ کریڈٹ کارڈ اور کمپیوٹر کے ذریعہ اعدادوشمار برابر سرابر کرینگے اور بس! ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہوگا تمام لین دین صرف اور صرف کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ ہوگا
ظاہر ہے کہ کہ یہ کریڈٹ کارڈ ہوں ہی نہیں چھوڑ دئے جائیں گے ان کی نگرانی کی جائے گی انکے استعمال کے لئے حدود وقیود متعین کئے کائیں گے
ممکن ہے کہ یہودیوں کی اجارہ داری والے “آء ایم ایف” (عالمی مالیاتی ادارہ) اور ولڈ بینک ان کارڈوں کو کنٹرول کریں
جو لوگ دجالی قوتوں کے شیطانی مطالبات تسلیم نہیں کرینگے انکے کارڈ معطل کر دئے جائیں گے جب ایسے لوگ خریداری کے لئے جائیں گے تو انہیں پتہ چلے گا کہ انکا کارڈ بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے وہ خریداری یا خد مات حاصل نہیں کر سکیں گیاس طرح دنیا کی دولت ومعیشت سمٹ کر ایک شخص یعنی دجالِ اکبر کے گرد جمع ہو جائے گی دوسری بات یہ ہے کہ جب کیش لیس نظام میں اپنا سامان فروخت کر نے والے ہر شخص کو سوائپ مشین لگانی پڑیگی تو ظاہر ہے کہ ٹھیلوں پر سبزی پھل اور غذاء اجناس بیچنے والے یہ مشین نہیں لگا سکتے ہر طرح کی غذاء اجناس اور ضروریاتِ زندگی ان بڑی دکانوں پر فراہم کی جائیں گی جہاں سوائپ مشینوں کی خدمات حاصل ہونگی انسان قدرتی دودھ سبزی پھل اور مٹھاء سے محروم ہو کر ان دکانوں کی طرف رخ کرے گا جہاں قسم قسم کی مصنوعی غذائیں قدرتی غذاؤں کی جگہ لے لیں گی
خلا صہ یہ کہ انسان کی ضروریاتِ زندگی کا تمام سامان ان سوائپ زدہ دکا نوں سے پی مل پائے گا جن کا تمام تر انحصار ملٹی نیشنل یہودی کمپنیوں پر ہوگا اس طرح زندگی بخش وسائل غذا دوا وغیرہ پر دجالِ اکبر کا قبضہ ہو گا دجال کے عالمی اقتدار کی راہ ہموار کر نے والی یہودی طاقتیں منصوبہ بندی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں اور سائنس وٹیکنالوجی کے ذریعہ ہر اس منصوبہ پر عمل کر رہی ہیں جو دجال کے ظہور میں معاون ومددگار ہو دجال کے لئے مطلوبہ صفات پیدا کر نے کے لئے پوری دنیا کو ایک نئے نظام کے تحت چلانے کی کوشش کی جارہی ہے کیش لیس سوسائٹی بھی اسی نظام کی ایک کڑی ہے جس کو دیر سویر پوری دنیا میں رائج کر دیا جائے گا
ہندوستانی آبادی کا تقریباً ستر فی صد حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے جہاں جہاں بینک اور انٹرنیٹ کی عدمِ فراہمی کے ساتھ ساتھ تعلیمی پسمانگی بھی کیش لیس نظام لو قبول کر نے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ایسی صورت میں ہندوستانی قوم پر کیش لیس نظام تھوپنے کی جلدی دکھا نا اور ہڑبڑاہٹ سے کام لینا اہلِ اقتدار کی نیتوں کو شکوک وشبہات کے دائرہ میں لاتا ہے لوگوں کی بے چینی کو نظر انداز کرنے اور نوٹ بندی کے نتیجہ میں ہو نے والی سو سے زیادہ اموات پر حکومت کی بے حسی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوٹ بندی تحریک بلیک منی کے خاتمہ پر نہیں بلکہ دجالی مشن کے احیا پر مبنی ہے دجالِ اکبر کا فتنہ تو ہر حال میں ہو کر رہے گا لیکن اہلِ ایمان کو اسکی ہولناکیوں کو سمجھ کر مادیت سے ایمانیت کی طرف لوٹ کر فرامینں نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس سے بچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر نی چاہئے۔(ملت ٹائمز)