مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ)
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن، دارالعلوم دیوبند کے سابق میڈیا انچارج، پیس فاؤنڈیشن آف انڈیا نئی دہلی اور ابناء قدیم دارالعلوم دیوبند کے جنرل سکریٹری، قاسمی ایجوکیشن سوسائٹی دیوبند، متحدہ ملی مجلس نئی دہلی اور فتویٰ آن لائن کے صدرمفتی، ، مسلم یوتھ فار انڈیا کے کنوینر، دہلی وقف بورڈ کے سابق ممبر، من شاہ جہانم جیسی کتاب کے مصنف، نوجوان اور نامور عالم دین ، خوبرو ، خوش وضع، خوش گفتار اور خوش کردار مولانا ڈاکٹر مفتی اعجاز ارشد قاسمی کا پون ہوسپیٹل فرید آباد ہریانہ میں ۱۷/اپریل ۲۰۲۱ء مطابق ۴/رمضان ۱۴۴۲ھ بوقت بارہ بجے دن انتقال ہوگیا، انا للہ و انا الیہ راجعون، جو سنا حیران و ششدر رہ گیا، ان کی طبیعت چار روز قبل خراب ہوئی تھی، کورونا پوزیٹو تھا ، گھر پر علاج و معالجہ سے افاقہ نہیں ہوا تو اسپتال کا رخ کیا، کم و بیش بیس اسپتال کے پھیرے لگائے گئے، لیکن کہیں بھی بیڈ خالی نہیں تھا، ضرورت آئی سی او کی تھی اور بیڈ بھی دستیاب نہیں تھا، گھما پھرا کر پھر پون ہوسپیٹل لے جایا گیا جہاں آئی سی او کی سہولت نہیں ملی اور ان کا وقت موعود آگیا، ہنستی، بولتی زندگی اچانک خاموش ہوگئی، ان کے سارے متعلقین اور احباب جن کے وہ کام آتے رہتے تھے اور جو انہیں ٹوٹ کر چاہتے تھے، ہکا بکا رہ گئے، تعزیت کے الفاظ آنکھوں کے سیلاب میں اس طرح بہہ گئے کہ کسی کو کچھ کہنے کا یارانہ تھا، کون تسلی دے اور کس کو تسلی دے، سبھی تعزیت کے مستحق تھے، اس کے علاوہ ان کے جنازہ کو ہوسپٹل سے باہر لانا ، دہلی سے بہار لے جانا ایک پریشان کن مرحلہ تھا اور اس مرحلہ کو پار گھاٹ لگانا آسان کام نہیں تھا، اللہ نے ان کے محبین کو کھڑا کردیا، آصف چودھری، مولانا اعجاز شاہین، مولانا عظیم اللہ، مولانا شمس تبریز قاسمی (ملت ٹائمس) مولانا خالد قاسمی اور مولانا ضیاء اللہ قاسمی نے حق تعلق ادا کیا، میرے شاگرد مولانا اظہار الحق قاسمی ان حضرات کی ہمت اور حوصلے کو مہمیز کرتے رہے، اللہ نے ان حضرات کی کوششوں کو قبول کیا اور ہریانہ سے دہلی آئی ٹی او دفتر جمعیت علماء ہند اور پھر وہاں سے ان کے آبائی گاؤں مدھوبنی بہار کے چندر سین پور تک لانے کی شکل بن گئی، پہلی نماز جنازہ جمعیت کے دفتر آئی ٹی او واقع مسجد عبد النبی کے باہری حصے میں ہوئی، مولانا کلیم الدین صاحب امام مسجد عبد النبی نے پڑھائی، جنازہ ۱۸/ اپریل کو ساڑھے تین بجے شام ان کے گاؤں پہونچا اور بعد نماز عصر ان کے چچا زاد بھائی قاری سیف الرحمن صاحب نے دوسری نماز جنازہ سنت کے مطابق غسل اور تجہیز وتکفین کے بعد پڑھائی، کورونا کی وحشت اور دہشت کے باوجود بڑی تعداد میں لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی اور مفتی صاحب کے آخری سفر کے شاہد بنے، پھر مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ دولڑکا اور ایک لڑکی کو چھوڑا ۔
مولانا مفتی اعجاز ارشد قاسمی بن عطاء الرحمن بن عبد الرزاق کی ولادت ۶/مئی ۱۹۸۳ء کو اہل علم کی مشہور و معروف بستی چندر سین پور، رہیکا ضلع مدھوبنی میں ہوئی، اس گاؤں کا مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ سے گہرا تعلق رہا ہے، ان دنوں مدرسہ کے مہتمم مولانا عتیق الرحمن چندر سین پور ہی کے تھے، چنانچہ مفتی اعجاز ارشد قاسمی کی ابتدائی تعلیم کے لئے مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ کا انتخاب عمل میں آیا، ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور ۱۹۹۶ء میں سند فراغت حاصل کیا، اپنی ذہانت، فرماں برداری اور کتابوں سے شغف کی وجہ سے جلد ہی وہ اپنے اساتذہ کے منظور نظر ہوگئے، فراغت کے بعد ایک سال وہ تقابل ادیان کے شعبہ میں رہے، ۱۹۹۸ء میں انہوں نے تکمیل افتاء میں داخلہ لیا اور افتا کی سند حاصل کی، ٫۱۹۹۵ میں انہوں نے جامعہ دینیات اردو سے فاضل دینیات، ۱۹۹۸ء میں جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل، ۱۹۹۹ء میں دارالعلوم دیوبند سے اردو صحافت، ۲۰۰۰ء میں دارالعلوم سے ہی انگلش ڈپلوما کورس، ۲۰۰۷ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی اے، ۲۰۰۹ء میں دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کیا، ۲۰۱۰ء میں یو جی سی کا نیٹ نکالا، ۲۰۱۱ء میں ایم فل اور پھر علماء دارالعلوم دیوبند کی اردو شاعری پر پی ایچ ڈی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی سے کیا اور ادیب کامل کو چھوڑ کر سبھی امتحان میں ممتاز رہے۔
فراغت کے بعد اللہ رب العزت نے موقع دیا، ۲۰۰۰ء ۔ ۲۰۰۶ء تک دارالعلوم دیوبند کے انٹر نیٹ اور ویب سائٹ کے ساتھ میڈیا ترجمان کے طور پر بھی کام کرتے رہے، اسی دوران انھوں نے اردو صحافت کے رموز ونکات سکھانے اور بتانے والی کتاب من شاہ جہانم لکھی اور علماء کے درمیان اس کتاب کے حوالہ سے اپنی شناخت بنائی، اس کے علاوہ انھوں نے کئی مجلات مثلأ عزم حسین، صبائے حرم کی ترتیب کا کام کیا، ان کی مطبوعہ دیگر کتابوں میں جہاد اور دہشت گردی ، مدارس کی اردو صحافت، علماء دیوبند کی اردو شاعری خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
مولانا مرحوم نے صحافت کے رموز شیخ الہند اکیڈمی میں مولانا کفیل احمد علوی رح سے سیکھے، مولانا بدر الدین اجمل صاحب کے مشورہ سے ایک سال نئ دنیا دہلی میں لگا کر پختگی حاصل کی، ہمارا سماج دہلی کے ایڈیٹو ریل بورڈ سے جڑے، سرکار کے اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر یٹ میں شامل رہے اور جلد ہی انہوں نے صحافت کے میدان میں اپنا لوہا منوالیا۔
دہلی قیا م کےدوران انہوں نے ملی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا اور جلد ہی اس میدان میں اپنی خدمات سے جگہ بنالی، وہ ۲۰۱۲ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر بنے اور دہلی میں مختلف اجتماعات، سمینار، کانفرنس کرکے بورڈ کے کاموں کو تقویت پہونچائی، وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری ساتویں امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے معتمد تھے، جسٹس کاٹجو کو ڈاڑھی والے معاملے میں راہ راست پر لانے کا کام حضرت امیر شریعت کی ہدایت کے مطابق انہوں نے انجام دیا. حضرت امیر شریعت جس کام پر انہیں لگا دیتے لگ جاتے، بلکہ ان کے دست وبازو بن جاتے، گودی میڈیا نے جب طلاق وغیرہ پر سوالات کھڑے کرنے شروع کئے تو وہ ٹی وی مباحثہ میں حصہ لینے لگے، انھوں نے کئی موقعوں پر اینکروں کی بولتی بند کردی اور ایک موقع پر مباحثہ میں شریک ایک خاتون نے جب ان پر ہاتھ چلا دیا تو انھوں نے اس خاتون کی جم کر دھلائی کی، جس کی پاداش میں انھیں کئی ماہ جیل میں گزارنا پڑا، بڑوں کے مشورہ سے انھوں نے ادھر ٹی وی مباحثوں میں جانا بند کردیاتھا،
مفتی صاحب مسلمانوں میں سیاسی بیداری لانا چاہتے تھے اور اس کے لئے انھوں نے مسلم سیاسی پارٹی کے قیام کا ایک منصوبہ بنایا تھا جو اتفاق سے آپسی بحث و مباحثہ کی نظر ہوگیا، انہوں نے اپنی پوری زندگی دینی رہنمائی، ملی سرگرمی اور سیاسی بیداری کے لئے وقف کردیا تھا، دہلی میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ان کے جاننے اور ماننے والوں کا وسیع حلقہ تھا، ان کے روابط کم و بیش تمام ملی تنظیموں سے تھے۔ وہ سب کے کام آنا چاہتے تھے اور اپنی بساط بھر اپنے ہم عصروں کی صلاحیت کو مہمیز کرکے آگے لے جانے کا جذبہ رکھتے تھے، آج جو لوگ سوشل میڈیا پر ہمارے درمیان چھائے ہوئے ہیں، ان کی تربیت میں مفتی اعجاز ارشد قاسمی کے کلیدی کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، بہت سے مضمون لکھنے والے بھی ان کی رہبری کے ممنون ہیں۔
سماجی زندگی میں ان کی خدمات کے واضح نقوش اسٹوڈنٹس اسلامک فیڈریشن مدھوبنی کی شکل میں ہمارے سامنے آئے ، پہلے مولانا نے اسے گاؤں کی سطح پر بنایا، پھر مولانا غفران ساجد قاسمی وغیرہ کے مشورہ سے آل مدھوبنی اس کے دائرے کو پھیلایا اور اس فیڈریشن کے ذریعہ انھوں نے بہت سارے سماجی کام زمینی سطح پر کیے۔
مفتی اعجاز صاحب سے میری پہلی ملاقات امارت شرعیہ میں ہوئی تھی، میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور سے امارت شرعیہ آچکا تھا، ان کی کتاب ” من شاہ جہانم ” تازہ تازہ چھپ کر آئی تھی، خود ہی لے کر امارت شرعیہ پہونچے اور پیش کیا، میں نے اس پر ایک تفصیلی تبصرہ نقیب میں لکھا تھا جو اب میری کتاب نقد معتبر میں شامل ہے۔
اس کے بعد کبھی دہلی ، کبھی پٹنہ اور کبھی مدھوبنی میں ملاقاتیں ہوتی رہیں، ان کے بعض افکار و خیالات بلکہ بعض بیانات سے بھی میرا اختلاف رہا؛ لیکن ان کی محبت اور خلوص میں کوئی کمی کبھی نہیں آئی اور دل کے تاروں پر کبیدگی کا کوئی بل نہیں آیا، وہ مجھے اپنا بڑا سمجھتے تھے، کبھی آمنا سامنا ہوتا تو کاموں کے سلسلے میں مشورہ بھی لیتے، میرے شاگرد مولانا اظہار الحق قاسمی سے ان کا یارانہ تھا اور وہ ایک دوسرے کے کام آیا کرتے تھے، اس حوالہ سے بھی وہ مجھے محترم سمجھا کرتے تھے۔
ادھر جب ساتویں امیر شریعت نے تنظیم کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ضلعی اجلاس میں وہ خود بھی موجود رہا کرتے تھے، ان کی موجودگی کی وجہ سے لوگوں کا رجوع عام ہوتا تھا، ایسا ہی ایک اجلاس مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر مدھوبنی میں مؤرخہ ۶/۷/اپریل ۲۰۱۹ءکو منعقد ہوا تھا، مولانا اعجاز ارشد سے میری آخری ملاقات اسی موقع سے ہوئی تھی، پہلے ہی کی طرح ٹوٹ کر ملے اور دونوں دن مدھوبنی میں رہے، حضرت امیر شریعت صاحب سے بھی کئی امور پر تبادلہ خیال کیا، اس کے بعد کورونا کی وبا پھیلی اور آمد ورفت کے راستے مسدود ہوگئے، میں خود بھی گزشتہ مارچ اپریل میں دہلی میں ہی کورنٹائن رہا؛لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی، جوان تھے، سرگرم تھے، خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس قدر جلد ہم سے جدا ہوجائیں گے، انسان بھی بڑا عجیب ہے، کتنے لانبے منصوبے باندھتا ہے، کیسی کیسی امیدیں لگاتا ہے، حالانکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ؏
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
مفتی صاحب کو بھی اجل نے لوٹ لیا ، نو بہن اور دو بھائیوں میں سے مفتی صاحب ہی اللہ کے حکم سے اجل کی پسند بن گئے، ہم سب کی دعائیں، تمنائیں اور خواہشیں حیرت سے منہ تکتی رہ گئیں اور مفتی صاحب اس اللہ کے پاس چلے گئے جس کے دین کی سربلندی کے لئے وہ ہمیشہ سرگرداں رہا کرتے تھے۔ الوداع مفتی صاحب الوداع اب ملاقات ان شاء اللہ قیامت میں ہی ہوگی۔