سخت تبصرے کو تلخ گھونٹ کی طرح لینا چاہیے: سپریم کورٹ

جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس ایم آر شاہ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے مدراس ہائی کورٹ کے حالیہ ریمارکس کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے۔ عدالت نے اس کیس میں فیصلہ بھی محفوظ کرلیا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ میڈیا کو عدالتوں میں زبانی تبصرے کی رپورٹنگ سے روکا نہیں جاسکتا، کیونکہ یہ عدالتی عمل اور عوامی مفاد میں ہے، ساتھ ہی عدالتوں کے سخت تبصرے کو ’کڑوی دوا کی ’گھونٹ‘ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایم آر شاہ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے مدراس ہائی کورٹ کے حالیہ ریمارکس کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے۔ عدالت نے اس کیس میں فیصلہ بھی محفوظ کرلیا۔ مدراس ہائی کورٹ نے حال ہی میں ریمارکس دیئے تھے کہ کورونا کی دوسری لہر کے لئے الیکشن کمیشن خود ذمہ دار ہے اور اس کے افسران کو قتل کے الزام میں قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔
جسٹس چندرچوڑ نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ آپ قتل کے الزام سے پریشان ہیں۔ اگر میں اپنے بارے میں بات کروں تو میں اس طرح کے ریمارکس نہیں دیتا، لیکن لوگوں کے حقوق کے تحفظ میں ہائی کورٹ کا بڑا کردار ہے۔ جسٹس شاہ نے کہا کہ ہائی کورٹ کا تبصرہ اسی طرح لیا جانا چاہیے جس طرح کسی ڈاکٹر کی کڑوی دوا لی جاتی ہے۔
الیشن کمیشن کی جانب سے راکیش دویدی نے بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم انتخابات کرواتے ہیں۔ حکومت اسے اپنے ہاتھ میں نہیں لیتی۔ اگر وزیراعلیٰ یا وزیر اعظم دور دراز کے علاقے میں دو لاکھ لوگوں کی ریلی نکال رہے ہیں تو پھر کمیشن بھیڑ پر گولی نہیں چلوا سکتا اورنہ ہی لاٹھیاں چلوا سکتا ہے۔ اسے دیکھنا ڈیزاسٹرمینجمنٹ کمیٹی کا کام ہے۔
اس پر جسٹس شاہ نے پوچھا کہ کمیشن نے بعد میں 500 سے زیادہ ریلیوں میں شرکت نہ کرنے سے متعلق ہدایت نامہ جاری کیا، جو اس سے پہلے ہوسکتا تھا۔ اس پر دویدی نے کہا کہ بنگال کی صورتحال کے پیش نظر بعد میں ایسا کیا گیا تھا۔ تمل ناڈو میں ایسا نہیں تھا۔ وہاں 4 اپریل کو الیکشن مکمل ہو گیا تھا۔ جسٹس شاہ نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ آپ نے پوری صلاحیت کے مطابق اپنا کام کیا، ہم شاذو نادر ہی سخت تبصرے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے مفاد میں کام کیا جاسکے‘‘۔
جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ سماعت کے دوران میڈیا کو عدالت کے زبانی تبصرے کی اطلاع دینے سے نہیں روکا جاسکتا۔ یہ تبصرے عدالتی عمل کا حصہ ہیں اور عوامی مفاد میں ہیں۔ یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا عدالت کا باقاعدہ حکم۔ عدالت کا ارادہ کسی ادارے کو نقصان پہنچانا نہیں ہے، اگر تمام ادارے مضبوط ہوں تو جمہوریت کی صحت کے لئے اچھا ہے۔ جب دوویدی نے مزید دلیل دینا شروع کیا تو جسٹس چندرچوڑ نے کہا ’’ہم نے آپ کے نکات کو نوٹ کر لیا ہے۔ ہم ہائی کورٹ کی عزت برقرار رکھتے ہوئے متوازن آرڈر دیں گے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔