مولانا نور عالم خلیل امینی عربی و اردو زبان و ادب کے عظیم شہسوار تھے: مولانا مظفر عالم نقشبندی

مظفرپور: دارالعلوم دیوبند کے مؤقر استاذ ، عربی مجلہ الداعی کے چیف ایڈیٹر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمتہ اللہ علیہ اب اس دنیا ء میں نہیں رہے ، اللّٰہ کو پیارے ہوگئے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ ان کے انتقال پر ملال پر مدرسہ احمدیہ کریمیہ مصراولیا اورائی مظفرپور بہار کے سرپرست حضرت مولانا مظفر عالم صاحب نقشبندی مدظلہ سجادہ نشیں خانقاہ نقشبندیہ مصراولیا نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ یہ ہمارے لیے عظیم خسارہ ہے کہ آج باکمال شخصیات کا سایہ ہم سے اٹھتا جارہاہے ، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ بڑے ذی علم اور بافیض شخصیت کے مالک تھے ، وہ عربی اور اردو کے ممتاز انشاء پرداز، عربی ادب کے باوقار استاذ اور عظیم قلم کار تھے ، وہ بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے ، ان کی پرورش والدہ کے زیر سایہ نانیہال ہرپور بیشی، اورائی مظفرپور میں ہوئی ، انہوں نے بڑی مفلسی میں تعلیم حاصل کی اور اپنی بے پناہ محنت اور خلوص و للہیت کے ذریعہ بلند مقام ومرتبہ حاصل کیا، اپنے وقت کے ممتاز علماء و مشائخ بالخصوص شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی، سید الملت حضرت مولانا سیدمحمد میاں صاحب دیوبندی، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمھم اللّٰہ سے خصوصی استفادہ کیا ۔ وہ تعلیم سے فراغت کے بعد دس سالوں تک دارالعلوم ندوتہ العلماء لکھنؤ کے عربی ادب کے باوقار استاذ رہے ، پھر ارباب دارالعلوم دیوبند کی دعوت پر دیوبند تشریف لے گئے جہاں تقریباً چالیس سالوں تک عربی ادب کے مایہ ناز استاذ اور عربی مجلہ الداعی کے چیف ایڈیٹر رہے ، وہ دارالعلوم دیوبند میں بجاطور پر حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمہ اللّٰہ کے حقیقی علمی جانشیں اور ان کی ادبی ، فکری اور تربیتی زندگی کے صحیح ترجمان ثابت ہوئے ، ان کی ہر حرکت وسکون میں حضرت مولانا کیرانوی کی شفاف تصویر جھلکتی تھی ، شخصیت سازی، مردم سازی میں ممتاز نظر آ تے تھے ، وہ غیر معمولی علمی مشاغل کے باوجود گرد و پیش کے احوال سے پوری طرح واقف رہتے تھے ، عالم اسلام کے احوال پر ان کی گہری نظر تھی ، فلسطین کے مسائل اور ان کا حل ان کا خاص موضوع تھا ، وہ وقفہ وقفہ سے اپنی گراں قدر تصانیف کے ذریعہ فکری اور ادبی تحریروں میں اصافہ کرتے رہتے تھے ، درجنوں عربی اور اردو کتابیں انہوں نے مذہبی، ملی اور عالمی مسائل پر تحریر فرمائی جس کی وجہ سے انہیں بر صغیر کے علمی حلقوں کے علاؤہ عرب اور یورپ کے علمی حلقوں میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ، وہ اپنے آ بائی علاقے کے علماء مشائخ سے بھی گہری عقیدت و محبت رکھتےتھے ، اپنے علاقے کے لوگوں سے ملاقات کے دوران قطب الاب حضرت مولانا بشارت کریم صاحب گڑھولوی اور قطب زماں حضرت الحاج الشیخ منظور احمد صاحب مصراولیاوی قدس سرہما کے محاسن کا تذکرہ ضرور فرماتے تھے ۔ بلاشبہ حضرت مولانا کا انتقال نہ صرف دارالعلوم دیوبند بلکہ علمی دنیا ء کا بڑا عظیم خسارہ ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات کو بلند فرمائے ، پسماندگان کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے اور دارالعلوم کو ان کا بہتر بدل عطاء فرمائے آمین- ان کے علاوہ ماسٹر انصارالحق عرف حاجی پھولو صاحب برہروا، سیتامڑھی، مولانا فیض الحسن بتہا سیتامڑھی، قاری معین الدین صاحب صدرجمعیتہ علماء بہار ، سابق رکن پارلیمنٹ جناب شہاب الدین صاحب، انصاف منچ کے نائب صدر آفتاب عالم صاحب کے والد حاجی انیس صاحب کے انتقال پر بھی حضرت مولانا مظفر عالم صاحب نقشبندی نے گہرے صدمے کا اظہار کیا اور دعاء مغفرت فرمائی، ان تمام حضرات کے لئے مدرسہ احمدیہ کریمیہ مصراولیا اورائی مظفرپور کی مسجد ابوبکر میں اہتمام کے ساتھ ختم قرآن و ایصال ثواب کیا گیا۔ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی، ماسٹر انصارالحق صاحب سمیت تمام لوگوں کی وفات پر حافظ نسیم احمد صاحب ناظم مدرسہ احمدیہ کریمیہ مصراولیا، قاری محمد زید صاحب، مولانا سہیل اختر صاحب، مولانا طفیل اخترصاحب ، ماسٹر خواجہ سعد اللّٰہ صاحب، ماسٹر فخر عالم صاحب، مولانا آفتاب صاحب، مولانا امتیاز صاحب، مولانا بلال احمد صاحب وغیرہ نے بھی گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اظہار تعزیت کیا۔