اسرائیل: نیتن یاہو نئی حکومت تشکیل دینے میں ناکام

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت والی لیکود پارٹی کو اب اپوزیشن کا کردار ادا کرنا پڑ سکتا ہے، گزشتہ بارہ برسوں میں ایسا پہلی مرتبہ ہو گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو مقررہ وقت، منگل کی نصف شب تک ایک نئی اتحادی حکومت تشکیل دینے میں ناکام ہو گئے۔
اسرائیل ایک اور سیاسی تعطل کی جانب رواں
چونکہ مقررہ وقت گزرچکا ہے اس لیے صدر رووین ریولین اب حکومت کی تشکیل کا کام اسرائیلی پارلیمان کے کسی دوسرے رکن کو سونپ سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی لیکود پارٹی گزشتہ بارہ برسوں میں پہلی مرتبہ اپوزیشن جماعت بن جائے گی۔
ریولین نے ایک بیان میں کہا”نصف شب سے ٹھیک پہلے نیتن یاہو نے بیت ہناسی (صدر ریولین کا دفتر) کو مطلع کیا کہ وہ حکومت بنانے میں ناکام ہو گئے اس لیے اب اس کا فیصلہ صدر کریں گے۔”

مخلوط حکومت قائم کرنے کی ذمہ داری کس کو دی جاسکتی ہے؟
صدرریولین اب یش ایتید پارٹی کے رہنما یائر لیپد کو حکومت سازی کا موقع دے سکتے ہیں۔ سابق نیوز اینکر لیپد کو نیتن یاہو کا سخت مخالف سمجھا جا تا ہے۔
صدر ریولین، نیتن یاہو کے ایک سابق اتحادی نیفتالی بینیٹ کو بھی نئی حکومت بنانے کے لیے موقع دے سکتے ہیں۔ نیفتالی دائیں بازو کی ایک چھوٹی جماعت یمینا پارٹی کے رہنما ہیں۔
اسرائیل ایک عرصے سے سیاسی تعطل سے دو چار ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران وہاں چار مرتبہ عام انتخابا ت ہو چکے ہیں لیکن عوام نے کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں دی اور ان کے لیے ایک مستحکم مخلوط حکومت قائم کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ تازہ ترین انتخابات گزشتہ مارچ میں ہوئے تھے۔
اگر کوئی بھی رکن پارلیمان نئی حکومت بنانے میں ناکام رہتا ہے تو پھر پانچویں مرتبہ انتخابات کرائے جائیں گے۔
نیتن یاہو کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے اسلام پسند عرب جماعت یونائٹیڈ عرب لسٹ کی حمایت لینی پڑے گی۔

نیتن یاہو کا کیا ہوگا؟

اکہتر سالہ نیتن یاہو سن 2009 سے اسرائیل کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ اسرائیل کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ وہ 1996سے 1999کے درمیان بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
نیتن یاہو اسرائیلی فوج میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے حرب  الاستنزاف (War of Atrrition) اور 1973میں یوم کپور جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔
انہوں نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ امریکا میں بھی گزارا ہے جہاں انہوں نے معروف ادارے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کی تھی۔
ایران کے حوالے سے نیتن یاہو کا رویہ انتہائی سخت گیر ہے اور وہ تہران کی جوہری سرگرمیوں کے لیے اس کی اکثر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے لیے علیحدہ ریاست کے آئیڈیا کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
نیتن یاہو کو رشوت خوری، اعتماد شکنی اور دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ ان الزامات نے بھی ان کے لیے حکومت کی تشکیل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
ایک سو بیس رکنی اسرائیلی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے نیتن یاہو کو اسلام پسند عرب جماعت یونائٹیڈ عرب لسٹ (یو اے ایل) اور انتہائی دائیں بازو کی یہودی قومی پرست جماعت ریلیجیئس زایونسٹ پارٹی دونوں ہی کی حمایت لینی پڑے گی۔ لیکن ریلیجیئس زایونسٹ پارٹی نے یو اے ایل کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔