مظلوم فلسطینیوں سے ان کے جینے کا حق چھین رہا ہے اسرائیل ، مسلم ممالک اگر اب بھی نہ جاگے تو کل تک بہت دیر ہوچکی ہوگی: مولانا ارشد مدنی

اسرائیل کی حالیہ وحشیانہ حرکت اور بربریت پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں؟ مولانا ارشد مدنی کا سوال
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا ارشد مدنی نے مظلوم فلسطینیوں پر ہوئے حالیہ اسرائیل حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ظلم اوربربریت کی انتہا قرار دیتے ہوئے ان حملوں کو انسانیت پر ایک سنگین حملے سے تعبیر کیا، انہوں نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ عالمی برادری اور خاص طورپر مسلم ممالک کی خاموشی سے شہہ پاکر اسرائیل اب نہتے اور لاچار فلسطینی عوام سے ان کے جینے کا حق چھین لینے کی مذموم کوشش کررہا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ دنیا اس تاریخی سچائی سے انکارکرنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ اسرائیل ایک غاصب ملک ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے جبراً قبضہ کر رکھا ہے اور اب وہ اسی خاموشی کے نتیجہ میں اس سرزمین سے فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کردینے کے درپہ ہے انہوں نے کہا کہ اپنے قبضہ کے بعد سے ہی اسرائیل فلسطینی عوام کو مسلسل ظلم و جبر کا نشانہ بنائے ہوئے ہے اس دوران مصالحت اور مفاہمت کی لاتعداد کوششیں ہوئیں لیکن سب کا سب بے سود رہیں، بعض طاقتورملکوں کی درپردہ حمایت کے نتیجہ میں اسرائیل فسلطین کے تعلق سے اقوام متحدہ سے وقت وقت پر منظورہوئی قرار دادوں کو بھی اپنے پیروں تلے روندتا رہا ہے اور اب تو مسلم ملکوں سے سفارتی تعلقات قائم ہونے بعداس کے ناپاک حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مسجد اقصی میں عبادت میں مصروف فسلطینی مرد و خواتین یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کررہا ہے، مولانا مدنی نے کہاکہ اس میں ہماری بے حسی اور خاموشی کا دخل کچھ زیادہ ہے، اگر ہم نے یعنی مسلم ممالک نے اس مسئلہ کی اہمیت اورسنگینی کا ابتداہی میں اندازہ کرکے کوئی مؤثر مشترکہ حکمت عملی فسلطین کے تعلق سے تیارکرلی ہوتی تو آج اسرائیل اس طرح فلسطینی شہریوں کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنانے کا خوصلہ نہیں کرسکتا تھا، انہوں نے تازہ حملوں کو انسانی حقوق پر ہونے والا سنگین حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی وہ مہذب دنیا بھی اس پر خاموش ہے، جو عالمی امن اور اتحادکی نقیب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، انسانی حقوق کا مسلسل وردکرنے والے عالمی ادارے بھی چپ ہیں، انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا مذاکرات کے ذریعہ کوئی حل نہ نکالا جاسکے، عالمی برادری بالخصوس دنیا کے وہ طاقتورملک جو اقوام متحدہ کے مستقل ممبرہیں اگر مخلص ہوتے تو اس مسئلہ کا بھی کوئی پر امن اورقابل قبول حل نکال سکتے تھے، مذاکرات کی میز پر باچیت کا ڈھکوسلا تو کئی بار ہوا مگر افسوس اس مسئلہ کا کوئی حتمی اورپائیدارحل نکال نے کی کوئی ذمہ دارانہ کوشش کبھی نہیں ہوئی، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے لئے بربریت انتہاپسندی اور اس کی مستقبل کی خطرناک منصوبہ بندی ظاہر کردیتی ہے کہ یہ صہیونیت اور اسلام کی ایک جنگ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یورپین یونین ہو، عالمی ادارے ہو یا پھر دنیا کے باثر ممالک کوئی بھی کھل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا، بلکہ ان کی طرف سے اگر کوئی بیان بھی جاری ہوتا ہے  تو نپے تلے لفظ ہوتے ہیں اوردرپردہ اس میں اسرائیل کی حمایت بھی شامل ہوتی ہے، دوسرے اس طرح کے اسرائیلی اقدامات سے اس پورے خطہ میں قیام امن کی کوششوں میں بڑی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے، انہوں نے اقوام متحدہ یورپین یونین، ورلڈ مسلم لیگ، حکومت ہند اور تمام انصاف پسند بین لاقوامی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جارحانہ ہشت گردی کے خلاف پختہ قدم اٹھائیں، ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو بلاتاخیر مسجد اقصی کی حدود سے باہر کیا جائے اور مشرقی یروشلم میں اس کی مداخلت کو روکا جائے، مولانا مدنی نے آخر میں یہ کہہ کر مسلم ممالک کی غیروحمیت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ اگر وہ اب بھی خاموش رہے تو پھر یہ معاملہ فلسطین کی حدود تک ہی محدودنہیں رہے گا مسلم ممالک اگر اب بھی نہ جاگے تو کل تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔