بارہ بنکی کی مسجد کی شہادت کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، الہ آباد ہائی کورٹ میں کیس درج

لکھنؤ: (ملت ٹائمز) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے بیان میں کہا کہ 17 مئی 2021ءکو رات کے اندھیرے میں مسجد غریب نواز معروف تحصیل والی مسجد واقع تحصیل رام سنیہی گھاٹ بارہ بنکی کو کسی بھی قانونی جواز کے بغیر پولس کے ذریعے شہید کردیا گیا تھا۔ یہ سوسالہ قدیم مسجد اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ میں درج ہے اور اس مسجد کے سلسلے میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی فرقہ وارانہ اختلاف بھی نہیں ہوا ۔ مارچ میں ایس ڈی ایم بارہ بنکی نے مسجد کمیٹی سے مسجد کے آراضی سے متعلق کاغذات طلب کئے۔ اس نوٹس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ کورٹ نے 18 مارچ سے 15دن کی جواب داخل کرنے کی مہلت دی، اس کے بعد یکم اپریل کو جواب بھی داخل کردیا گیا۔ اس کے باوجود بھی ضلع افسران نے یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے قانون کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کے اس گھر کو شہید کرکے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو زبردست ٹھیس پہونچائی۔ جس کی مذمت غیر مسلمین نے بھی کی۔ اس جانب دارانہ، غیر منصفانہ اور غیر آئینی کارروائی سے پوری دنیا میں ایک بہت ہی غلط پیغام گیا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے 18مئی کو جاری اپنے پریس بیان کے ذریعے سے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مسجد کے ملبے کو وہاں سے منتقل کرنے سے روکے، جوں کی توں حالت برقرار رکھے۔ مسجد کی زمین پر کوئی دوسری تعمیر کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جن افسران نے اس غیرقانونی حرکت کا ارتکاب کیا ہے، ان کو معطل کیا جائے۔ اور ہائی کورٹ کے جج کے ذریعے اس واقعے کی تحقیق کرائی جائے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسی جگہ پرمسجد تعمیر کراکر مسلمانوں کے حوالے کرے لیکن ان میں سے کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں کیا گیا، لہٰذا باشندگان بارہ بنکی جناب حشمت علی اور نعیم احمد اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میں ایک رِٹ پٹےشن الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ سعود رئیس کے ذریعہ داخل کی۔ اس پٹیشن پر پرسنل لا بورڈ کے لیگل کمیٹی کے چیئرمین یوسف مچھالہ بحث کریں گے اور اترپردیش سنی وقف بورڈ کی جانب سے بھی رٹ پٹیشن الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ سید آفتاب احمد کے ذریعہ داخل کی جس پر سینئر ایڈوکیٹ جئے دیپ ماتھر بحث کریں گے۔ ان دونوں پٹیشنوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مقامی افسران کے ذریعے سے کی گئی انہدام کی کارروائی مکمل طورپر غیرآئینی اور غیرقانونی ہے اور رُول آف لاء کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور چوں کہ مسجد کی زمین وقف ہے اس وجہ سے مجسٹریٹ یا کسی بھی دوسرے افسر کو اس پر کاروائی کا کوئی بھی قانونی حق حاصل نہیں ہے بلکہ ملک کے پارلیمنٹ کے ذریعہ بنایا گیا وقف ایکٹ کے مطابق اس مسئلے کو وقف ٹریبونل کے ذریعے سے حل کیا جانا چاہئے تھا جس کو مقامی افسروں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا ۔