یوپی پولس نے نوجوان صحافی ذاکر علی تیاگی پر لگایا غنڈہ ایکٹ کا کیس

نئی دہلی: (ملت ٹائمز) اتر پردیش پولس نے نوجوان صحافی اور حقوق انسانی کارکن ذاکر علی تیاگی پر غنڈہ ایکٹ لگادیاہے جس کے بعد ان کی ضمانت مشکل ہوسکتی ہے ۔ ذاکر علی تیاگی پر پہلے سے یوپی پولس سے سات دفعات کے کیس کرچکی ہے اور ملک سے غداری کا کیس بھی چل رہاہے جس کے بعد یوپی پولس نے ایک نیا کیس لگادیاہے۔یوپی پولس نے پچھلے دنوں66A کی دفعہ کے تحت بھی کیس درج کردیاتھا جسے سپریم کور ٹ نے 2015 میں کالعدم قراردے دیاتھا۔
ذاکر علی تیاگی نے خود اپنے فیس بک پیج پر اطلاع دی کہ یوپی پولیس نے “غنڈہ ایکٹ” کے خلاف کارروائی کرکے مجھے بدمعاش قرار دے دیا ہے یہ کارروائی 25 اپریل کو کی گئی تھی ، جس کا نوٹس مجھے آج ضلعی عدالت سے موصول ہوا ہے ، پولیس نے غنڈا ایکٹ لگانے کی وجہ میں لکھا ہے کہ ذاکر کی وجہ سے وہاں کے عوام میں اتنا خوف / دہشت پھیل رہا ہے کہ عوام میں سے کوئی بھی شخص اس کے خلاف ثبوت یا معلومات دینے کو تیار نہیں ہے۔۔
ذاکر علی تیاگی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے میں میں نے عدالت میں عرضی داخل کرنے کے لئے 12 جولائی تک کا وقت لیا ہے ، اگر عدالت میری عرضی سے متفق ہو جاتی ہے اور یہ غنڈہ ایکٹ ہٹا دیا جاتا ہے تو پھر مجھے جیل نہیں جانا پڑے گا ، مجھے ضمانت نہیں لینی پڑے گی ، اور اگر عدالت میرے دلائل کو مسترد کرتی ہے اور انتظامیہ کے دلائل کو اہمیت دیتی ہے تو مجھے جیل بھیج دیا جائے گا۔ اس کے بعد مجھے ضمانت لینی پڑے گی ۔
ذاکرعلی تیاگی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ2017 سے لے کر اب تک ، یوپی پولیس نے میرے خلاف 2 اضلاع میں 7 دفعات میں مقدمات درج کیے ہیں ،دو مرتبہ میں جیل بھی جاچکا ہوں ۔
ذاکر علی تیاگی کاکہناہے کہ میرے خلاف یہ کاروائی اس وجہ سے کی جارہی ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ میرا نام مسلمان جیسا ہے ۔ غیر مسلم صحافیوں کے ساتھ کچھ معاملہ ہوتاہے تو سبھی لوگ حمایت میں آتے ہیں ۔ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے ہیں لیکن میرا نام مسلمان جیسا ہے اس لئے کوئی حمایت نہیں ملتی ہے ۔ کوئی بھی سڑکوں پر نہیں اترتاہے ۔
ہندوستان میں کوئی گرفتاری کا معاملہ ہو ، میں نے گرفتاری پر کھل کر تنقید کی ہے لیکن ان تنقیدوں کے بیچ یہ بھی تجربہ کیا ہے کہ رہا ہونے کے بعد وہ افراد اپنے لئے آواز نہیں اٹھاتے لیکن میں موت تک آئین پر عمل کروں گا اور آواز اٹھاتا رہوں گا ۔
میں ان صحافیوں کی مجبوریوں کو سمجھتا ہوں جو کسانوں کی تحریک سے گرفتار ہونے والے صحافی پر آوازاتھاٹے ہیں۔ منڈی ہاو¿س سے پریس کلب آف انڈیا تک مارچ کرتے ہیں۔ وہ احتجاج اور رہائی کا مطالبہ کرنے کے لئے پیدل مارچ کرتے ہیں ، لیکن آصف سلطان ، جو یو اے پی اے کے تحت 1037 دن سے سری نگر جیل میں ہے اور 9 ماہ سے یو اے پی اے کے تحت متھرا جیل میں رہنے والے صحافی صدیق کاپن ، کی حمایت میں کبھی آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔ احتجاج اور رہائی کا مطالبہ کرنے کیلئے وہ کبھی بھی اپنے کمرے سے گھر کے مرکزی دروازے تک پیدل مارچ نہیں کرتے ہیں ۔