مولانا محمود مدنی کی جمعیت نے اتفاق رائے سے مولانا ارشد مدنی کو امیر الہند منتخب کیا، مولانا سلمان منصورپوری نائب امیر

  امیر الہند کی تجویز صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا محمود مدنی نے پیش کی۔
 تائیدات کے بعد صدر اجتماع حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے نام کا اعلان کیا
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں واقع مدنی ہال میں امارت شرعیہ ہند کا ایک روزہ نمائندہ اجتماع حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد شریک ہوئے۔ اجتماع میں حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی وفات کے بعد خالی ’امیر‘ کی جگہ پر کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علما ء ہند حضرت مولانا محمود اسعد مدنی نے اس باوقار منصب کے لیے جامع کمالات شخصیت حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند وصد المدرسین دارالعلوم دیوبند کا نام پیش کیا، انھوں نے کہا کہ اس وقت ملی ضروریات میں جن اہم کاموں کو اولیت حاصل ہے اس میں امارت کا کام بھی شامل ہے، آج مسلم معاشرہ بالخصوص خانگی مسائل میں کافی بگاڑ پیدا ہوگیا ہے، اس کو حل کرنے کے لیے محکمہ شرعیہ کے نظام بڑھانے اور اصلاح معاشرہ کی تحریک کی ضرورت ہے، انھوں نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جو آج کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجتماع میں مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند نے امیر الہند مرحوم حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری ؒپر ایک تجویز تعزیت پیش کی، تجویز میں امیر الہند کے سانحہ ارتحال پر غم کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کا وجود پوری ملت اسلامیہ کے لیے باعث خیر و برکت تھا اور ان کی ذات تقوی، دیانت اور حسن انتظام کے اعتبار سے قابل تقلید تھی۔
حضرت مولانا محمود مدنی کی تجویز کی تائید حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی امیر شریعت اترپردیش، حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری رکن شوری دارالعلوم دیوبند امیر شریعت جموں و کشمیر، حضرت مولانا سید اسجد مدنی، حضرت مفتی احمد دیولہ نائب صدر جمعیۃ علماء گجرات، حضرت مولانا سید اشہد رشیدی مہتمم جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد، حضرت مولانا بدراحمد مجیبی خانقاہ مجیبیہ پٹنہ بہار، حضرت مولانا یحییٰ باسکنڈی امیر شریعت آسام، حضرت مولانا بدرالدین اجمل صدر جمعیۃ علماء آسام نے کی۔ان تائیدات کے بعد صد ر اجتماع  حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی کے نام کا اعلان کیا۔حالاں کہ حضرت مولانا مدنی نے اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے معذرت ظاہر کی تاہم تمام مجمع کی تائید کے بعد وہ امیر الہند خامس منتخب ہوئے۔ بعد میں شریک علماء، داعیان نیز دیگر حاضرین نے ان کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کی۔
بعد ازاں حضرت امیر الہند خامس نے اپنے کلیدی خطا ب میں کہا کہ اسلام میں امارت کا بہت بڑ ا مقام ہے۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ایک سال بعد ۱۹۲۰ء میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ مالٹا سے واپس تشریف لائے تو آپ کو جمعیۃ علماء ہند کا مستقل صدر منتخب کیا گیا، چنانچہ آپ کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس دوم منعقد ہوا، اس میں حضرت شیخ الہند ؒ نے قومی سطح پر امیر الہند کے انتخاب کی تجویز پیش کی۔ بعد میں محض بارہ دن بعد حضرت ؒ کا انتقال ہو گیا، تو ان کے جانشین حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے اس مشن کو آگے بڑھایا، لیکن بعض وجودہ سے اس وقت یہ کام آگے نہیں بڑھ پا یا، بعد میں اللہ تعالی نے حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کو توفیق بخشی جن کی قیادت میں امارت شرعیہ ہند کا قیام عمل میں آیا، آج امارت شرعیہ ہند کے تحت سو سے زائد محاکم شرعیہ چل رہے ہیں، اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ملک کے کونے کونے میں محاکم شرعیہ قائم کیے جائیں اور امارت کے نظام کو صوبائی سطح پر مستحکم کیا جائے، اس موقع پر اہل مدارس سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے مدرسوں میں دارالقضاء کا کورس شروع کریں اور پھر داخل طلباء کو تربیت دے کر محاکم شرعیہ میں مقرر کریں۔امیر الہند خامس نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے حضرت مفتی سید محمد سلمان منصورپوری استاذ حدیث جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد و جنرل سکریٹری مرکزی دینی تعلیمی بورڈ جمعیۃ علماء ہند کو نائب امیر الہند بنائے جانے کا بھی اعلان کیا، جس کی اجتماع نے تائید کی۔
اس سے قبل امارت شرعیہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان منصور پوری نے کہا کہ دنیاکے نظام میں دو شعبوں کی بڑی اہمیت ہے، ایک تو حکومتی شعبہ ہے اور دوسرا عدلیہ کا شعبہ ہے۔ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق ہے۔اب عدلیہ کے تحت بھی دو معاملات آتے ہیں، ایک فوجداری کے معاملات، دوسرے سول معاملات، فوجداری کے معاملات کے لیے قوت نافذہ کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک ہمارے ملک میں اسلامی حکومت قائم تھی، کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن جب مسلمانوں کا اقتدار ختم ہو گیا تو ہمارے اکابر کی کوشش سے ملک کے بعض حصوں میں قاضی کو اختیار ات دئیے گئے، لیکن مرکزی طور پر اسے منظوری نہیں ملی، ایسی صورت میں ہمارے اکابر نے عائلی وشرعی مسائل میں کئی طرح کی کوششیں کیں، خاص طور سے خواتین کے ذریعہ اپنے ظالم شوہر سے نجات کے لیے حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب ’الحیلۃ الناجزہ‘ کی روشنی میں محاکم شرعیہ کا نظام جاری کیا گیا۔ امیر الہند رابع حضرت اقدس مولانا قاری سید محمدعثمان منصورپوری ؒ نے بالخصوص اس کتاب کی تلخیص کی ہدایت دی اور اسے امارت شرعیہ ہند کے تحت شائع کروایا، تلخیص کی وجہ سے مسائل کو سمجھنے میں کافی آسانی پیدا ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ امارت کے انتخاب کی پہلی تجویز حضرت شیخ الہند ؒ نے جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس دوم  میں رکھی اور اس کے بعد ہمیشہ جمعےۃ علماء کے اجلاسوں میں یہ موضوع زیر بحث رہا، مختلف کاوشوں کے بعد 1986میں قومی سطح پر امارت شرعیہ ہند کا قیام عمل میں آیا، حالاں کہ اس سے قبل حضرت شیخ الہندؒ کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد بہاریؒ نے پٹنہ میں امارت شرعیہ بہار کو قائم کیا جو آج تک قائم و دائم ہے۔ 1986 میں امارت شرعیہ ہند کے قیام کے بعد اس ادارہ نے قومی سطح پر محاکم شرعیہ قائم کیے اور اس کے کاموں کو پوری دلجمعی سے انجام دیا، اس کے لیے امارت شرعیہ ہند کے سابق ناظم حضرت مولانا معزالدین احمد ؒ کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اجتماع میں موجود ارباب حل و عقد سے کہا کہ آپ اگر اس کام کو دین کا سمجھ کر کریں گے تو ان شاء اللہ اکابر ؒ کی یہ فکر ملک کے کونے کونے میں پہنچے گی۔
اخیر میں حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کی رقت آمیز دعاء پر دوپہر بارہ بجے اس نمایندہ اجلاس کا اختتام عمل میں آیا،  حضرت مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری نے نظامت کے فرائض انجام دئیے، جب کہ اجتماع کا آغاز مفتی محمد عفان منصور پوری کی تلاوت اور قاری احمد عبداللہ رسولپوری کی نعت سے ہوا۔