محمد افسر علی
مذہب اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے
مذہب اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے ہر چیز کو واضح طور پر بیان کیا ہے
قرآن ہدایت کے ساتھ ساتھ آئین، دستورِحیات اور قانون کی کتاب ہے
ارشاد باری ہے
ونزلنا عليك الكتاب تبياناً لكل شئ وهدي ورحمة وبشرى للسمين
الایہ
(النحل89)
توضيحاً لكل شئی
تفسیر جیسے حلال، حرام، ثواب، عقاب، وغیرہ
ہدایت، یعنی گمراہی سے بچانے والا ہے۔
اور رحمت ہے اس شخص کےلے جو قرآن کو ماننے کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہو،
اور بشارت ہے مؤمنین کےلے انکے اچھے انجام کی وجہ سے یہ آیت سب سے بڑی دلیل ہے۔
لیکن یہ یاد رہے قرآن میں صرف پانچ سو آیات ہیں جن میں احکام ہے اور قانون ہے باقی موعظت ونصیحت ہے (صرف اسلامی قانون نہیں بلکہ اس میں ساری انسانیت کےلے کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے)
مگر یہ قانون صرف ماننے(مسلمانوں) والے پر نافذ ہوتا ہے
جہاں جمہوری نظام ہے وہاں بھی مسلمان آرٹیکل اور دفعات کے تحت اپنے شرعی قوانین کو شریعت کے تابع رکھتے ہیں۔
آج مسئلہ اس لے پیدا ہوا کہ مسلمان دارالقضاء کا رخ نہ کرکے ملکی عدالت کا رخ کرتے ہیں اورغیروں کو یہ کہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں پر ظلم وزیادتی ہے، اور اسی سےمتأثر ہوکر بعض ناخواندہ طبقہ خود ساختہ اصطلاح کی روشنی میں یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اسلام ہدایت کی کتاب ہے قانون کی نہیں
اور اپنی بات کو ثابت کرنے کےلے باطل تاویل کا سہارا لیتے ہیں اور یہی باطل تاویل گمراہی کا سبب ہے
آخر ضرورت کیا ہے ایسی تاویل کی جو بے بنیاد ہو؟
جب صرف دین سے ناواقف پروفیسر اور ڈاکٹر شریعت کی بات کرتے ہیں اورچونکہ وہ قرآن وحدیث سےلاعلم ہوتے ہیں توخطا لازم اورہوجاتی ہے پھر جب علماء اس پر تنبیہ اور گرفت فرماتے ہیں تو وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کےلے یاتو یہ کہتے ہیں کہ آپ میری بات ہی نہیں سمجھ سکے، جیسا کہ ماضی قریب میں بعض حضرات نے ایسا کیا جنہوں نے صحابہ تک کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا
پھر جب علماء نے انکی گرفت کی تو انہوں نے ایک فرقہ بنالیا اور جہلاء ان کے ساتھ ہوگئے۔ اللہ خیر کرے !
یا یہ کہتے ہیں کہ پوری تقریر انگلش میں ہوئی جسے بہت ہی کم لوگ سمجھیں پھر کیا فائدہ ایسی تقریر کا؟
جسے کم ہی لوگ سمجھیں، اسی موقع کےلے کسی شاعر نے کہا تھا ؎
سمجھ میں صاف آجاے فصاحت اس کو کہتے ہیں
اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں
مذہب اسلام کی بنیاد اور اساس قرآن وحدیث ہے قرآن نے ہمیں دو چیزیں دی ہیں ایک کا نام اصول،دوسرے کا نام فروع ہے، حدیث نے دو چیزیں دی ہیں ایک کا نام دلائل، اور ایک کا نام مسائل ہے ۔
ارشاد باری ہے
ترجمہ: تم پیروی کرو اس کتاب کی جس کو تمہارے رب نے نازل کیا (الآیۃ۳،اعراف)
اب اگر کوئی مسئلہ قرآن میں نہ ملے؟
ارشاد باری ہے
ترجمہ: اے نبی آپ فرمادیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو (الآیۃ۳۱،ال عمران)
پھر اگر کوئی مسئلہ سنت میں نہ ملے؟ ارشاد باری ہے
ترجمہ: جو حق کے ظاہر ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور راہ اختیار کرے مؤمنین کے علاوہ کی (دنیا میں ) ہم اسے حق کی توفیق نہیں دیں گے اور (آخرت) میں جہنم دیں گے (الآیۃ ۱۱۵،النساء)
پھر اگر کوئی مسئلہ اجماع میں نہ ملے؟
ارشاد باری ہے
ترجمہ: راہ چل اس کی جو میری طرف رجوع ہوا (الآیۃ ۱۵،لقمان)
اللہ کے نبی نے حضرت معاذؓ کو یمن کے طرف بھیجا تو ان سے پوچھا اگر کوئی مسئلہ سنت میں نہ ملے تو تم کیا کروگے؟ حضرت معاذؓ نے فرمایا ” أجتهد برأبى ” میں اجتہاد کروں گا تو اللہ کے نبیؑ نے دعاء دی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
مغالطہ : بعض حضرات اجتہاد کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی عقل اور رائے کی بنیاد پر کوئ فیصلہ کرلیں،عقل اور رائے کی بنیاد پر اسلامی احکامات سے متعلق کوئ فیصلہ کرنے کو وہ اجتہاد سمجھتے ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اس چیز کو آج تک کسی نے اجتہاد نہیں سمجھا جو شخص اس بات کو اجتہاد سمجھتے ہیں در حقیقت وہ عظیم گمراہی میں مبتلا ہے،خود حضرت معاذ بن جبل کی وہ حدیث جس کی بنیاد پر اجتہاد کا دروازہ نبی کریمﷺ نے کھولا،اور جب آپﷺ نے کھولا تو کوئی اس کو بند نہیں کرسکتا، اس کے اندر یہ تشریح موجود ہے کہ اللہ کے نبی نے پوچھا اگر تمہیں کوئی بات کتاب اللہ (قرآن) میں نظر نہ آئے تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ تو حضرت معاذؓ نے فرمایا سنت پر عمل کروں گا، آپﷺ نے پوچھا اگر سنت میں بھی کوئی بات نہ ہوگی تو پھر کیا کروگے؟ انہوں نے فرمایا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔
یہی حدیث صراحۃً یہ بات بتا رہی کہ جس چیز کے بارے میں قرآن وسنت نے کوئ حکم دے دیا اس میں اجتہاد کی کوئ گنجائش نہیں رہتی اگر اسکے بعد اس پر کوئ اجتہاد کیا جائے گا تو وہ اجتہاد نہیں ہوگا وہ تحریف ہوگی۔
در حقیقت اگر ان معاملات میں جن میں قرآن وسنت نے کوئ واضح حکم دیا ہے اجتہاد کی اجازت اور کھلی چھوٹ دی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر بعثت انبیاء کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی بندہ یہ کہے تم قرآن کو چھوڑ کر فقہ کو مانتے ہو تو میں سمجھتا ہوں وہ فقہ کا معنی ہی نہیں جانتا ورنہ اعتراض ہی نہ کرتا، کیونکہ فقہ کتاب اللہ، سنت رسول ﷺ، اجماع امت، اور قیاس سے ثابت شدہ مسئلہ کا نام ہے؟
خلاصہ : کوئی مسئلہ قرآن میں،کوئی مسئلہ حدیث میں کوئی اجماع میں اور کوئی قیاس میں ہے، پھر ہم کیسے مان لیں کہ قرآن قانون کی کتاب نہیں؟ پھر اسلام کا قانون کیا ہے؟
مولانا ارشد مدنی صاحب بار بار عوام میں بھی اور میڈیا کے سامنے بھی اپنا یہ موقف رکھ چکے ہیں کہ تین طلاق کا مسئلہ قرآن میں اجمالی طور پہ ہے اور حدیث میں اس کی تفصیل ہے، اور ہم قرآن و حدیث دونوں کو مانتے ہیں۔ لہذا کسی مسئلہ کی قرآن میں وضاحت نہ پاکر کسی اندھے کو منہ کھولنے کا حق نہیں کہ یہ مسئلہ تو قرآن میں ہے ہی نہیں۔
رہا پروفیسر موصوف کا کہنا تو وہ اگر صرف اتنا کہتے کہ قرآن موجودہ قانونی کتاب کی طرح نہیں ہے کہ جس میں دفعات اور آرٹیکل نمبر بائی نمبر لکھے ہیں اور ملک کے قانون کا مرجع اور مصدر صرف وہی قانونی کتاب ہے لیکن قرآن کے سلسلہ میں بات ایسی نہیں ہے، قرآن نے ہمیں کچھ قانون واضح لفظوں میں موقع بموقع دئے ہیں
اور کچھ قانون کے اشارے دئے ہیں، اور کچھ قانون کے اصول بتائے ہیں جن سب کی تفصیل حدیث میں آگئی ہے
لہذا کسی کو قرآن کے سلسلہ میں مذکورہ باتوں کے متعلق تبصرہ کرنا ہے تو وہ انہیں تفصیلات کے مطابق بات واضح کرے جو میں نے اوپر درج کی ورنہ معنی کچھ کا کچھ ہوجائے گا۔
خلاصہ یہ کہ قرآن قانون کتاب بھی ہے اور کتاب ہدایت بھی واضح احکام و قوانینین بھی دئے ہیں اور مجمل و مفسر اشارات بھی اس لئے کسی جاہل کےلے یہ روا نہیں اوریہ حق نہیں کہ وہ علماء اور مفسرین کی متفق علیہ باتوں سے ہٹ کر ایک ایسا موقف تیار کرلے جس پر اعتراضات کی بھرمار ہوسکتی ہے۔ مستشرقین کی جانب سے قرآن پر اعتراضات پہلے بھی ہوئے اور آج بھی
لیکن ان اعتراضات سے بچنے کےلے قرآن کے اصل مقصد اور اس کے منہج سے ہٹ کر بات کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
(E-mail)afsarqasmi0@gmail.com