’’خسارہ‘‘

سمیں کرن
سلمان داؤدی جب بمبئی سے کراچی کے ائیر پورٹ پہ اٗترا تو دِل عجب متضاد سے رنگوں میں بھیگا ہوا تھا ۔یہا ں اسکے دنیا میں موجود سب سے قریبی خونی رشتے موجودتھے ،یہاں اسکے ماں باپ کی ہڈیاں بھی دفن تھیں جن کو خاک ہوئے اِک مدت بیت گئی ۔یہاں اسکا قیمتی بچپن بھی بلکتا تھا۔اِس شہر کی فضاؤں میں اسکے لیے اِک مانوسیت اور وارفتگی کی بے ساختگی اور والہانہ پن تھا۔اٗس نے
اِک گہرا سانس بھرا ۔۔۔۔بمبئی گئے زمانے بیت گئے مگر کراچی جو کشش رکھتا تھا وہ بات بمبئی میں نہ ملی
حالانکہ رشتے ناطے اور دوست احباب بھی تھے اور سائرہ اسحاق بھی وہیں ملی اٗسے۔اٗسکی خوبصورت سیاہ آنکھوں،سیاہ بالوں اورسفید چاندی جیسے چہرے والی سائرہ اسحاق اسکی شریک حیات۔۔۔۔۔۔اور جیسے مِلی اٗسی طرح کچھ سال اسکے ساتھ گزار کر تھوڑی سی علالت کیبعد اچانک چل بسی،وہ حیران ششدر کھڑا تھا کہ کیاہوا ؟؟۔۔سائرہ اسحاق اسے چھوڑ کر چلی گئی ۔۔یہ چندخواب جیسے برس جنکی رفاقتوں کا کوئی ثمر بھی اٗس کے آنگن میں نہ کھِلاتھا اور زندگی اِک تندور جیسے بیابان کی طرح اٗس پر تنی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
عورت پھر اسکی زندگی میں بیوی کی شکل میں تو نہ آئی ،ہاں بستر میں ضرور ضرورتاً داخل ہوئیں۔اپنے تےءں
سائرہ اسحاق سے وفاداری کے اس مظاہرے پہ وہ خوش اور مطمےئن تھا ،یہ اسکے مزاج وعادات یا رویے کی بے ڈھبی تھی یا پھر حالات کے دھارے نے اسکی ساخت ایسی کردی تھی کہ نہ تو وہ اپنے دائرے میں بہت
جلدکسی کو داخل کرپاتا تھانہ ہو سکتا تھا۔احساس کمتری تھے شاید جو برتری میں ڈھل گئے تھے یا پھر عدم تحفظ
کا احساس ،ہجرتوں اور دربدری کے دکھ،جن کے پیچھے آج کی نہیں صدیوں کی خونچکاں حکائتیں چھپی تھیں۔۔۔۔وہ ہر سال بمبئی سے جو دکھنے میں کراچی جیسا ہی تھا،مگر یہ کراچی کی کشش تھی یا یہاں پر بسے عزیزرشتے داروں کی ،مگر ہر سال یوم کپور منانے وہ آتا تھا۔وہ یوم کپور سے اِک ہفتہ پہلے جمعہ کو پہنچتا تھا جب سبات تہوار شروع ہو جاتا،سبات تہوار ،یوم سبت جمعہ کی شام ڈھلنے سے شروع ہوتا اور ہفتے کو اگلی رات جب آسمان پہ تین ستارے نظر آنے لگتے ،اِختتام پزیر ہو جاتا۔سلمان داؤدی کے ماموں اور خالہ کے گھرانے کچھ قدامت پرست و قدامت پسند لوگ تھے اور اِن مذہبی روایات کا عقیدت سے اہتمام کرتے ۔یوم سبت کہ جس میں کام کاج سے گریز کیا جاتا اور Malacha کا پورا اہتمام ہوتا اور یوم کپور سے پہلے جو یوم ست ہوتا اسکی خاص طور پہ تیاری کی جاتی داؤدی خاندان میں!آگے پیچھے تو سبت والوں کی طرح بہت سی راہیں نکال ہی لی جاتی تھیں!سلمان داؤدی جب ائرپورٹ سے اترا تو ٹیکسی کا رخ اسنے میوہ شاہ میں موجود یہودی قبرستان کی طرف مڑوا دیا۔۔۔ وہ قبرستان جہاں کراچی میں شاید پہلا اورآخری شیلوم سینگاک ،یہود کی عبادت گاہ، انکے سجدوں نمازوں اور تالمود کی تلاوت کی گواہ ،عمارت ہوا کرتی تھی ۔۔جہاں اسکا ہمنام اس سینگاک کو بنوانے والا سولومن ڈیوڈاپنی شریک حیات کے ہمراہ ابدی نیندسوتا تھاا اور جہاں سلمان داؤدی کے ماں باپ کی ہڈیاں بھی دفن تھیں ۔کراچی کے’’ مسلمان‘‘ہوتے ہی
خاص طور پر ضیائی مارشل لا کی ظلمت کے بعد ایسا ’’مسلم ‘‘ہوا کہ غیر مسلموں کو قبر یں بھی تنگ پڑنے لگیں۔
سلمان داؤدی اور اسکے رشتے دار خوف کی حالت میں جیتے اور مرتے تھے اور اپنی قبروں کو بے نام و نشان
چھوڑ دیتے تھے شناخت کے خوف سے!
اور جب کسی فرد، قوم ،طبقے سے اسکی شناخت چھن رہی ہو تو وہ لاشعوی بقاکے جذبے سے اپنی چھوٹی سے
چھوٹی روایت کو سینے سے لگا لیتا ہے۔۔۔یہی سلمان داؤدی کے خاندان کیساتھ ہوا تھا۔جو لوگ یہاں پاکستان میں رہ گئے تھے وہ اپنی رسوم و روایات سے سختی سے چمٹے ہوئے تھے اور آدھا خاندان مارشل لاء
کے دور میں یہاں سے ہجرت کرکے بمبئی جا بسا تھااور کچھ لوگوں نے بظاہرپا رسی مذہب میں پناہ لے لی تھی!
سلمان داؤدی اِک مخلوط نسل ،مخلوط خون جسکی ماں یہودی تھی اور جسکا باپ صرف اسلئے مسلمان تھا کہ وہ مسلمان گھر میں پیدا ہوا تھا۔وہ اسکی ایرانی انسل ماں فرح داؤدی کا ایسا اسیر ہوا کہ پھر سب کچھ بھول گیا۔
انکی محبتوں کے درمیان کبھی مذہب حائل نہ ہوا تھا۔اسکی ماں بے شک بہت مذہبی عورت تھی اور باپ بس
عید کی نماز تک مسلمان تھا،اِسی لیے انکے گھر میں محبت کے مذہب کی پیروی کی جاتی تھی۔۔۔۔۔اسکی ماں کو شرپکاتی جسکے حلال ہونے پہ اسکے باپ کو کوئی شک نہیں تھا۔وہ تینوں وقت نماز یا سروس کا اہتمام کرتی ،خاص طور پر صبح کی شاخاریت پہ تلمود کی تلاوت اور طویل عبادت ،جس میں توریت اور زبور کی تلاوت بھی شامل
ہوتی تو اسکا باپ ہنستا اور کہتا’’فرح تم ماں کی یاد دِلاتی ہو وہ بھی فجر کے وقت یہی کچھ کرتی تھی‘‘ اور اسکی
حسین ماں اپنا چھوٹا سا ناک سکیڑ کر کہتی
’’شاخاریت ہماری فجر ہی تو ہے‘‘اور کبھی وہ غرور سے محبت بھرے ناز سے کہتی
’’تم لوگوں کی فجر ہماری شاخاریت ہے‘‘تو اسکا باپ محمد اسمائیل اِس ذومعنی بیان پر ہنسے چلا جاتا اورکہتا
’’مجھے بخشو بھئی،میں تو گناہ گار سا ،لادین آدمی ہوں،میں تو سب کو ہی سچا مانتا ہوں اور شاید کِسی کو بھی پوراسچ نہیں سمجھتا‘‘
محمد اسماعیل اور فرح داؤدی کا بیٹا سلمان داؤدی جسکا نام فرح نے بڑی آس اور امید سے اپنے باپ کے
نام پہ رکھا تھا اور اسماعیل کو کہا تھا
’’اسماعیل تم جب اسے سکول داخل کروانا تو اِسکے نام کے ساتھ سلمان دوؤدی بِن اسماعیل لگا دینامگرمجھے اسکا نام اپنے مرحوم باپ کے نام پہ رکھنے کی اجازت دو‘‘
اور محبت کے پیامبر اِسماعیل نے اعلیَ ضرفی سے اسکو اجازت دے دی تھی، پہ کہکر کہ فرح ہماری شاخ پہ
کھِلا یہ پھول ہم دونوں کا ہی ہے،تم جو جی چاہے اِسے کہکر پکارو۔
اور پھر جب فرح داؤدی مارشل لا کی بربر یت کا شکارہوئی ،اسے بھرے بازار میں کوئی ان دیکھی گولی چاٹ گئی تھی تو محمد اسماعیل اسی دِن اصل میں تو مرگیا تھا لیکن دوسال، بمشکل دوسال وہ اپنی زندہ لاش کو
گھسیٹتا پھرااور اپنی زندگی میں ہی وہ برملا کہتا تھا ’’مجھے میری فرح کے پہلو میں دفنانا،ہماری دیوار سانجھی
ہو ،ارے کیا قبریں بھی مسلمان یہودی عیسائی ہوتی ہیں؟تیرے نام پہ یہ کیا دھندے کھلے ہوئے ہیں مولا؟‘‘تو دس بارہ سالہ سلمان داؤدی حیرت سے دیکھتا اور سوچتا تھا کہ اسکے باپ کو کیا ہوگیا ہے، وہ
وہ بظاہرجوان دکھنے والا مرد کیوں اتنی خوفناک باتیں کرتا ہے مگر وہ اس وقت یہ نہیں جانتا تھا کہ اسکا باپ
جینے کی امید کھو چکا ہے اور امید کے بغیر دوسال بھی جی لینا بہت جی داری تھی۔۔ اِک دن چپکے سے وہ آنکھیں موند گیا،اسکے باپ کی تدفین یہودی رسم و رواج کیمطابق ہوئی اور یہودی قبرستان میں اپنی فرح کے پہلو میں ہوئی ،ہاں سلمان داؤدی نے اِک پھولوں بھری مالا جب باپ کے کفن پر ڈالی تو اعتراض کسِی نے بھی نہ کیا کیونکہ وہ تو محمد اسماعیل تھا اور برصغیر کے بسنے والے یہودی بھی اَب اپنےْ ْْْْْْْْْْْْْْمرْدوں کے پاس دوسروں کی دیکھا دیکھی پھول رکھنے لگے تھے۔۔۔تو سلمان داؤدی کی محبتوں اور اشکوں کی حیرت سے بھیگی پھولوں کی مالا پہنے محمد اسماعیل فرح داؤدی کے پہلو میں جا سویا۔۔۔۔
خونی او رننھیالی رشتوں کے باوجود سلمان داؤدی کے لیے جیسے جینے کا جواز ختم ہوگیا تھا۔وہ جیسے اِک اندھی کھائی میں جا گرا تھا ،بس یونہی چپ چاپ بے سمت جےئے جا رہا تھا۔اسکی آنکھ، اندر کی آنکھ اس دن کھلی جب اِک دِن ماموں اور خالہ بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ سلمان داؤدی سولہ برس کا ہونے کو ہے،اَب دوسال بعد اِسکا شناختی کارڈ بنے گا،یہ وقت ہے کہ اَب سلمان کوا عتمادمیں لیا جائے اور اسکے مذہب کا فیصلہ ہونا چاہیے،وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اسکے ننھیالی خاندان نے اسکے والدین کی شادی کو کسِ مشکل سے ہضم کیا تھا،مسلمانوں سے اِک تعصب و نفرت صدیوں سے منتقل ہوتے خون میں ان کے ساتھ گردش کرتا تھا اور یہ تو محمد اسماعیل خود تھا ،اک بہت نرم طبع اور حلیم روح ،مذھب بے زار شخص تھا،اِنتہائی بے ضرر اور فرح داؤدی کے اس کے ساتھ بے تحاشا خوش رہنے
کے باعث اور پھر انھی کے خاندان میں رچ بس جانے کی وجہ سے وہ اسکو گوارا کرنے لگے تھے لیکن اب جب کہ و ہ نہیں تھاتووہ دِل ہی دِل میں سوچتے تھے کہ
اِک یہودی ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا خود کو کیاکہلانا پسند کریگا۔۔۔ شناختی کارڈ کے خانے میں اپنی کیا
شناخت ظاہر کرے گا ،وہ دِل سے چاہتے تھے کہ وہ یہودی کہلایا جائے وہ انکا خون تھا مگر وہ یہ بھی جانتے
تھے کہ اِک مسلم ملک میں، اِک پْر تشد د مسلم ملک میں یہ نا ممکن تھا کہ وہ اپنے اِس حق کو استعمال کرسکے،
اْس دِن پہلی بار سلمان داؤدی نے خود کوکھوجا،وہ اِک نام کی حدتک مسلمان باپ کا بیٹا جِسکا دودھیال کے نام پر دور پار کے چند رشتے دار تھے جو لندن بستے تھے اور اسکے باپ کو کبھی کبھار ملنے آتے تھے تو یہی شکوہ کرتے تھے کہ وہ یہودیوں میں کیوں بس گیا ،اسے اِک یہودن کو مسلمان کرنا چاہیے تھا اوروہ ہنس کر ٹال دیتا،اسے مسلمان باپ کی مذہب سے وابستگی صرف عید کی نماز کے علاوہ کبھی کہیں نظر نہیں آئی تھی، اس نے لاشعوری طور پہ خود کو یہودی ہی سمجھا تھا ،یوں بھی وہ ماں کے قریب تھا کیونکہ اسکا باپ بھی ہر وقت اسکی ماں کے عشق میں کھویا رہتا ،اسکی ماں کی عبادات یوم سبت کا اہتمام،یوم کپورکا سالانہ روزہ اور خصوصی افطاراور اس تہوار کا خصوصی اہتمام،اسکو اپنی جڑیں یہیں ملتی تھیں۔۔۔۔
اسکی ماں اِک سچی دیندار عورت تھی اور اسکے باپ کی محبت نے اسمیں بہت سے تعصبات ختم کردیے تھے
وہ اسے پیار سے بٹھا کر کہتی ’’سلو یہ مسلمان بھی اچھے لوگ ہیں ساتوں قوانین نوح کو مانتے ہیں ،یہ ہدایت یا فتہ ہیں اللہ کے نزدیک‘‘
مگر سلمان داؤدی نے ماں کی موت کیبعد اور پہلے بھی ننھیال کے ساتھ زیادہ وقت بتایا تھا اور پھر ماں کی پراِسرار موت اسکے تعصب ونفرت کو ضرب ہی دیتی رہی۔۔۔
وہ مسلمانوں کو گمراہ اجڈ اور دہشت گرد سمجھتا تھا جو اْسکو اور اسکی ماں کو اتنی اِجازت بھی نہ دیتے تھے کہ وہ اپنا
شیلوم تعمیر کر سکیں ،اْنکا اپنا سینگاک! اْسکی ماں یہ خواب اپنے ساتھ لیکر مرگئی تھی اوراَب یہ خواب اْسکی آنکھوں میں جاگتا تھا۔۔۔
اور اْسی سلمان داؤدی کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ مسلمان کہلائے گا یا یہودی ،وہ اپنے اِس حق کے لیے لڑنا چاہتا تھا ،اْسکی ماں اْسکا باپ اِک خالہ دو ماموں اور بہت سے دوسرے عزیز اگر یہودی قبرستان میں خاک ہوتے تھے تو وہ کیوں خود کو یہودی نہیں کہہ سکتاتھا؟؟!!
مگر اْسکی نانی اور اکلوتی خالہ کو اْسکی جان بہت عزیز تھی ،اْسے خاندان کے کچھ رشتہ داروں کیساتھ بمبئی بھیج
دیا گیا۔۔۔ اْس وقت وہ سترہ برس کا تھا اور اِن چالیس پنتالیس برسوں میں جب وہ تقریبًا ساٹھ کا ہونے کو آیا تھا ،بوڑھا ہوگیا تھا لیکن اپنے تشنہ خواب کیساتھ جیتے اْسے لگتا کہ اْسکی نفرت بالکل حوان اور توانا ہے۔
وہ ہر سال یہودی مہینے تشری کے دسویں دَِن منعقد ہونے والے یوم کپور کو منانے ستمبر اکتوبر میں پاکستان
کراچی اپنے ننھیال آتا تھا اور اِس عہد کو دہراتا تھا کہ وہ یہاں اِک سینگاک تعمیر کرکے اپنی ماں کے لیے
جنت میں اِک گھر تعمیر کرے گا۔
وہ اپنی ماں کی طرح اِک مذہبی آدمی تھا یا شاید مسلمانوں سے نفرت نے اْسے شدیدمذہبی بنا دیا تھا۔وہ اِس کا تجزیہ نہیں کرپاتا تھا۔۔۔۔۔۔
پاکستان کیبعد انڈیا میں بمبئی جیسے بڑے اور مختلف مذاہب اور تہذیبوں کو رچتے بستے دیکھ کر فسادات کی اساس کے پیچھے سیاست کو جانچا ،بزنس کے سلسلے میں لندن پیرس جانے کا اتقاق ہْوا،مشاہدہ و نظر و وسیع ہوا
تو کبھی کھباراِک موازنہ اورتقابل اپنے اندر ہی کھل جاتا ،وہ سوچنے لگتا
’’ہم یہودی مسلمان مردوں کی طرح تھوڑے کٹے ہوئے ،یوم سبت منانے والے ،دِن کی تین شاخاریت شماع اور آمیدہ کی نمازیں ادا کرنے والے جن کو اگردس اِفراد کی جماعت میں پڑھیں تو زیادہ
افضل، حلال گوشت کھانے والے اور سؤر کو حرام جاننے والے،یوم کپور ،کفارے اور مفاہمتی کا دِن،توبہ
کا دِن ،باجماعت خدا سے معافی مانگنے کا دِن ،کا روزہ رکھنے والے ہم یہودی ،اِن مسلمانوں سے جوجمعہ کی نماز اور جمعہ کے روز ملاکاہ کرتے ہیں، پانچ نمازیں پڑھتے ہیں زبیحہ کھاتے ہیں روزے رکھتے ہیں اور اپنی عید پہ ا ﷲکو راضی کرنے کو قربانی کرتے ہیں،ہم اِک دوسرے سے کتنے قریب اور ملتے جلتے ہیں پھر اِک دوسرے سے کیوں اتنی نفرت کرتے ہیں؟!
مگر یہ سوچ بس کچھ پل کی لمحاتی ہوتی پھر اِس پر نفرت و کدورت پوری شدت سے حاوی ہوجاتی!
وہ اِس نفرت کے سفر کا تو شاید کبھی کبھار تجزیہ کرنے بیٹھ جاتا تھا مگر وہ اِن اِشتراکات پہ کبھی غور نہیں کرتا تھا کہ جب وہ یوم کپور کا روزہ افطار کرنے اپنے اہل و عیال کیساتھ بیٹھتاتھا تو میز پر سموسہ کچوری نہ مسلمان تھی اور نہ یہودی،دلہن کا لال جوڑا بھی بے مذہب تھا اور سفید کفن بھی ۔۔۔۔
اْس کو پاکستان آئے پانچ چھ روز ہوچکے تھے جب جاوید مسیح نے ہچکچاتے ہوئے اْسے روکا،اْن کے گھر کے تمام ملازمین عیسائی تھے،جاوید مسیح گھر کے تمام امور کا انچارج بھی تھا اور ڈرا یور بھی!
سلمان نے اْس سے پوچھا اور ہمت بندھاتے بولا
’’بولو جاوید کیا کہنا ہے‘‘
وہ کچھ تذبذب میں بولا
’’صاحب کچھ رقم ایڈوانس میں چاہیے، آپ بیگم صاحبہ سے سفارش کردیں یا پھرآپ گاڈ کے نام پہ دے دو صاحب!‘‘ سلمان کے استفسار پہ اْس نے بتایا کہ دس ہزار چاہیے، وہ حیرت سے بولا ’’جاوید خیریت اتنی رقم کی اچانک کیوں ضرورت پڑگئی جبکہ کچھ روزہی
قبل تم نے تنخوا بھی لی ہے اور گھر میں بھی تم بتا رہے تھے سب خیریت ہے‘‘
جاوید پھر کچھ اٹکا پھر بولا ’’جی جی صاحب سب خیریت ہے مگر پچھلے سال بڑی بیٹی کی شادی کی تھی خیر سے بہت اچھے گھر گئی ہے، دوبئی میں ہوتی ہے اِس دفعہ کرسمس پہ اْسکی پہلی عید جائے گی میری بیوی چاہتی ہے
کہ اْسکے اِک دو اچھے سوٹ آرڈر پہ دے دے بننے کو ،صاحب غریب آدمی تو دوتین مہینے پہلے ہی سوچے
گا نہ خرچے کے بارے میں،کچھ اِس مہینے کرلیں گے کچھ اگلے مہینے ،پھر خیر سے اْسکے ہاں خوش خبری بھی
ہے تو کچھ بچے کو بھی دنیادلانا صاحب، تو خرچہ بہت ہے صٓاب۔
سلمان نے خاموشی سے اْسکی بات سْنی اور جواب دیا ’’اچھا کچھ کرتے ہیں جاؤ میرے لیے ایک ڈرنک بنا کرلاؤ‘‘
جب وہ کمرے سے باہر نِکلا تو سلمان داؤدی نے نفرت اور بے زاری سے اِک ہنکارا بھرا اور بڑبڑایا
’’ہونہہ بنی اسرائیل کی گمراہ بھیڑیں‘‘
جاوید مسیح نے جاتے جاتے یہ بڑابڑاہٹ سْن لی تھی۔۔۔اِس بڑبڑاہٹ میں جو نفرت اور حقارت تھی وہ اْسکہر احساس کوچھیلتی تھی۔وہ اپنی ڈیوٹی جو کہ آج مصروفیت کے باعث رات کی بھی تھی ،اِتوار کی صبح گھر پہنچاتو تھکن اور بے زاری سے اْسکا برا حال تھا،اسکی بیوی شبہیہ مسیح کے سامنے کارنس پہ کینڈل جلائے دعا پڑھ رہی تھی
’’اے مقدس باپ ہمارے ،تیرا نام پاک ہے تو بادشاہ ہے ،ہمیں آج کی روٹی دے دے،زمین آسمان پہ تیری مرضی ہے ،ہمیں برائی سے بچا،تو جلال والا بادشاہ ہے‘‘
بیوی کی دعا نے اْس آگ کو اِک دم تازہ کردیا وہ بھی برابرکھڑا ہو کر لاشعوری طور پہ دْعا دہرانے لگا ورنہ
مذہب اْسکے لیے کرسمس اور کبھی کبھارچرچ میں عشائے ربانی کی دعا تک مختص تھا۔
وہ بیٹھا اِسی کھولن میں تھا’’یہ سلمان داؤدی یہ سالا۔۔اْس نے موٹی سی گالی بکی ،یہ ہمیں بنی اسرائیل کی گمراہ بھیٹریں کہتا ہے ہم مسیح کے ماننے والے وہ خداوند جو سوْلی پر چڑھ کر ہمارا کفارہ دے گیا اور یہ مسیح
کے قاتل ۔۔ یہ سب کبھی نہیں بخشے جائیں گے یہ سب جہنمی ہیں۔۔۔
اور دور بیٹھی اْسکی بیوی سوچتی تھی کہ جاوید جانے کیوں پریشان ہے شاید پیسے نہیں ملے ،آج چرچ سے سسٹرز اور پادری کو بْلایا ہے ،کچھ پڑوس کی عورتیں بھی آجائیں گی کھیر پکا کر اِجتماعی دْعا کرواؤں گی اور وہ مقدس باپ ہم غریبوں کی سنے گا۔
جاوید کچھ دیر کو لیٹ گیا مگر جانے کیوں آج چین نہیں مِل رہا تھا۔وہ شراب کی بوتل کھول کر بیٹھ گیا دوتین
پیک پی لینے کے بعد وہ سْرور میںآگیا۔اِس ملک میں یہ اقلیت سماجی طور پہ تو معدوم و مدغم ہو رہی تھی مگر
یہاں غریب جاوید کو بھی پرمٹ کی نعمت کی بدولت عمدہ شراب نصیب ہوجاتی تھی آج بھی میوہ منڈی
کا سیٹھ محمد خالد آنے والا تھا جواْس سے منہ مانگی قیمت پر بڑھیا شراب خرید لیتا تھا بلکہ کسی وقت ترنگ میں
اور خوش ہو کر اْسکو اِتنے پیسے دے دیتا تھا کہ وہ اپنے لیے بھی اچھی بوتل کھولنے کی عیاشی کر لیتا تھاورنہ رقم
کمانے کا یہ بھی اِک معقول زریعہ تھا وہ اپنے لیے کوئی گھٹیا قسم یا سستی بےئر سے بھی گزارا کرلیتا،غیر قانونی دیسی شراب بھی مِل جاتی مگر بڑھیا عمدہ کے خریدار اْسکو مالا مال کردیتے۔۔۔
سیٹھ خالد کی گاڑی جب اْسکے دروازے پہ رْکی تو چرچ سے آئے لوگ اور پڑوس کی کالی اور گہرے سانولے رنگ کی عورتیں سروں پر شوخ رنگوں کے دوپٹے اوڑھے باہر نِکل رہی تھیں۔۔
وہ خالد سیٹھ کو دیکھکر حیران ہْوا کیونکہ وہ خود بہت کم آتا تھا عموماً اْسکا ڈرائیور آکر پیک کیا بیگ لے جاتا تھا۔وہ آگے بڑھ کر سیٹھ کو سلام کرتے ہوئے بولا ’’سیٹھ آج خود؟
بیگ تیار ہے‘‘
سیٹھ محمد خالد بولا ’’خیر تو ہے جاوید ،یہ گھر میں رش کیسا ہے‘‘ جاوید کچھ عاجزی سے بولا
’’کچھ نہیں سیٹھ میری بیوی نے گھر میں دْعا کروائی ہے کھیر پکا کر‘‘
سیٹھ حیرت سے منہ کھولے اْسے دیکھتا رہا پھر اپنے تھل تھل کرتے بے ہنگم و جود سے پاگلوں کی طرح ہنسنے
لگااِس ہنسی میں طنز تمسخر اورحقارت تھی ۔۔۔ہنستے ہنستے اْسکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پھر اْسی طرح ہنسنے لگا
’’او تم ،تم لوگ۔۔دعا۔۔۔۔اچھاشاوابھئی شاوا‘‘
جاوید کو یہ ہنسی اْسی بڑبڑاہٹ کی طرح اِک طمانچہ لگی جو سیدھا اْسکی روح پہ جالگا۔سیٹھ اپنا سامان لیکر چلا
گیا۔
وہ اندر واپس آکر دوبارہ اْسی درجہ حرارت میں کھولنے لگا ،اْس نے بے قراری میں اِک پیگ اور تیار کیا
’’سالا یہ سیٹھ خنزیر کی اولاد ،ہمیں جانے کیا سمجھتا ہے؟یہ مسلم ہمیں چوڑے عیسائی کہکر بْلانے والے جو
جوگاڈ معاف کرے ،مسیح کو اسکا بیٹا نہیں مانتے اور شراب کو حرام سمجھ کر بھی سیٹھ پانی کی جگہہ اِسے پیتا ہے،جہنمی ہیں یہ سارے ،سیدھے آگ میں جائیں گے۔۔۔ ‘‘
اور سیٹھ محمد خالد بوتلیں لیکر سیدھا میوہ منڈی میں اپنے گودام اور ملحقہ ریسٹ روم پہنچا،بہت بڑے گودام کیساتھ پْر تعیش ریسٹ روم تھاجہاں ہر طرح کا عیش میسرتھا،اِس گودام میں گرتے ریٹوں میں مال زخیرہ کرلیا جاتا اور تیزی کے دِنوں میں نکالا جاتا،مصنوعی تیزی پید ا کرنے والے لوگوں میں اِک نام سیٹھ خالد کا بھی تھا۔۔۔
سیٹھ خالد ریسٹ روم میں بیٹھا پیگ کی چسکیا ں لے رہا تھا ،اْسکی نگاہوں کے سامنے جاوید مسیح کے گھر کا منظر گھوم گیا ،پادری کے ہمراہ ننز اور محلے کی گہری رنگت والی شوخ چیزوں والی عورتیں،وہ دوبارہ ہنستا چلا گیا۔جانے ھنستا تھا یا خود کو تسلی دیتا تھا؟!۱۱۱
’’یہ شودروں کی نسل ،یہ چوڑے یہ عیسائی، ہماری برابری میں گھر میں دعا کروانے لگے ،یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہنے والے مشرک کبھی نہیں بخشے جائیں گے،میں شراب پیتا ہوں لاکھ گناہ گار سہی، مگر ہوں تو کلمہ گو،اْمتی ہوں ہر سال حج کرکے آتا ہوں اِسکا اور میرا کیا مقابلہ ‘‘!
اور اِن نفوس کی اِن صداؤں سے اْوپر ،زمیں آسمان کو گھیرتی پھیلتے سناٹوں میں اِک قدْسی آواز کہتی تھی ’’بے شک اِنسان خسارے میں ہے‘‘۔۔۔۔۔
افسانہ نگار کا تعلق پاکستان کے مشہور شہر فیصل آباد سے ہے ،آپ افسانہ کے ساتھ دیگر اصناف پر بھی بہت بیباکی کے ساتھ لکھتی ہیں)

SHARE