خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم انتہائی خطرناک: جماعت اسلامی ہند

ملک کے شہریوں کی جاسوسی ایک سنگین مسئلہ، محمد علی جوہر یونیورسٹی کو کمزور کرنے کی سازش قابل مذمت

نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے شعبہ خواتین کی سکریٹری محترمہ رحمت النساء نے ننگل گاؤں کی ایک نو سالہ دلت لڑکی کی مبینہ وحشیانہ عصمت دری اور قتل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے بچی کے گھر جاکر اس کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔جماعت نے حکومت سے مجرموں کو جلد از جلد سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ملک میں خواتین کے خلاف جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ہر گھنٹے چار خواتین کی عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں جبکہ ہر تین منٹ میں دو خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی واردات ہوجاتی ہیں۔نربھیا کیس کے بعد ملک میں عصمت دری کے بڑھتے واقعات پر قابو پانے کے لئے جماعت نے جسٹس ورما کمیٹی کو اپنی چند تجاویز دی تھی اور امید ظاہر کی تھی کہ حکومت اپنے شہریوں کو خاص طور پر ’بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ دینے والی سرکار خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں بیداری کا مظاہرہ کرے۔وزارت اقلیتی امور کی جانب سے یکم اگست کو ’یو م حقوق مسلم خواتین‘کے طور پر منائے جانے کے اعلان کی بابت پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محترمہ رحمت النسا ء نے کہا کہ ”ہم اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں،یہ خواتین کے حقوق کا مذاق ہے۔یہ حکومت مسلم خواتین کے لئے بالکل مخلص دکھائی نہیں دیتی ہے۔اگر اس کی نیت صاف ہوتی تو مسلم نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو غلط طریقے پر قید و بند میں نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے سوال پر محض زبانی جمع خرچ کیا جاتا“۔

قبل ازیں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے افتتاحیہ کلمات پیش کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے ملک کے مختلف اہم مسائل پر جماعت کے موقف کواجاگر کیا۔ شہریوں کی جاسوسی کئے جانے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”اسرائلی کمپنی کے فروخت کردہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال ہندوستانی شہریوں کی جاسوسی کے لئے کئے جانے کی خبر پڑھ کر ہمیں بہت افسوس ہوا۔اگر یہ رپورٹ سچ ہے تو یہ ہمارے ان بنیادی حقوق کو نقصان پہچانے والی ہے جن کی ضمانت آئین ہند نے دی ہے۔ اس کی تحقیقات مشترکہ پارلیمانی کمیٹییا سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہونی چاہئے۔“۔کورونا وبا کی تیسری لہر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”شہریوں کو اس بیماری سے بچنے کے لئے حکومت سب کو مفت ویکسین فراہم کرے، ویکسین کی کمی پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے، دوسری لہر کے دوران بڑی تعداد میں جانوں کے ضائع ہونے سے سبق لیتے ہوئے صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرے،  اس کے لئے صحت عامہ کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کرے، مذہبی عبادت گاہیں جو وبائی امراض کے دوران سماجی خدمت کے مراکز بن جاتے ہیں، انہیں کھلے رہنے اور لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مل جانی چاہئے۔اس سلسلے میں ہم بتا نا چاہیں گے کہ جماعت اسلامی ہند ’سہولت مائیکرو فنانس سوسائٹی‘اور دیگر پارٹنر کے تحت ایک فلیگ شپ ’کوویڈ 19 ہینڈ ہولڈنگ پروجیکٹ‘  کا آغاز کیا ہے، اس کا مقصد وبائی امراض سے متاثرہ خاندانوں کی تعمیر نو اور ان کی معیشت کو از سر نو بحال کرنا ہے“۔محمد علی جوہر یونیورسٹی کے صدر دروازے کو منہدم کرنے کے لئے مقامی انتظامیہ کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ”میرے خیال میں اس معاملے کو مناسب طریقے پر نہیں نمٹایا جارہا ہے۔اگر یہ زمینی تنازعہ کا معاملہ ہے تو اسے حکومت کے متعلقہ شعبہ جات کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل کیا جانا چاہئے۔ اس یونیورسٹی کا قیام ریاستی کابینہ کے فیصلے اور یو جی سی کی ہدایات کے تحت عمل میں آیا تھا۔ تعلیم کی اس اہم جگہ میں خلل پیدا کرنا ہمارے طلباء اور ملک کے تعلیمی ماحول کے مفاد میں نہیں ہے۔حکومت کو لازمی طور پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقے کی تعلیم متاثر نہ ہو“۔