مفتی محفوظ الرحمن عثمانیؒ: میدان میں ختمِ نبوت کے غلام آئے

نوراللہ جاوید
(تیسری قسط)
(کورونا وائرس سے صحت یابی کے باوجود وقفے وقفے سے طبیعت خراب ہونے،صحافتی مصروفیات اور گھریلو تقاضے کی وجہ سےتیسری قسط میں کئی ہفتے کی تاخیر ہوگئی۔ انشااللہ اگلی دو یا تین قسطیں جلد سے جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ آپ حضرات سے دعا کی درخواست ہے)

استاذِ محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری‘ ؒ کی یہ بات تاریخی حقیقت ہے۔’’کسی نے استفسار کیا کہ ’دارالعلوم دیوبنداور جامعہ ازہر مصر‘ میں فرق کیا ہے؟ اور ان دونوں میں بڑا ادارہ کون ہے؟‘‘۔استاذ محترم نے جواب دیا کہ’’ وسعت اورشعبہ جات کے اعتبار سے دارالعلوم دیوبند کا جامعہ ازہر سے کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں ہے۔مگر دونوں میں بنیادی فرق ہے ، جامعہ ازہر صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے ۔جب کہ دارالعلوم دیوبند ایک تحریک اور فکر کا نام ہے۔برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں احیائے اسلام کی تحریک کا نام دیوبند ہے۔یہی بنیادی فرق دارالعلوم دیوبندکو دنیا کے دیگر تمام تعلیمی اداروں سے ممتا ز کرتی ہے‘‘۔
قاسم العلوم والخیرات حضرت امام محمد قاسم نانوتویؒ کے اخلاص و للہیت کا نتیجہ ہے کہ دو صدیاں بیتنے کے باوجود فکر قاسمیت کی افادیت اور ضرورت کم نہیں ہوئی ہے۔بلکہ اس کی ضرورت اور افادیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔گزشتہ دو صدیوں میں فکر قاسمیت سے وابستگان نے پوری دنیا میں علوم نبوت کی ترویج اور احیائے دین کی جو مخلصانہ کوشش کی ہے وہ اسلامی تاریخ کا سنہراب باب ہے۔’دارالعلوم دیوبند‘ ایک ایسا شجر طوبی ٰہے جس سے پھونٹنے والی شاخیں اپنے آس پاس ہی نہیں بلکہ دوردراز کے علاقوں کو بھی معطراور گل گلزار کرتی ہے۔احیائے سنت اور تحفظ شریعت کی یہ ایسی تحریک ہے جس نے برصغیر میں اسپین کی تاریخ دوہرانے کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔
اس خاک سے اٹھنے والا ہرایک ذرہ اپنی جگہ آفتاب وماہتاب بن کر چمکا۔ہرایک نے اپنی وسعت اور صلاحیت کے اعتبار احیائے دین کے مشن کوآگے بڑھایاہے۔ اس مشن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وابستگانِ دارالعلوم دیوبند نے جہاں علوم نبوت ترویج و ترقی کی ہرممکن کوشش کی وہیں اسلام دشمنوں کے ہروار کا مقابلہ میدان میں آکرکیا ہے۔’’دارالعلوم دیوبند‘‘ تحریک احیائے اسلام کی سب سے بڑی تحریک اس لئے بھی ہے کہ اس کےوابستگان خود کو طالبان علوم نبوت کی خدمت تک محدود نہیں کیا بلکہ ضرورت اور زمانے کے تقاضے کے اعتبار سےمختلف میدانوں میں جاکر کام کیا ہے۔جہاد، تصنیف و تالیف، تعلیمی اداروں کا قیام، اصلاح معاشرہ اور فتنہ ارتداد وہ شعبے ہیں جس میں وابستگان دیوبند نے عظیم خدمات انجام دئیے ہیں ۔
’’فکرقاسمیت کے امین‘‘ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی خدمات کا دائرہ کار صرف جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے قیام اور اس کی ترقی تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کا میدان عمل بہت ہی وسیع ہے ۔یقیناً جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ ان کے خوابوں کا تاج محل اوران کی فکر کا محور ہے ۔تاہم امام قاسم نانوتویؒ کی فکرسے عشق کی حدتک لگائوکا ہی نتیجہ ہے کہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ نے مختلف جہتوں سے دین مبین کی خدمت کی ہے۔تحفظ ختم نبوت،تحریک پیام انسانیت، انسانی خدمات ، عوامی بیداری اور ملک کی سالمیت اور بھائی چارہ کےلئے قومی اتحاد کی کوششیں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی خدمات کا روشن عنوان ہے۔
تحریک ختم نبوت اور مفتی محفوظ الرحمن عثمانی
ایک مومن کےلئے اس سے بڑھ کر اعزاز اور خوش نصیبی کیا ہوسکتی ہے کہ تحفظ ختم نبوت کی تحریک وہ حصہ شام ہوجائے اور وہ اس قافلہ با صفا کاسپاہی بن دنیا سے رخصت ہوئے جس کی صف بندی خلیفہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر کی تھی ’’ینقض الدین وانا حی‘‘ دنیا مٹ جائے اور میں زندہ رہوں۔جس تحریک ختم نبوت کےلئے حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجی ؓنے یہ کہتے ہوئے شہادیت پیش کی
’’حبیب بن زید… الانصاری الخزرجی… ھو الذی ارسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی مسیلمۃ الکذاب صاحب الیمامۃ، فکان مسلیمۃ اذا قال لہ اتشھد ان محمدا رسول اللہ قال: نعم واذا قال اتشھد انی رسول اللہ قال انا اصم لا اسمع ۔ففعل ذلک مراراً، فقطعہ مسیلمۃ عضوا عضوا، فمات شھیداً‘‘
’اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ‘کے جلد نمبر 1صفحہ 370
محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے اخیر دور سے لے کر اب تک سیکڑوں جھوٹے مدعیان نبوت نےتحفظ ختم نبوت پر حملہ کرنے کی ناپاک جرأت کی ،مگر ہردو ر میں اکابرین امت نے ختم نبوت کے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کا جان پر کھیل کر تعاقب کیا اور اس وقت تک سکون کی سانس نہیں لی جب تک اس فتنے کا قلع قمع نہیں ہوگیا، اور اس کے بعد یہ اعتراف بھی کیا کہ’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ ۔’ناموس رسالت اور ’عقیدہ ختم نبوت‘ مسلمانوں کا صرف جذباتی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے’ عقیدہ ایمان‘ وابستہ ہے اور’ عقیدہ ختم نبوت‘ کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا ہے اور محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ناموس مسلمانوں کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی حفاظت میں ذرہ برابر کوتاہی برداشت نہیں کرسکتا ہے ۔چناں چہ ایمان کی سی ہلکی رمق رکھنے والا مسلمان ناموس رسالت کی توہین اور عقیدہ ختم نبوت کے خلاف معمولی سی سازش کے خلاف اشتعال انگیز ہوجاتا ہے اور اس وقت سکون و راحت محسوس نہیں کرتا جب تک گستاخ کو کیفر کردار تک نہیں پہنچادیتا ہے۔مسلمانوں کا یہی وہ جذبہ ہے جس سے دنیا حیران وپریشان ہے۔مغرب آج تک مسلمانوں کی اس نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
بر صغیر میں ناموس رسالت کی توہین اور عقیدہ ختم نبوت پر حملے برطانوی استعمار کی دین ہے۔ہندوستان میں برطانوی استعماریت کے قیام کے ساتھ ہی توہین رسالت کے واقعات اور جھوٹے مدعیان نبوت سامنے آنے لگے تھے ۔بلکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں تحریک آزادی اور برطانوی استعمار کے خلاف مسلمانوںمیں جذبہ جہاد کو کمزور کرنے کےلئے مرزا غلام احمد قادیانی کو سامنے لایا گیا۔اس نے بتدریج تحفظ ختم نبوت پر حملہ کرتے ہوئے مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو کمزور کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی زندگی میں بھی ناکام و نامراد رہا اور ذلیل و رسوا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوا ۔علامہ اقبال نے غلام احمد قادیانی کو ’’شیخِ کلیسا نواز‘‘ کے لقب سے نوازتے ہوئے کہا کہ نبوت کے جھوٹے دعویدارکا اصل مقصود برطانوی سامراج کی کاسہ لیسی کرنا ہے اور اْن کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے ۔
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
فتویٰ ہے شیخ کا، یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میںاب رہی نہیں تلوار کار
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر؟
غلامی اور اقتدار سے محرومی کے احساسات کے باوجود مسلمانوں نے برطانوی استعماری دور میں دبائو اور حکومت کے زیر اثر آئے بغیر ناموس رسالت کی توہین کرنے والوںاور عقیدہ ختم نبوت کے خلاف سازش کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے ۔غلام احمد قادیانی کے کفر اور اس کے فتنے کے خلاف امت مسلمہ کا سواد اعظم ہمیشہ متحد ہوکر اس کو کافر قرار دیا ۔فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کیلئے امت کا ہر ایک فرد اپنے حصے کا چراغ رو شن کیا ہے۔برصغیر میں’’ فتنہ قادیانیت اور امت مسلمہ کی جد و جہد‘‘تاریخ کا وہ روشن باب ہے جو مسلمانوں کے فکری و عملی اتحاد سے منور ہے۔ مسلمانوں نے اپنے خون سے اس تاریخ کو روشن کیا ہے اور جب بھی فتنہ قادیانیت سر اٹھایاہے تو پوری مستعدی اور ذمہ داری کے ساتھ علمائے کرام اور امت مسلمہ کے باشعور عوام نے متحد ہوکر مقابلہ کیا ہے ۔یقینا علمائے دیوبند ہمیشہ تحریک تحفظ ختم نبوت میںاول دستہ کا رول ادا کیا ۔
شمالی بہار کا سیمانچل علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے مگر جغرافیائی اور نیپال کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سیلاب کی زد پر رہتا ہے۔اس کی وجہ سے یہاں کے عام مسلمان معاشی اعتبار سے کمزور ہیں۔انگریزی دور میں بھی اور آزادی کے بعد بھی اس علاقے کو صرف اس وجہ سے نظرانداز کردیایہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ علاقہ باشعور مسلم سیاسی قیادت سے محروم رہا ۔چوں کہ معاشی اعتبار سے کمزور تھے تو تعلیمی اعتبار سے بھی پسماندگی کے شکار ہوگئے ۔مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ دہائیوں میں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی اور دیگر باشعور افراد کی کوششوں کی وجہ سے سیمانچل میں مسلمان شعوری اعتبار سے بیدار ہوئے ہیں اور تعلیم کی طرف رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔تاہم مسلمانوں کی اکثریت غربت زدہ کے شکار اور تعلیمی پسماندگی کے شکار ہونے کی وجہ سے عیسائیت اور قادیانیت کےلئے یہ علاقے ہمیشہ نرم چارہ رہا ہے ۔دولت کی حرص و طمع کے ذریعہ مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بہار کے اس خطے میں میں قادیانیوں کی سرگرمیاں کوئی نہیں ہےبلکہ 20ویں صدی کے آغاز میں قادیانیت پوری آب و تاب کے ساتھ اس علاقے میں اپنی سرگرمیاں اس عزم کے ساتھ شروع کیا تھاکہ شمالی بہار کے اس خطے کو مکمل طور پر قادیانیت کے زیر اثر کردیا جائے گا۔یہاں کے مسلمانوں کی بیشتر آبادی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی تسلیم کرلے گی ۔یہ وہ دور ہے جب تحریک آزادی زوروں پر تھی۔خلافت تحریک کا غلغلہ پورے ہندوستان تھا ۔برطانوی اقتدار کے سورج کے غروب ہونے کے آثار نظر آنے لگے تھے ۔اس لئے مسلمانوں میں انتشار پھیلانے اور ان میں جذبہ جہاد کو سردکرنے کےلئےبرطانوی اقتدار کی سرپرستی میں بہار کے اس خطے میں قادیانیوں کی سرپرستی کی گئی۔قادیانی پرعز م اور پرامید تھے کہ وہ اپنی اس تحریک میں کامیاب ہوجائیں گے۔مگر اپنے وقت کے عظیم روحانی شخصیت اور جید عالم دین فضل الرحمن گنج مرآبادی نے اپنے لائق ترین مرید باصفا حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ کو بہار کی سرزمین سے قادیانیت کا قلع قمع کرنے کےلئے انتخاب کیا اورانہیں ہدایت دی کہ کانپور، لکھنو کے قیام کو ترک مستقل طور پر مونگیز میں فروکش ہوجائیں اور اس پورے خطے سے قادیانیت کا قلع قمع کردیں ۔اردو و عربی کے عظیم ادیب اور خانوادہ حسنی کی عظیم شخصیت مولا نا محمد الحسنی ؒنے اپنی کتاب ’’۔سیرت مولانا محمد علی مونگیر ی‘‘ میں حضرت مولانا مونگیری رحمہ اللہ کی قادیانیت کے خلاف خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ’ زندگی کے آخری سالوں میں ان کی زندگی کا مشن ہی قادیانیت کا قلع قمع کرنا ہوگیا تھا۔ان کی انھتک محنت اور خلو ص و للہیت اور ختم نبوت کے تحفظ کے تئیں وارفتگی کی وجہ سے نہ صرف مونگیر اور بھاگل پور (اس وقت یہ دونو ں اضلاع کئی سب ڈویژنوں پر مشتمل تھا)میں قادیانیت کو منھ کی کھانی پڑی بلکہ اس کے اثرات دیر پا مرتب ہوئے، بہار اس فتنے سے محفوظ ہوگیا ۔قادیانیوں کو اپنے آقائوں کی سرپرستی اور رہنمائی کے باوجود بہار میں منھ چھپانے کی جگہ نہیں ملی۔مولانا محمد الحسنی ؒ نے اس دور میں ہونے والے ایک یادگا مناظرہ کی روادار بہت ہی دلچسپ انداز میں بیان کیاہے ۔مونگیرمیں منعقد ہونے والے اس مناظرے میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہرعلوم سہارن پوراور ندوۃ علما کے اکابرین مولانا مونگیریؒ کی مدد اور تعاون کے لئے مونگیر پہنچ گئے۔ گویا مونگیر ستاروں کی جگمگاہت سے منور ہوگیا تھا۔ ’’مولانا مونگیری اور قادیانیت‘‘ میں اس مناطرے کی روادا کچھ اس طرح درج ہے:
یہ مناظرہ 1906 میں ہوا جس میں تقریباً چالیس علماء شریک ہوئے ،مرزا قادیانی کی طرف سے حکیم نورالدین وغیرہ آئے اس کی تفصیل یہ ہے کہ مرزا صاحب کے نمائندے حکیم نورالدین صاحب ، سرورشاہ صاحب اور روشن علی صاحب ،مرزا صاحب کی تحریر لے کر آئے کہ ان کی شکست میری شکست ہے ،ان کی فتح میری فتح ہے ۔ا س طرف سے مولانا مرتضی حسن صاحبؒ ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند ، علامہ انورشاہ صاحب کشمیریؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، مولانا عبد الوہاب بہاریؒ ، مولانا ابراہیم سیالکوٹیؒ تقریبا چالیس علماء بلائے گئے ، لوگوںکا بیان ہے کہ عجیب منظرتھأ صوبہ بہار کے اضلاع کے لوگ تماشائی بن کرآئے تھے ، معلوم ہوتا تھا کہ خانقاہ میں علماء کی بارات ٹھہری ہے، کتابیں الٹی جارہی ہیں، حوالے تلاش کئے جارہے ہیں اور بحثیں چل رہی ہیں ، سوال پیدا ہوا کہ مولانا محمد علی مونگیریؒ کی طرف سے مناظرہ کا وکیل اور نمائندہ کون ہو ؟ قرعہ فال مولانا مرتضی حسن صاحب کے نام پڑا، آپ نے مولانامرتضی حسن صاحب کو تحریرا اپنا نمائندہ بنایا ، علماء کی یہ جماعت میدان مناظرہ میں گئی وقت مقرر تھا۔ اس طرف مولانا مرتضی حسن صاحب اسٹیج پر گئے اور اس طرف آپ سجدہ میں گئے ، اور اس وقت تک سر نہ اٹھایا جب تک کہ فتح کی خبر نہ آگئی ، بزرگوں کا کہنا ہے کہ میدان مناظرہ کا عجیب منظر تھا مولانا مرتضی حسن صاحب کی ایک ہی تقریر کے بعد جب قادیانیوں سے جواب کا مطالبہ کیا گیا تو مرزا قادیانی کے نمائندے جواب دینے کے بجائے انتہائی بدحواسی اور گھبراہٹ میں کرسیاں اپنے سر پر لیے ہوئے یہ کہتے بھاگے کہ ہم جوا ب نہیں دے سکتے ۔( مولانا محمد علی مونگیری اور قادیانیت صفحہ 19)
اس دور میں مولانا مونگیر ی رحمہ اللہ کا یہ جملہ بہت ہی مشہور ہوا تھا کہ قادیانیت کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پرلٹریچر شائع کئے جائیں کوئی بھی مسلمان جب صبح میں اٹھے تو ان کی نظر سب سے پہلے قادیانیت کے خلاف کتابچے پر پڑے۔چناں چہ انہوں نے اس دور میں مونگیر میں مطبع خانہ قائم کیا جہاں صرف اور صرف قادیانیت کے خلاف کتابیں شائع ہوتی تھیں ۔ایک اندازے کےمطابق مولانا مونگیری نے سوسے زاید چھوٹی اور بڑی کتابیں تصنیف اور شائع کیا اور بڑے پیمانے پر علاقے میں تقسیم کیا۔تہجدکے وقت بھی مولانا قادیانیت کے خلاف کتابیں لکھتے تھے۔
ایک صدی بعد ایک پھر قادیانیت نے اسی علاقے کو نشانہ بنایا۔کوسی ندی کے دامن میں واقع ضلع سوپول کا کلکٹر عقیدۃ قادیانی تھا اس نےاپنے عقیدہ کو چھپاکر مسلمانوں میں اپنی پکڑ مضبوط بنائی ۔اس نےسرکاری ذمہ داریوں کی آڑ میں چالاکی کے ساتھ قادیانیت کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ۔سیمانچل کے پسماندہ آبادی کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کےنام پردام فریب میں لیا جارہا تھا۔پوری شدو مد کے ساتھ قادیانیت اپنے کام میں مصروف تھا۔21ویں صدی کے پہلی دہائی کے اواخر میں قادیانی فتنہ پورے آب و تاب کےساتھ صرف ضلع سپول ہی نہیں بلکہ آس پاس کے اضلاع میں سرگرم ہوچکی تھی۔ہلکی سی لاپرواہی ارتداد کے سیلاب کو بے قابو میں کرسکتی تھی۔ان حالات میں’’ تحریک تحفظ ختم نبوت‘‘ کی قیادت و سیادت کےلئے قرعہ نیک فال مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒکے نام نکلا۔کرشمہ قدرت نے ان کا انتخاب کیا اور یہ انتخاب صحیح ثابت ہوا۔انہوں نے پوری درد مندی اور جاں فشانی کے ساتھ اس فتنے کا قلع و قمع کیا۔ حضرت مولانا محمد علی مونگیری کی تحریک ختم نبوت اور مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی تحریک کا موازنہ کسی بھی درجہ میں قرین انصاف نہیں ہے۔مگر یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے حضرت مونگیریؒ کی تحریک کے نقش قدم پر چل کر ایک صدی بعد قادیانیوں کوان کے انجام تک پہنچایا ہے اور امید ہے کہ پھر اس علاقے میں قادیانی سر اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔حضرت مونگیری ؒکے فرزندارجمند ہندوستانی مسلمانوں کے بے مثال قائد حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی تصنیف کردہ ’’مولانا مونگیری اور قادیانیت ‘‘نامی کتاب میں حضرت مونگیری ؒ کی تحریک جو تفصیلات موجود ہے اس کے تناظر میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دونوں تحریک میں مماثلت تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا اسی سلسلۃ الذہب کی اہم کڑی تھی ۔ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ کے پیش نظر حضرت مونگیریؒ کی کامیاب تحریک کی مکمل تفصیل موجود تھی اور انہوں نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے حضرت مونگیری کے طرز عمل پر ہی قادیانیت کے خلاف تحریک چلاکر کامیاب و کامران رہے ۔
مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ کی ’’ تحریک ختم نبوت ‘‘تین حصوں پر مشتمل ہے، قادیانی کلکٹرشرف الدین کا فتنہ سامنے آنے کے بعد انہوں نے دیوبند، سہارن پور ، لکھنو گجرات اور ملک کے دیگر حصوں کے اکابرین کے ساتھ ہندوستان کے موقر تنظیموں جمعیہ علما ہند، امارت شرعیہ پھلواری شریف، جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو خطوط لکھ کر زمینی حقائق سے آگاہ کیا ۔اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کے شعبہ ختم نبوت کی نگرانی میں قادیانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے شعبے نشرو اشاعت کے ذرحعہ قادیانیت کے خلاف بڑے پیمانے اردو اور ہندی میں لٹریچر شائع کیا گیا۔مولانا محمد علی مونگیریؒ کے قول مطابق کوشش کی گئی علاقہ کا کوئی تعلیم یافتہ مسلمان نہ رہے جن کے ہاتھوں میں قادیانیت کے خلاف لٹریچر نہ ہو۔
اس موقع پر کئی ایسی کتابیں شائع کی گئیں جو نایاب ہوگئی تھیں مگر قادیانیت کے خلاف بہت ہی مدلل کتاب تھی۔ان میں علامہ نور محمد تانڈویؒکے پانچ رسالے شامل ہیں۔ ان رسالوں’کذبات مرزا، مغلظات مرزا، اختلافات مرزا ، کفریات مرزا اور کرشن قادیانی آریہ تھے یا عیسائی ‘‘ میں مرزا غلام احمد قادیانیوں کے کتابوں کے حوالوں سے ہی اس کے کذب و فریب اورمرزا غلام احمد قادیانی کے کردار وعمل کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیاہے۔ انبیا علیہ السلام اپنے کردار و عمل کے اعتبار سے دنیا کا سب سے افضل ترین انسان ہوتے ہیں۔ایک نبی سے جھوٹ ، لغویات، کفریاتی جملے کا تصور تک نہیں کیا جاتا ہے۔جب کہ مرزا غلام احمد قادیانی ان تمام رذائل خصوصیات سے متصف تھا۔علامہ نور محمد تانڈوی ؒ کے ان رسالوں کی مفتی محفوظ الرحمن عثمانی از سرنو کمپوزنگ ، تصحیح اور حوالہ جات کے ساتھ شائع کیا۔اپنے وقت کے جید عالم دین حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن کاندھلویؒ ان رسالوں کی از سر نو اشاعت پر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ کی کاوشوں کی اس انداز میں سراہنا کی ہے۔
مولانا نور محمد صاحب ؒ کی یہ کتابیں 75سال پہلے چھپی تھیں ، ان سے بہت فائدہ ہوا تھا، جس مقصد کےلئے یہ کتابیں لکھی گئی تھیں ان میں غیر معمولی کامیابی ہوئی تھی مگر ادھر ایک عرصے سے کم یاب ہوگئی تھیں اور ضرورت تھی کہ ان کو دوبارہ کمپوزنگ اور کسی قدر تصحیح کے ساتھ شائع کرکے وقف عام کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کو جزائے خیرعطافرمائے کہ مولانا نے ان سب کتابوں کو پوری نظرثانی اس کے حوالوں کا اصل کتابوں سے دوبارہ مقابلہ کرکے مرزاقادیانی کی تصانیف کے مجموعے ’’روحانی خزائن‘‘ کے صفحات کا حوالہ دیے دیا ہے، یہ اس لئے ضروری تھا کہ اب مرزا غلام احمد قادیانی کے کتابوںکی پرانی طباعت بہت کم اور مشکل سے ملتے ہیں اور بعض دفعہ ان کے حوالوں سے قادیانی انکار کردیتے ہیں ۔کیوں کہ یہ کتابیں کئی مرتبہ چھپی ہیں اور ان کے صفحات کی ترتیب الگ الگ ہیں ۔مگر روحانی خزائن کی طباعت ایک ہی ہے اور یہ ان کی کتابوں کا مستند مجموعہ ، اس کے حوالوں سے انکار ممکن نہیں ہے۔
(مجموعۃ القاسم ۔جلد سوم :تحفظ ناموس رسالت صفحہ 551)
حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ کے خلیفہ قاضی اشرف حسین رحمانی ؒ کے ایک قریبی تعلقات کا ایک شخص فتنہ قادیانیت کے فریب میں آگیا،قاضی اشرف حسین نے اپنے اس شناسا کو خط و کتابت کے ذریعہ قادیانیت کے فتنے کو بے نقاب کرکے ارتداد سے توبہ کرنے کی دعوت دی ۔اس شناسا نے پہلے خط کے جواب میں قادیانیوں کے دعویٰ کو پیش کیا اور اس کے بعد قاضی اشرف حسین نے دوسرا جوابی خط لکھا جس میں ان تمام اعتراضات کا مدلل جواب تھا۔چوں کہ مخاطب شناسا و تعلقات کا تھا اس لئے انتہائی ملاحت اور ہمدردانہ لہجے میں مخاطب کیا گیا۔ان دونوں خطوط کی اہمیت کے پیش نظر ایک صدی قبل 1331ہجری میں جامعہ رحمانی مونگیرنے کتابی شکل میں شائع کیا۔مگر یہ کتا ب نایاب ہوگئی۔تاہم دارالعلوم دیوبندکے شعبہ ختم نبوت کے ناظم مولانا شاہ عالم گورکھپوری کے پاس ایک نسخہ تھا۔انہوں نے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کے حوالے کرکےشائع کرنے کی درخواست دی۔یہ کتاب اس لئے بھی اہم تھی کہ چوں کہ قاضی اشرف حسین رحمانی کا تعلق بھی ضلع سپول سے ہی تھااور کتاب میں لہجہ و بیان میں اس علاقے کا اثر نظر آتا ہے۔ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ بزرگوں کے میراث کی حفاظت کے معاملے میں وہ ہمیشہ حریص رہے ہیں ۔ جب ان کے ہاتھ یہ کتاب لگی انہوں نے اس کو بہت ہی اہتمام سے شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی علاقے کے مشہور عالم دین اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا صغیر رحمانی کو ذمہ داری سونپی کہ کتاب کے ساتھ قاضی اشرف حسین کے احوال کو بھی ذکر کیا جائے۔ مولانا صغیر رحمانی لکھتے ہیں
حضرت مونگیریؒ کے ایک مرید با صفا جناب قاضی اشرف حسین ؒ سپول بہار کے رہنے والے تھے، آپ کی تحریر اور کارناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک عظیم انسان اور سپول کے علاقے میں تحفظ ختم نبوت کے بے باک مجاہد تھے۔تقریبا ایک صدی قبل قاضی صاحب کا خط جو ’’جواب حقانی‘‘ کے نام سے طبع ہوا تھا ،اس کی حصول یابی اور دور حاضر میں استفادہ کے قابل بنانے کا سہرا حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپوری کے سرجاتا ہے۔ جنہوں نے بڑی جدو جہد کے ساتھ حیدرآباد سے حاصل کرکے طباعت کےلئے عزیز مکرم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب کے حوالے کیا۔
عزیر گرامی مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی سعادت مندی کی بات ہے کہ موصوف نے اپنے بزرگوں کی علمی میرات کو قدردانی کی نگاہ سے دیکھا اوراسے منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔ان ہی کے حکم سے ناچیز قاضی صاحب کی سوانح حیات کو سرکاری کاغذات کی مدد سے نکال کر مرتب کرنے کی کوشش کی ۔اس سوانحی خاکہ حصول یابی کے سلسلے میں تمام تر مالی مصارف مفتی صاب نے ادا کئے فجزاہم اللہ خیرا
(جواب حقانی)
علامہ نور محمد تانڈوی کے رسالے اور قاضی اشرف حسین رحمانی کی کتاب ’’جواب حقانی ‘‘کے بعد جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے ترجمان ماہنامہ معارف قاسم کا ناموس رسالت کی اشاعت اس تحریک ختم نبوت کی سب سے اہم کڑی ہے۔ایسے تو ماہنا معارف قاسم نے کئی تاریخی خصوصی نمبرات شائع کئے ہیں جو دنیا بھر میں مقبول ہوئے ہیں ، اب ان خصوصی نمبرات کو مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے ’’مجموعۃ القاسم ‘‘ سیریز کے نام سے 6 جلدوں میں شائع کیا ہے۔ میری خوش نصیبی تھی کہ مرحوم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے مجموعۃ القاسم کی اس سیریز اور دیگر خصوصی شمارے کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کی ذمہ داری دی ۔کچھ تاخیر سے ہی صحیح میں نے 400 صفحات پر ’’ گل و لالہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کردی۔ مگر کورونا وائرس کی وجہ سے یہ کتاب وقت پر شائع نہیں ہوسکی اور اس درمیان حضرت مفتی بھی اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔معارف قاسم کا ناموس رسالت نمبر کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں تحفظ ختم نبوت، قادیانیت کے علاوہ ناموس رسالت کی حفاطت سے متعلق تحقیقی مضامین شائع کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ مجموعہ قاسم سیریز میں معارف قاسم کے اس خصوصی شمارے کے ساتھ ساتھ مختلف چھوٹے چھوٹے رسالے ، بالخصوص علامہ تانڈوی اور قاضی اشرف حسین کی کتاب جواب حقانی کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔ نامو س رسالت، ختم نبوت اور قادیانیت سے متعلق ایک ساتھ علمی مضامین نہیں ملتے ہیں۔ مگر یہ حضرت مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی تخلیقی ذہن کا کمال ہے کہ انہوں نے 951 صفحات پر مشتمل مجموعۃ القاسم کی اس سیزیز کو جامع طور پر مرتب کیا ہے۔اس کےلئے ان کے معاون و معارف قاسم کے ایڈیٹر برادر مکرم شہاب الدین ثاقب قاسمی بھی شکریہ کے مستحق ہیں ۔
مفتی عثمانی کی تحریک ِختم نبوت کا دوسرا حصہ بڑے پیمانے پر نوجوان علما کی تربیت ہے۔ 2008 میں 21/20 اور 21 نومبر جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ میں دارالعلوم دیوبند کے تعاون سے سہ روزہ تربیتی کیمپ انعقاد کیا گیا۔یہ اجتماع اس اعتبار سے تاریخی تھا اس میں پورنیہ کمشنری، کوسی کمشنری، بھاگل پور کمشنری کے پانچ سو سے زاید نوجوان علما کی تربیت دی گئی۔ان علما ئے کرام کو دارالعلودیوبند کے تعاون سے موضوع سے متعلق کتابیں دی گئیں ۔ اس کے علاوہ سپول ، ارریہ ، کٹیہار ،بھاگل پور اور مونگیر میں کیمپوں کا انعقاد اور چھوٹے چھوٹے جلسے کا انعقاد کیا۔چوں کہ فتنہ قادیانیت کو حکومت کے سینئر آفیسرس کی سرپرستی حاصل تھی اس لئے ان پروگراموں کا انعقاد کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ اس کےلئے انہیں مختلف چیلنجوں اورمشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کے عزم مستحکم اور یقین کامل کے سامنے تمام چیلنج ہوا ہوائی ہوگئے ۔ یقین کامل ، جہد مسلسل اور عزم مستحکم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی وہ خصوصیات ہیں جس کے بدولت انہوں نے محض تین دہائیوں کئی اہم معرکے سر کئے ہیں ۔بقول اقبال
یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے
مفتی محفوظ الرحمن عثمانی یقین کامل کے بدولت جب کسی کام کا ارادے کرلیتے تپے اس وقت تک پرسکون نہیں ہوتے جب تک وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ جاتا۔وہ استقامت کے پہاڑ تھے،ان کے پائے ثبات میں کبھی معمولی سی لغزش یا ادنیٰ سا ارتعاش پیدانہیں ہوتا تھا۔ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی قیادت میں جب یہ تحریک چل رہی تھی اس وقت سیمانچل کا یہ علاقہ تاریخ کے بھیانک ترین سیلاب کی زد میں تھا۔ لاکھوں ایکڑ کاشت کی زمین تباہ و برباد ہوگئے۔ گاؤں کے گاؤں پانی میں ڈوبے ہوئے تھے ،ریلیف اور راحت رسانی کی آڑ میں قادیانیت اپنےپیر جمانے کی کوشش میں تھے ۔ ان حالات میں کیمپوں کا انعقاداور متاثرہ افراد تک پہنچنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ سرمایہ اور حالات کی بے سروسامانی کے باوجود بلند عزائم اور یقین کامل کے ذریعہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ان افراد تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جوفتنہ ارتداد کے شکار ہوگئے تھے۔براعظم ایشیا کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے شعبہ ختم نبوت کے ناظم مولانا شاہ عالم گورکھپوری جو اس وقت مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی معاونت کررہے تھےیہ گواہی کہ ’’سیلاب کی صورت حال انتہائی بھیانک تھی، علاقے کا علاقہ زیر آب تھا، کوئی بھی پروگرام اور دورے کرنے سے ہمت جواب دے رہی تھی مگر تحفظ ختم نبوت کے تئیں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی عزم و استقلال تھا کہ ان حالات میں قادیانیت کا تعاقب کیا اور کیمپوں کے انعقاد کو یقینی بنایا ‘‘۔ مولانا شاہ عالم گورکھپوری کا یہ بیان مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی دلسوزی اور تڑپ کی شہادت دیتی تھی۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو، تو نہیں قوت فولاد
تحریک ختم نبوت کے تئیں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ؒ کا خود اپنا موقف تھا کہ
’’تحفظ ختم نبو ت امت کے ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے ، اگر یہ داعیہ باقی رہا تو یہ سرزمین ، یہ کائنا ت، یہ چمن ،فلک ، بہتی ہوئی دریا، سمندر، چرند و پرند جنگل و صحرا اور ساری چیزیں پرامن اور خوشگوار ہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی حفاظت کرنے والے کوتاہ ثابت ہوئے اور عقیدہ کی ایک اینٹ کھسکتی ہے تو جس طرح کوئی عمارت بنیاد کی ایک اینٹ کے کھسکنے کے بعد باقی نہیں رہتی ہے ۔ اسی طرح عقیدہ کی اہم اینٹ تحفظ ختم نبوت کے کمزور ہونے سے کائنات کا ذرہ باقی نہیں رہ سکتا ہے۔
یاد رکھئے!انسانیت کی بقا کی حقیقی ضمانت ناموس رسالت کی حفاظت میں مضمر ہے جہل و نادانی ، کج فہمی اور معاشی تنگی انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے اس لئے ہرطرح سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔تاکہ کوئی ان کے ان کے ایمان پر ڈاکہ نہ ڈال سکے‘‘ ۔
(مجموعۃ القاسم ۔جلد سوم :تحفظ ناموس رسالت صفحہ 542)
مفتی محفو ظ الرحمن عثمانی ؒ کی تحریک ختم نبوت کو درالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارن پور اور دارالعلوم ندو ۃ علما لکھنو کے اکابرین کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل تھی ۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مفکر ملت حضرت مولانا محمد رابع حسنی ضعف اور بیماری کی وجہ سے کیمپوں میں شریک نہیں ہوئے مگر انہوں نے اپنے پیغام میں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی خدمات کی سراہنا کرتے ہوئے تحریک ختم نبوت کےلئے ان کی کاوشوں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔درالعلوم دیوبند تو اس پوری تحریک کی سرپرستی ہی کررہا تھا۔شعبہ ختم نبوت کے ذمہ داران حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصوری پوریؒ سابق صدرجمعیہ علما ہند اور مولانا شاہ عالم گورکھپوری اور ان کے رفقائے کار پوری تحریک کے دوران ساتھ میں موجود تھے۔
اس دور میں مفتی عثمانی حسن اسلوبی اور جانفشانی کے ساتھ فتنہ قادیانیت کے خلاف تحریک میں کامیابی حاصل کی وہ آج کے نوجوان علما اور ارباب مدارس کےلئے ایک سبق ہے۔مدارس کے ذمہ داران اپنے آس پاس کی آبادی سے قطع نظر کرسکتے ہیں ۔انہیں علوم دینہ کی ترویج کے ساتھ مقامی مسلمانوں کے ایمان اور انہیں صراط مستقیم پر قائم رکھنے کی فکر کرنے چاہیے۔ چناں چہ ہرایک مدرسےمیں دعوت و تبلیغ اور رفاہی کاموں کا مستقبل شعبہ ہونا چاہیے اور ان شعبوں کے ذریعہ مقامی مسلمانوں کو ارتداد سے بچایا جاسکتا ہے۔حضرت مفتی محفوظ الرحمن عثمانیؒ کی یہ خدمات انشا اللہ وہاں کام آئیں گے جہاں اس کے علاوہ کچھ بھی کام نہیں آتے ہیں ۔تحریک ختم نبوت اور ناموس رسالت کےلئے مرمٹنے کا جذبہ ہی کسی کی بخشش ومغفرت کےلئے کافی ہے۔
وہ آئے جب تو دنیا میں اس طرح سے جمگا اٹھی
کہ خورشیددرخشاں جس طرح بالائے بام آئے
وہ ہیں بے شک بشرلیکن تشہدمیں آذانوں میں
جہاں دیکھو خداکے نام کے بعد ان کا نام آئے
کیا جب بھی کسی کذاب نے دعویٰ نبوت کا
جو جھٹ میدان میں ختم نبوت کے غلام آئے
بروز حشر،امیں جب نفسانفسی کا سماں ہوگا
وہاں و ہ کام آئیں گے جہاں کوئی نہ کام آئے

(سید امین گیلانیؒ)

(تیسری قسط)