امیرشریعت کے انتخاب کیلئے ارباب حل و عقد کی قدم بوسی

محمد انعام الحق قاسمی
امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ مسلمانانِ ہند کا اپنی نوعیت کا ایک انوکھا اور اہم ادارہ ہے، جس پرتقریباً اس خطے کی ساری مسلم آبادی بلاتفریق مسلک اس ادارہ کی ایک آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار رہتی ہے۔ اسکی مثال ملک و جمہوریت بچاؤتحریک ہے جسمیں ایک جم غمیر نے دل و جان سے حصہ لیا تھا۔
اس خطے کے مسلمانوں کی عائلی مسائل کے حل کرانے میں ، مسلمانوں کی پہلی ترجیح امارت شرعیہ کی صوبائی سطح پر قائم دار القضاء ہی ہوتے ہیں۔ کافی حد تک مسلمانوں کو اِن اداروں سے انصاف کی توقع ہوتی ہے اور یہ کہ یہاں انہیں قرآن و احادیث کےمطابق انصاف ملے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی۔ حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ کے دور میں اس خطے میں مسلمانوں کا کوئی ایسا گاؤں ، قصبہ یا شہر نہ ہوگا جہاں کے مسلمانوں کو آپ نے امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ سے نہ جوڑا ہو۔قاضی صاحب اور امیر شریعت رحمہ اللہ نے بنفس نفیس ان علاقوں کا دورہ کیا اور شخصی طور پر یہاں کے مسلمانوں کے احوال سے مطلع ہوئے اور بہت سارے پرانے قضایاء جو فریقین کے درمیان دشمنی کا کارن بنے ہوئے تھے چند ایام میں رفع فرمایا۔
قاضی صاحب کے دور ِقضاء کے زمانے میں امارت شرعیہ مردم خیز علماء ، فضلاء اور قضاۃ جو علم و عمل میں اپنے آپ مثال تھے، سے بھرا پڑا تھا جنہوں نے اپنے خون و پسینے سے اس ادارہ کو سینچا اور ترقیوں و کامرانیوں سے ہمکنار کیا۔ ان شخصیات میں مندرجہ قابل ذکر ہیں :
(1) امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمہ اللہ
(2) قاضی شریعت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ
(3) امیر شریعت مولانا نطام الدین قاسمی رحمہ اللہ
(4) امیر شریعت مولانا ولی رحمانی رحمہ اللہ
(5) قاضی شریعت مولانا عبد الجلیل قاسمی رحمہ اللہ
(6) ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی مدظلہ العالی
لیکن ان میں حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ، امیر شریعت مولانا نطام الدین قاسمی رحمہ اللہ اور سابق ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی مد ظلہ کی ٹیم بے مثال تھی ۔ یہ تینوں حضرات ہر میدان کے ماہر و فنکار کھلاڑی تھے۔ انہی کے زیر انتظام امارت شرعیہ نے اپنے اداروں کا جال بچھادیا اور نمایاں کارنامے انجام دیئے۔
 تمام اضلاع کے بڑے شہروں میں دار القضاء کا قیام اور اسکیلئے ایک قاضی کی تقرری ۔
 وہ شہر یا قصبہ جہاں آباد ی کے اعتبار مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں بھی ایک دار القضاء قائم کیاگیا۔
 مختلف اضلاع میں قضاۃ کی ٹریننگ کیلئے ورکشاپ کانظم۔
 پشماندہ علاقے میں مسلمان بچوں اور بچیوں کی تعلیم کیلئے مختلف اسکول کھولے گئے۔
 امت اسلامیہ کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے ان حضرات نے اپنے تن و من و دھن کی بازی لگادی۔
 سیلاب ، آفات ، فسادات کے زد میں آنے انسانوں کی بلاتفریق مذب امداد بہم پہنچانا۔
 مدارس اسلامیہ کی سرپرستی وغیرہ ۔
 غریب و نادار مسلمان بچوں کیلئے اسکالر شپ کانظم، وغیرہ ،
غرضیکہ یہ ٹیم ایک مثالی ٹیم تھی جنہوں نے امارت شرعیہ کی کایا پلٹ دی ۔ پھلواری شریف ، پٹنہمیں امارت کی بلڈنگ ، ٹریننگ سینٹر ، ہسپتال ، مہمان خانہ اور مدرسے یہ سب اسی ٹیم کی جانفشانی کے نتائج ہیں۔ بلاشبہ امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ کو عظمت کی بلندی پر لا کھڑا کرنے میں سابقہ امرائے شریعت، قضاۃ شریعت ، ناظمین امارت شرعیہ کی جانفشانیاں اور مخلصانہ جد و جہد شامل ہے۔
بہت افسوس کے ساتھ یہ حقیقت بیان کرتے ہو ئے خون کے آنسو ں آنکھوں سے رواں ہوجاتے ہیں کہ ان شخصیات کی جانفشانیاں و کاوشوں کو بالائے رکھتے ہوئے ان میں سے چند ایک کے ساتھ ناانصافی برتی گئی اور انکو جبری رٹائرمنٹ دیدی گئی ۔ حق تو یہ تھا حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کے تجربے سے خوب خوب فائدہ اٹھایا جاتا لیکن سابق امیر شریعت صاحب نے انکو جبراً ریٹائر کردیا۔
اپنی بیماری کے آخری ایام میں ایک ایسے شخص کو جو امارت شرعیہ کے امور ، انتظام و انصرام سےبالکل نابلد تھا اور وہ پہلے ہی دارالعلوم وقف جیسے موقر ادارے میں تدریسی خدمت انجام دے رہاتھا اسے نائب امیر شریعت کے عہدے پر لاکر فائز کردیا گیا، اسی دن سے امارت شرعیہ کے ایوان میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
غَنِّم مَن أدًبته الحكمةُ، وأحكمته التجربةُ(تجربہ کار لوگوں کی حکمت و ادب اور انکے تجربے کو غنیمت سمجھو) کے باب سےیہ ہونا چاہیئے تھا کہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کے تجربے کو بروئے لایا جاتا اور اسے امارت شرعیہ کی ترقی کیلئے استعمال کیاجاتا، لیکن انکو جبراً نکالدیاگیا۔ بصورتِ دیگر ہونا یہ چاہئے تھا مولانا انیس الرحمن کو نائب امیر شریعت کے طور پر نامزد کر دیا جاتا، تو امارت شرعیہ میں آجکل جیسے حالات قطعا نہ ہوتے اور بحسن و خوبی بغیر اختلاف امیر شریعت کا انتخاب جو واقعی اس منصب کے اہل ہیں عمل میں آبھی گیا ہوتا۔
ہم یہ پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیا امیر شریعت کے اوصاف کے بارے میں دستور امارت شرعیہ کیا بیان کرتاہے:
اوصاف امیر: امیر میں حسب ذیل اوصاف لازم ہوں گے:
(1) عالمِ باعمل ہو، یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے معانی اور حقائق کا معتدبہ علم رکھتاہو، اغراض و مصالح شریعت اسلامیہ و فقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہو اور احکام شریعت پر عمل پیر ا ہو۔
(2) سیاسیات ہند و سیاسیات عالم اسلامیہ سے واقفیت رکھتاہو اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صائب الرائے ثابت ہو چکاہو۔
(3) ذاتی قابلیت و وجاہت کی وجہ سے عوام و خواص کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔
(4) حق گو، حق شنو اور صاحب عزیمت ہو۔
(5) فقہی تعبیر میں اس کی ذات ایسی نہ ہو جس سے امارت شرعیہ کا مقصد ختم ہوجائے۔
پورے بھارت میں اگر ان اوصاف سے متصف کوئی شخصیت ہے تو وہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کی ذات گرامی ہےاور اتفاق سے یہ صوبہ بہار کے سپوت ہیں اور ان میں مندرجہ بالا تمام اوصاف بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کے بعد دوسرے نمبر کی شخصیت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی مدظلہ کی ہے جو اس منصب کے لائق ہیں اور اس میں انکا تجربہ چارچاند لگادیگا۔
یہ سننے میں آیاہے کہ شورائئ نظام کو بالائے طاق رکھ کر اوٹینگ کا پینترا رچا یاجارہاہے۔ اس مہم کیلئے جہازوں سے اسفارکرکے مجلس ارباب حل و عقد کے پاس جاکر ان کی قدم بوسی کی جارہی ہے تاکہ سابق امیر شریعت کے صاحبزادے کو اس منصب پرفائز کردیاجائے جن میں اوصاف امیر شریعت دور دور تک نہیں پائے جاتے ہیں۔
بلکہ اس کیلئے ہر ضلع میں کمیٹیاں نشکیل دی جارہی ہیں تاکہ اورنئے نئے ممبران ارباب حل و عقدمیں شامل کیئے جارہے ہیں جو صاحبزادے کی امارت کو یقنی بناسکیں۔ اور اسی کے ساتھ دستخطی مہم بھی چلائی جارہی ہے اور شوشہ چھوڑا جارہاہے کہ ان کے حق میں ایک جم غفیر ہے۔
بھائی یہ امارت شرعیہ کا نظام شورائی نظام ہے جمہوری انتخابی نظام نہیں ہے ، یہاں جس میں اہلیت و اوصاف امارت پائے جائیں گے اسے ارباب حل و عقد امیر منتخب کریں گے ، ورنہ انتخابی اوٹینگ عمل کو اختیا رجائے تو ایک غنڈہ موالی بھی انتخابی عمل سے امیر شریعت بن سکتاہے۔ پھرآج خیال کرے امارت شرعیہ کا کیا حشر ہوگا۔
یہ بھی خبر آئی ہے کہ امارت شرعیہ پھلواری شریف میں کچھ حضرات باضابطہ خیمہ زن ہیں اور دن رات اس کوشش میں ہیں کسی طرح امارت شرعیہ کا باگ ڈور سابق امیر شریعت ولی رحمانی رحمہ اللہ کے صاحبزاد ے کو سپرد کردیا جائے۔ اگرایسا ہوجاتاہے تو امارت شرعیہ کے مستقبل کیلئے بہت سارے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
اگر ارباب حل و عقد ِ امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ واقعی انصاف و حقیقت پسندی سے کام لیں گے تو پہلی فرصت میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ العالی کومنصبِ امیر شریعت پر فائز کرکے موجودہ اختلافات کا سد باب کردیں گے۔ ہم سب اللہ سبحانہ تعالی کی ذات سے قوی امید کھتے ہیں اس خطے کاکوئی مسلمانایسا نہیں ہے جو خالد سیف اللہ رحمانی کے انتخاب سے اختلاف کرے گا۔
میں نہیں سمجھتاکہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ العالی اس منصب کر قبول کرنے سے انکار کردیں گے ۔ اگر خدانخواستہ وہ انکار کردیتے ہیں تو دوسرا اختیار حضرت مولانا اینس الرحمن قاسمی مدظلہ کی ذات گرامی ہے ۔
 ہم فضلائے دار العلوم دیوبند و فضلائے مدارس ہند، لجنہ علمیہ (تنظیم ابنائے قدیم فضلائے دار العلوم، ریاض، مملکت سعودی عرب) کے پلیٹ فارم سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت کا انتخاب امارت شرعیہ کے دستور کے مطابق ہو اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی جو تمام اوصافِ امیر کے حامل ہیں امیر شریعت منتخب کیا جائے ، بصورتِ دیگر حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی مدظلہ العالی کو امیر شریعت کا عہدہ دیاجائے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں