افغانستان کے نئے حکمراں: دیوبند اور میڈیا

احمد شہزاد قاسمی
ایک زمانے میں روس کو سپر پاور ہونے کے گھمنڈ اور غرور کے نشے میں یہ شوق چرایا کہ وہ اپنی معاشی وفوجی برتری ثابت کر نے کے لئے افغانستان میں فوجیں اتاردے اسی مقصد کے تحت1980 کے آس پاس روسی افواج افغانستان میں داخل ہو ئیں اورظلم و بربریت کی ناقابل فراموش داستانیں رقم ہوتی چلی گئیں ۔
افغانستان کی سبزہ زار پہاڑیاں آگ وخون میں لپٹ گئیں اچھے خاصے ہنستے مسکراتے لوگوں کی زندگیاں اجڑ گئیں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے اور بے شمار خاندان اپنے مضبوط سہاروں سے محروم ہو گئے جو لوگ بچ رہے ان میں سے بیشتر کی زندگیاں پڑوس ملک کے پناہ گزین کیمپوں میں اس کسمپرسی کے عالم میں گزرتی رہی گو یا وہ زندگی کا عذاب جھیل رہے ہوں افغانستان کا تصور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ان پر بیساکھیوں کے سہارے اپنے نحیف وناتواں جسموں کے بوجھ کوگھسیٹتے ہوئے انسان سسکتی ہوئی عورتوں اور بلکتے ہوئے بچوں میں سمٹ کر رہ گیا۔
ملک کی اس تباہی بوڑھے والدین اور معصوم بچوں کی بے بسی اور بے کسی کو دیکھ کر دینی مدارس کے ہزاروں نوجوان روسی افواج سے دودو ہاتھ کرنے کے لئے میدان میں آگئے اور ایک طویل لڑائی کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے پوری دنیا نے دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اس کی فرعونیت کی سزا ملی اور اس کا غرور اس طرح خاک میں ملا کہ اس کی فوجی ومعاشی برتری پوری طرح بکھر رہ گئی یہاں تک کہ اپنی اقتصادیات کو برقرار رکھنے کے لئے امریکی امداد کا سہارا لینا پڑا۔
روسی افواج کی واپسی کے بعد چند سالوں تک خا نہ جنگی کی صورت بنی رہی شمالی افغانستان کو چھوڑ کر ملک کے باقی حصہ کی باگ ڈور 1996میں انہی بہادروں کے ہاتھ میں آگئی جن کی قوت و استقامت سے گھبرا کر روسیوں کو بھاگنا پڑا تھا۔
ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے نے طالبان کا استقبال کیا ان کے نظام حکومت کو پسند کیا ان کے دور حکمرانی میں نسبتاً امن قائم رہا مثبت اور تعمیری حکومت کے زیر اہتمام جاری عدل و انصاف کے پیمانوں سے سب لوگ مطمئن تھے ماحول ایسا تھا کہ عوام بھی راضی اور حکمراں بھی خوش لیکن امریکہ خوش نہیں تھا کیونکہ امریکہ خوش نہی تھا اس لئے کوئی بھی خوش نہیں تھا امریکہ کو اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست ہرگز برداشت نہیں ہو سکتی تھی اسی لئے وہ چاہتا تھا کہ طالبان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے اس کے لئے اسے موقع کی تلاش تھی 11ستمبر 2001 کے حملوں میں منصوبہ بند طریقہ سے یہ موقع حاصل کیا گیا اور آناً فاناً افغانستان پر بمباری کر دی گئی مقابلے میں اب کے بھی وہی طبقہ تھا جس نے روس کو دھول چٹائی تھی۔
طالبان کی چار سالہ تعمیری حکومت ختم ہو گئی امریکی اتحاد کی افواج نے افغانستان میں داخل ہو کر جو کچھ کیا وہ روسی کمیونسٹوں کے ذریعے برپا کی گئی تباہ کاریوں کا تکرار ہی تھا ایک بار پھر افغانستان کا تصور گولیوں کی تڑتڑاہٹ بموں کی گھن گرج جنگی طیاروں اور توپوں کے سائے خون میں لت پت بستیاں اور کٹی پھٹی لاشوں تک محدود ہوکر رہ گیا بیس سال تک رات دن بمباری کرنے والے سپر پاور امریکہ کو بھی طالبان کے حوصلوں اور جذبوں سے ہار جانا پڑا انجام کار ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوکر مذاکرات کے سہارے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو نا پڑا۔
اس طرح اب طالبان کا دوسرا دور شروع ہورہاہے امید کی جا رہی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مثبت تعمیری اور منصفانہ سوچ کے ساتھ اقتداری ذمہ داریوں کو انجام دینگے ایک حد تک ان کو طاقت ور تسلیم کیا جارہا ہے متعصب میڈیا جو طالبان کے دور اول میں ان کو ہر طرح سے وحشی غیر مہذب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے خاص طور سے آزادئی نسواں اور تعلیم نسواں کے حوالے سے شدت پسند قرار دیتا تھا طالبان کے اس دور ثانی میں جو اب شروع ہو نے والا ہے طالبان مخالف پروپیگنڈہ سے نظریں چراتا نظر آرہا ہے تا ہم ہندوستان کا مخصوص نظریات کا حامل تنگ نظر میڈیا نیٹ ورک طالبان کے دوسرے دور میں بھی اپنی پرانی روش پر قائم ہے (تفصیل کے لئیے گو دی میڈیا کی نشریات دیکھی جا سکتی ہیں) ۔
شدت پسند ہندو تنظیموں کے زیر اثر ہندوستانی میڈیا کا کو ئی بھی پروگرام مسلمانوں کو گھسیٹے بغیر مکمل نہیں یوتا وہ کو ئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا جس کے ذریعے وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بد نام کر سکے اور حکومت کے عتاب کا شکار بناسکے۔
ہندوستان کے مدارس دینی ادارے اور مذہبی جماعتیں خاص طور پر میڈیا اور شر انگیز ہندو فاشسٹ طاقتوں کا نشانہ ہوتے ہیں۔
وشو ہندو پریشد کے سابق سربراہ پروین تو گڑیا کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے تبلیغی جماعت کو طالبان کی ماں دارالعلوم دیوبند کو طالبان کا باپ اور جمیعتہ علماء ہند کو رشتہ دار بتایا ہے اسی نظریہ کا عکاس ہے میڈیا تو شروع سے ہی دارالعلوم دیوبند کو طالبان کے ساتھ منسلک کرنے کے لئے بےچین رہا ہے اس کا بہت کچھ اندازہ میڈیا کی دیوبند پر اس یلغار سے لگا یا جا سکتا ہے جو طالبان کے ذریعے بامیان کے بتوں کو توڑ نے کے بعد ہوئی تھی ۔
افغانستان کے شہر “بامیان” کے پہاڑوں میں بودھ مذہب کے رہنما “گوتم بدھ” کے دو طویل القامت مجسمے قائم تھے بودھ مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات کے احساس کی پرواہ کئے بغیر طالبان نے اچانک ہزاروں سال پرانے اس ثقافتی ورثے کو مسمار کردیا طالبان کے اس عمل کااثر پوری دنیا پر مرتب ہوا تمام دنیا کی طرح ہندوستان کے علماء نے بھی اس فعل کو پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا اور اس کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا علماء دیوبند نے بھی طالبان کی اس جرات بے جا کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دے کر یہ پیغام دیا کہ اگرچہ طالبان ہمارے مسلمان بھائی ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ان کے ہر عمل کی آنکھ بند کرکے تائید کریں یا ان کے ہر فعل کو اسلامی قرار دیں اس کے باوجود میڈیا کے نمائندوں نے دیوبند میں اس طرح یلغار کی کہ شاید یہ واقع اسی جگہ کے کسی شخص نے بامیان جاکر انجام دیا ہے یا طالبان کو دیو بند کے علما کی پشت پناہی حاصل ہے۔
یہ صحیح ہے کہ طالبان فکری طور پر دیوبند سے قربت رکھتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دیوبند کے رہنے والے ہیں یا انہوں نے دیوبند میں تعلیم حاصل کی ہے ۔
در اصل دیوبند ایک تحریک ہے ایک مکتبہ فکر ہے جو پچھلے ڈیڑھ سو سال سے بر صغیر پاک وہند میں معروف و متعارف ہے اس مکتبہ فکر کو جو لوگ مانتے ہیں وہ عرف عام میں دیوبندی کہلاتے ہیں اگر طالبان خود کو دیوبندی کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ فکر دیوبند سے منسلک ہیں ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں