محمد افسر علی
ہر طرف بہتا ہوا لہو ۔۔۔
جا بجا انسانی جسموں کے ٹکڑے ۔۔
نوحہ کرتی ہوئی انسانیت ۔۔۔۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔۔۔
عجیب سا تضاد انسانی رویوں میں ۔۔۔۔
کہیں تو جانور کے مرنے پر شور و غل اور کبھی لاشوں کے انبار پر بھی لب خاموش ۔۔۔
اس وقت دیکھا جائے تو دنیا کے کئی ممالک مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے وہ ملک تباہی کا شکار نظر آتے ہیں۔ خصوصاً اسلامی ممالک میں جس طرح ان کے حکمراں ہی اپنی مسلم آبادی پر ظلم توڑ رہے ہیں وہ بیان سے باہر ہے۔
شام میں جو کچھ خواتین اور بچوں کے ساتھ ہوا۔۔۔ہسپتال تک بمباری سے محفوظ نہیں ۔۔مقبوضہ فلسطین کی صورت بھی دل دہلا دینے والی ہے۔ اور پھر مصر اور بنگلا دیش۔ ان کی دیکھا دیکھی غیر مسلم بھی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیے جارہے ہیں۔
میانمر (سابق برما)کے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا عالم یہ ہے کہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن ان کے لیے عالمی سطح پر اس طرح آواز نہیں اٹھائی جارہی ہے جس طرح کے اٹھائی جانی چاہیے۔
ویسے تو روہنگیا مسلمانوں سے میانمار کی ریاست راکھیںن کے بدھ مت پیروکاروں کی جان لیوا نفرت ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔جب انگریز کے دور میں بنگلا دیش کی سرحدی علاقوں سے بڑی تعداد میں محنت مزدوری کرنے والے غریب مسلمان برما کی ریاست راکھین میں آباد ہونا شروع ہوئے ،لیکن پچھلے کچھ عشروں سے برما میں قائم فوجی آمریت نے اس نفرت کو ایک بہت بڑے بحران میں تبدیل کردیا ہے۔ فوجی حکومت کے ظلم و ستم اور فسادات کا شکار روہنگیا مسلمانوں کے ہزاروں خاندان مختلف سرحدی مقامات پر بکھرے پڑے ہیں۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو روہنگیا مسلمان اراکان میں 16ویں صدی سے آباد ہیں۔ ان کی کئی نسلیں یہاں پلی بڑھی ہیں لیکن تاحال ان کو حقوق ملے ہیں نہ شناخت دی گئی اور نہ ہی انہیں اپنایا گیا ہے۔ ان ہی ظالمانہ رویوں کا نتیجہ ہے کہ آج روہنگیا مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے اور پورا میانمار اس طرح چپ ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور یہ سب ظلم و ستم اس مذہب کے ماننے والے کررہے ہیں جوکہ چیونٹی کو بھی ہلاک کرنے کو ظلم کہتے ہیں، عجیب طرفہ تماشہ ہے۔ کیا مسلمان کے خون کی ایک چیونٹی کے برابر بھی قیمت نہیں۔
کہا جاتا ہے دنیا میں روہنگیا مسلمان ایسی اقلیتی برادری ہے جس پر سب سے زیادہ ظلم ہورہا ہے۔ میانمرمیں ایک اندازے کے مطابق 10لاکھ مسلمان آباد ہیں جنہیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میانمر میں 25سال بعد گذشتہ سال انتخابات میں نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو بھاری کامیابی ملی تھی۔انہیں یہ انعام انسانی حقوق پر ملا۔مگر خود اس کے اپنے ملک میں کیا ہورہا ہے۔روہنگیائی مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہاہے۔
ان کی جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں، خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں لیکن مسلم حکمراں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
انہیں خوراک دستیاب نہیں،مردہ انسانوں کا گوشت کھانے پر ایک دنیا بے خبر ہے؛ مسلمانوں کی بڑی تعداد کو یہ بھی شاید معلوم نہ ہو کہ برما میں لاکھوں روہنگیائی مسلمان بستے ہیں؛ جو ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
میں عوام الناس تک یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ان بے بس و بے کس مسلمانوں کے لیے کم از کم دعائیں تو ضرور ہی کریں اور ہماری مقتدر قوتیں ان کے لیے ضرور کچھ کریں یا کم از کم ٹھیک طرح آواز تو اٹھائیں، عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑیں۔ اقوام متحدہ و دیگر عالمی ادارے ان مظلوم انسانوں کی بقا کے لئے عملی اقدامات کریں۔
یہ بات انتہائی افسوسناک ہے مشر قی تیمور کا واقعہ پیش آتا ہے تو عالمی قوتیں فوراً جاگ جاتی ہیں ۔۔۔۔لیکن برما کے مسلمانوں کے لئے کوئی نہیں ۔۔۔۔کیا ان کا جرم صرف یہ کہ وہ مسلما ن ہیں ۔۔؟؟؟
کوئ غیض وغضب کے عالم میں سفیر کو قتل کرتا ہے تو ساری انسانیت چیخ اٹھتی ہے کیا اسلامی تعلیمات یہی ہے؟
جب پاکستان میں اسکولی بچے اور بچیوں پر حملہ ہوتاہے تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے حالانکہ یہ بات حقیقت ہے اس میں بھی ان ظالموں کا ہاتھ ہوتا ہے جنکو اسلام کے نام سے پیٹ میں درد ہوتا ہے،
اور وہ اسلام کو بدنام کرنےکےلیے پوری دنیا میں آگ لگاسکتے ہیں ۔
کیا انسانوں کو جلانا یہ انسانیت ہے؟
یہ دوہرا معیار اور امتیازی سلوک کسی طور جائز اور قابل قبول نہیں۔
جب اسرائیل میں آگ لگتا ہے تو اسرائیل کی حمایت میں اسرائيل میں آگ درست انداز فکر لکھتے ہیں
مگر روہنگیا کے مسلمانوں کی تکلیف کون سمجھے کون جانے۔
کاش کہ امت مسلمہ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرتی
اور کوئ ٹھوس لائحہ عمل تیار کرتی جس سے برمی مسلمانوں کو بدھشٹ ظالموں سے نجات ملتی
جب ہماری قیادت ہی سو رہی ہے تو ہم سوائے دعاء کے کیا کرسکتے ہیں؟
اللہ تمام مسلمانوِ کی حفاظت فرمایے۔