’ کھانا سب کےلئے مہم‘ جو ایک تحریک بن گئی

کولکاتا: (ملت ٹائمز) گزشتہ مہینے ریلیز ہونے والی انگریزی کتاب A world Divided- Human Right In An Unqual World میں حقوق انسانی کے شہرت یافتہ سماجی کارکن شمیم احمد کی 25 سالہ جدوجہد کا مختلف زاویہ اور پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کتاب کے چوتھے باب میں Charity With a Difference میں شمیم احمد کی ’’کھانا سب کےلئے مہم ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مہم شمیم احمد کی زندگی کا وہ روشن پہلو ہے اگر وہ اپنی زندگی میں صرف یہی ایک مہم چلاتے تو بھی ان کی نیک نامی کےلئے یہ کافی تھا۔
اس کتاب کی مصنفہ شیرین سلطانہ نے لکھا ہے کہ شمیم احمد کی یہ ایک ایسی مہم ہے جو تحریک بن گئی ۔اس مہم کی شروعات سے قبل تک سڑکوں کے کنارہ زندگی گزارنے والے افراد تک کھانا فراہم کرنے والے ادارے اور تنظیموں کی تعداد محدود تھی۔ گرودوارہ اور دیگر چند ادارے چند بڑے شہروں میں یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔شمیم احمد کی کھانا سب کےلئے مہم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے نہ صرف اپنے طور پر مہم کی شروعات کی بلکہ انہوں نے بھوکوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کےلئے ملک گیر دورہ کیا اور مختلف اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر مختلف شہروںمیں پروگرام کئے اور ملک کی سول سوسائٹی کو متوجہ کیا اور انہیں بتایا کہ ملک کے تمام شہریوں کو کھانا فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ مگرایک ارب سے زاید آبادی والےاس ملک میں اس طرح سنگین مسئلے پر صرف حکومت کی کوششوں سے قابو نہیں پایا جاسکتا ہے بلکہ اس کےلئے سول سوسائٹی کو بھی آگے آنا ہوگا۔
مغربی بنگال ہندوستان کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں غربت کی سطح پر زندگی گزارنے والوں کی شرح ہندوستان کے کئی ریاستوں کے مقابلہ بہت ہی زیادہ ہے۔کلکتہ شہر میں شاید ہی کوئی ایسا چوراہا اور علاقہ ہوگا جہاں فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے افراد نہیں پائے جاتے ہیں۔قاید اردو شمیم احمد نے فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس کیا کہ فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے افراد حکومت کی فلاحی اسکیموں سے فیض یاب نہیں ہورہے ہیں۔ کیوں کہ وہ روزی و روٹی کی تلاش میں دیہی علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس مقامی راشن کارڈ نہیں ہوتےہیں۔چناں چہ ان میں سے 80فیصد افراد کو دو وقت کا کھانا مستقل طور میسر نہیں ہوتا ہے۔اگر دوپہر میں کھانا نصیب ہوتا ہے تو رات میں نہیں اور اگر رات میں کھانا نصیب ہوتا ہے دن میں نہیں ہے۔
حالات کا جائزہ لینے کے بعد شمیم احمدنے ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے بینر تلے 2018 فروری سے ’’کھانا سب کےلئے مہم کی شروعات کی۔ ظاہر ہے کہ کلکتہ شہر میں تین کروڑ افراد بستے ہیں۔ فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ان میں سے ہر ایک فرد تک کھانا پہنچانا کسی ایک تنظیم اور ادارے کے بس کا کام نہیں ہے۔ چناں چہ قاید اردو شمیم احمد نے اپنے ادارے کی وسعت اور صلاحیت کے بقدر سے ہرروز تین سو سے چار سو افراد تک ایک وقت کا کھانا پہنچانے کی مہم کا عملی آغازکیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ ناکافی مہم تھا۔ اس لئے انہوں نے اس مہم میں مختلف تنظیموں اور اداروں کو شامل ہونے کی اپیل کی اور اس طرح پہلے یہ کاررواں بنا اور اس کے بعد یہ تحریک میں تبدیل ہوگیا۔ کتاب کی مصنفہ نےاس تحریک کی تین خصوصیات بیان کی ہے ۔سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ شمیم احمد ہندوستان میں بھوک مری کے مسائل کو اس طرح اجاگر کیا کہ اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی گھر سے آئے کھانے کو بچاکر فٹ پاتھ پر رہنے والے بچوں کو دیتے تھے اور اس کا فوٹو کھینچ کر شیئر بھی کرتے تھے تاکہ دوسروں میں تحریک پیدا ہو۔ نوجوان نسل کو سماج اور معاشرے کے تئیں حساس اور باشعور بنانا اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔
اس تحریک کی دوسری سب سے خصوصیت ’’دستر خوان عام‘‘ تھا۔ہفتے میں ایک مرتبہ فٹ پاتھ پر رہنے والوں کے ساتھ دستر خوان عام لگایا جاتا تھا جس میں مختلف شعبہائے حیات سے وابستہ افراد ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔اس کا مقصد یہ تھا کہ فٹ پاتھ پر بیٹھنے والوں کو احساس کمتری سے نکالنا ۔ علاوہ ازیں یہ شعور اجاگر کرنا بھی تھا کہ عمومی طور پر تقسیم کئے جارہے کھانا غیر معیاری ہوتے ہیں اور لوگ صدقے کے طور پر غیر معیاری اور باسی کھانا تقسیم کرتے تھے۔ قاید اردو شمیم احمد کی خواہش تھی کہ بھوکوں کی بھوک تو مٹائی جائے مگر انہیں معیاری کھانا فراہم کیا جائے ۔
اس مہم کے دوران فٹ پاتھ پر رہنے والوں کو معیاری علاج فراہم کرنے کی شروعات بھی کی گئی ۔ قاید اردو شمیم احمد کہتے ہیں میں روزانہ کھانا تقسیم کرنے جاتا تھا ۔ ایک دن معلوم ہوا کہ کل جس شخص کو ہم نے کھانا دیا تھا وہ کئی دنوں سے بیمار تھا علاج بروقت نہیں ملنے کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔ شمیم احمد کہتے ہیں اس کے بعد ہم نے کھانا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عارضی اسپتال بھی قائم کیا اور سڑکوں پر رہنے والوں کا علاج شروع کیا ۔ جو زیادہ بیمار ہوتے تھے انہیں ہم اسپتال تک پہنچاتے ہیں۔
مصنفہ لکھتی ہیں اس تحریک کی برکت ہی کہہ سکتے ہیں کورونا بحران کے دوران ہندوستان کی ایک تہائی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی، روزگار سے محرومی کی وجہ سے بھوک مری کے حالات پیدا ہوگئےان حالات میں ملک کی سیکڑوں تنظیمیں ، ادارے اور انفرادی طور پر بھی لوگوں نے باہر نکل کر مفلوک الحال لوگوں کی مدد کی۔قاید اردو شمیم احمد کی تحریک کی سب سے بڑی یہی کامیابی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہم کو تحریک کی شکل میں باقی رکھا جائے۔اس وقت تک یہ تحریک جاری رہے جب تک ہندوستان میں ایک بھی شخص بھوکا باقی نہ رہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com