سہیل انجم
اس کالم کی تحریک دو کالموں سے ملی ہے۔ ایک کالم ہندوستانی ہے اور دوسرا پاکستانی۔ ہندوستانی کالم نگار شاہد لطیف ہیں جو روزنامہ انقلاب ممبئی کے ایڈیٹر ہیں۔ دوسرے کالم نگار حسن نثار ہیں جو پاکستان کے معروف دانشور، صحافی اور قلمکار ہیں۔ دونوں میرے پسندیدہ رائٹر ہیں۔ میں ان کے کالموں سے بہت کچھ سیکھتا اور اپنے اندرون کو روشن کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایڈیٹر انقلاب کا کالم 16 اکتوبر کو روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا جبکہ دوسرا کالم 18 اکتوبر کو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہوا ہے۔ اول الذکر کا عنوان ہے ”دل کی طرف حجاب تکلف اٹھا کے دیکھ“۔ ثانی الذکر کا عنوان ہے ”سائبان تحریک: کتابیں پڑھیں خرید کر پڑھیں“۔ دونوں کالموں میں بہت زیادہ تو نہیں لیکن کسی حد تک مماثلت ضرور ہے۔ البتہ دونوں کا درد ”دردِ مشترک“ ہے۔ اول الذکر کالم میں بہت سی باتوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر وقت کے زیاں پر فکرمندی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ ”جب تک انٹرنیٹ اور موبائل نہیں آیا تھا انسان کے پاس دوچار گھنٹے تو فراغت کے نکل ہی آتے تھے۔ تب وہ غورو فکر بھی کرتا اور دوسروں کے بارے میں سوچتا بھی تھا۔ آج کے انسان نے خود کو ان دوچار گھنٹوں سے بھی محروم کر لیا ہے“۔ ثانی الذکر کالم کی یہ بات بڑی دردناک کہ ”کباب کلچر کتاب کلچر کو نگلتا جا رہا ہے“۔ اب تو کتابوں کی تاریخی دکانوں میں بھی ہوٹل کھل رہے ہیں۔ یہ درد صرف سرحد کے اُس پار کا نہیں بلکہ اِس پار کا بھی ہے۔ آپ جامع مسجد دہلی کے اردو بازار کا دورہ کیجیے اور موجودہ حالات کا موازنہ تیس چالیس سال قبل کے حالات سے کیجیے، تکلیف دہ صورت حال کا اندازہ ہو جائے گا۔ ثانی الذکر کالم میں ماہنامہ ”ادب لطیف“ کے مدیر اعلیٰ حسین مجروح کی، کتابوں کو پڑھنے اور خرید کر پڑھنے کی ترغیب دینے والی ”سائبان تحریک“ کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور کتابوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کالم میں ایک فرانسیسی فلسفی، قلمکار اور مورخ کے اس خوبصورت جملے کو نقل کیا گیا ہے کہ ”آپ کو اس سچائی کا ادراک ہونا چاہیے کہ جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے ،وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے ہی حکمرانی کی ہے۔“ بلا شبہ کتابوں کی حکمرانی سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن سوشل میڈیا نے تعلیم یافتہ افراد کے بڑے طبقے کو بھی کتب بینی سے بڑی حد تک محروم کر دیا ہے۔ لہٰذا راقم الحروف نے سوچا کہ کیوں نہ اس بار غیر سیاسی کالم لکھ کر ترغیبِ کتب بینی کی تحریک کا حصہ بنا جائے۔ اس کے لیے میں فی الحال مولانا روم کی مثنوی کا ایک باب نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں۔ حسن نثار کے بقول مولانا روم کی مثنوی نے اہل مغرب کو حیرت زدہ کر دیا۔
مولانا روم ”حکایت حضرت پیر چنگی“ کے زیر عنوان لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص خوش الحان چنگ بجایا کرتا تھا۔ اس کی آواز پر مرد عورت بچے سبھی قربان تھے۔ اگر کبھی مست ہو کر گاتا ہوا جنگل سے گزر جاتا تو چرند پرند ا س کی آواز سننے کے لیے جمع ہو جاتے۔ جب یہ بوڑھا ہوا اور پیری کے سبب آواز بھدی ہو گئی تو عشاقِ آواز بھی رفتہ رفتہ کنارہ کش ہو گئے۔ اب جدھر سے گزرتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نام و شہرت سب رخصت ہو گئے اور ویرانۂ گمنامی میں مثل بوم ٹکرانے لگا اور فاقے پر فاقے گزرنے لگے۔ خلق کی اس خود غرضی کو سوچ کر ایک دن بہت مغموم ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ اے خدا جب میں خوش الحان تھا تو مخلوق مجھ پر پروانہ وار گرتی تھی۔ اب بڑھاپے سے آواز خراب ہو گئی تو یہ ہوا پرست میرے سائے سے بھی گریزاں ہو گئے۔ ہائے ایسی بے وفا مخلوق سے میں نے دل لگایا۔ آپ کی طرف رجوع ہوا ہوتا، اپنے شب و روز آپ ہی کی یاد میں گزارتا اور آپ ہی سے امیدیں رکھتا تو آج یہ دن نہ دیکھتا۔ پیر چنگی دل ہی دل میں نادم ہو رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ اچانک جذب غیبی نے اس کے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ پیر چنگی نے آہ کھینچی اور خلق سے منہ موڑ کر مدینہ منورہ کے قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا اور ایک پرانی و شکستہ قبر کے غار میں جا بیٹھا۔ اس نے رورو کہ فریاد کی کہ اے اللہ آج میں تیرا مہمان ہوں۔ جب ساری مخلوق نے مجھے چھوڑ دیا تو اب بجز تیری بارگاہ کے میرے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں۔ بجز تیرے کوئی میری اس آواز کا خریدار نہیں۔ اے اللہ میں بڑی امیدیں لے کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ اپنی رحمت سے مجھے نہ ٹھکرانا۔
مولانا روم کہتے ہیں کہ پیر چنگی آہ و زاری میں مشغول تھا اور آنکھوں سے خونِ دل بہہ رہا تھا کہ خالق کائنات کا دریائے رحمت جوش میں آگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو الہام ہوا کہ اے عمر میرا فلاں بندہ جو اپنی خوش آوازی کے سبب زندگی بھر مخلوق میں محبوب و مقبول رہا اب بوجہ پیری خلقت نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا غم اس کی ہدایت اور میری طرف رجوع کا سبب بن گیا ہے۔ اگرچہ زندگی بھر وہ نافرمان و غافل رہا لیکن میں اس کی آہ و زاری کو قبول کرتا ہوں۔ کیونکہ میری بارگاہ کے علاوہ میرے بندوں کے لیے کوئی اور جائے پناہ نہیں۔ اے عمر! آپ بیت المال سے کچھ رقم لے کر قبرستان میں جائیے او رمیرے بندۂ عاجز و مضطر کو میرا سلام پیش کیجیے۔ پھر یہ رقم پیش کرکے کہہ دیجیے کہ اللہ نے تجھے اپنا مقرب بندہ بنا لیا ہے اور اپنے فضل کو تیرے لیے خاص کر دیا ہے۔ اب تجھے ملول خاطر ہونے اور مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے اس بندے سے کہہ دیجیے کہ اللہ نے غیب سے ہمیشہ کے لیے تیری روزی کا انتظام کر دیا ہے۔
مولانا روم کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس وقت ہاتف غیبی سے یہ آواز سنی تو بے چین ہو گئے۔ فوراً اٹھے اور بیت المال سے کچھ رقم لے کر قبرستان کی طرف چل دیئے ۔ وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک شکستہ قبر کے غار میں ایک بڈھا چنگ لیے ہوئے سو گیا ہے اور ا س کا چہرہ اور داڑھی آنسووں سے تر ہیں۔ مولانا روم کے مطابق:
پیر چنگی کے بود خاصِ خدا
حبّذا اے سرِّ پنہا حبّذا
چنگ بجانے والا بڈھا کب خاص اور مقبول ہو سکتا ہے۔ مبارک ہو اے رازِ پنہاں مبارک ہو۔ مولانا کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت نے اس بڈھے کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ اس کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن اسی اثنا میں انھیں چھینک آگئی جس سے پیر چنگی کی آنکھ کھل گئی۔ خلیفة المسلمین کو دیکھ کر غلبۂ ہیبت سے وہ کانپنے لگا کہ اس چنگ کی وجہ سے مجھ پر نہ جانے کتنے درے پڑیں گے۔ حضرت عمر نے جب دیکھا کہ وہ لرزہ براندام ہے تو ارشاد فرمایا کہ خوف مت کرو میں رب کی طرف سے تمھارے لیے بہت بڑی خوش خبری لایا ہوں۔ جب ان کی زبان سے پیر چنگی کو اللہ تعالی کے الطاف و عنایات کا علم ہوا تو اس پر شکر و ندامت کا حال طاری ہو گیا۔ وہ اپنے ہاتھ کو ندامت سے چبانے لگا اور اپنے اوپر غصہ کرنے لگا۔ اس نے اپنی غفلت اور اللہ کی رحمت کا خیال کرکے ایک چیخ ماری اور کہا کہ اے میرے آقائے بے نظیر اپنی نالائقی اور غفلت کے باوجود آپ کی رحمت بے مثال کو دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوں۔ جب وہ خوب رو چکا تو اس نے اپنے چنگ کو غصے سے زمین پر پٹک کر ریزہ ریزہ کر دیا اور اس کو مخاطب کرکے کہا کہ تو نے ہی مجھے اللہ کی محبت و رحمت سے محجوب رکھا تھا۔ تو نے شاہراہ حق سے میری رہزنی کی تھی۔ تو نے ہی ستر سال تک میرا خون پیا۔ تیرے ہی سبب میں لہو و لعب اور نافرمانی میں بوڑھا ہو گیا۔ تیرے ہی سبب میرا چہرہ اللہ کے سامنے سیاہ ہے۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا اور آپ کی آنکھیں اشکبار ہو رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا اے شخص تیری یہ گریہ و زاری تیری باطنی ہوشیاری کی دلیل ہے۔ تیری جان اللہ کے قرب سے زندہ اور روشن ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں گناہ گار کے آنسووں کی بڑی قیمت ہے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے کتاب خوانی کو اپنا شوق بنائیے۔ کیا پتہ کون سی کتاب آپ کے قلب و روح کی تازگی کا سبب بن جائے۔
(بحوالہ: معارف مثنوی، شرح مثنوی مولانا روم اردو، مترجم مولانا حکیم محمد اختر)۔
sanjumdelhi@gmail.com