اظہارالحق قاسمی بستوی
ملت ٹائمز
سال گذشتہ بغرض امتحان دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔حسب موقع مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کی زیارت کاشرف حاصل کرنے کے لیے دیوبند حاضری ہوئی اورایک روزوشب گذار کرصبح کی فاسٹ پیسنجر سے واپس دہلی کے لیے روانہ ہوا۔غازی آباد پار ہونے کے بعدایک تعلیم یافتہ ،خوبرو،خوش لباس ،خوش گفتار،ٹائی وبوٹ سے آراستہ،سرکے بال آگے سے کچھ گنجے ،اردو تلفظ میں ہلکی تتلاہٹ اورگفتگومیں انگریزی الفاظ وجملوں کی بھرپورآمیزش، شیریں زبان اور ہونٹوں پرمسکان کی اٹکھیلیوں کے ساتھ ایک نوجوان سلام ومصافحہ کے ساتھ ہماری کیبن میں آبیٹھااور مزاج کی خیرخیریت لے کر خاموش ہوگیا۔تھوڑی دیر کے بعدپھرسے سلسلہ کلام کا آغاز کیااور اس نے پوچھاکہ میں کہاں پڑھااور اب کیاکرتاہوں اور خوب خوب مدح سرائی کی ۔باشعور جدیدتعلیم یافتہ اور دینی مزاج کا حامل سمجھ کرہم نے بھی گفتگو کے سلسلے کو جاری رہنے دیا۔چوں کہ موصوف اچھی انگریزی بھی بول رہے تھے اور ہم بھی مرکزالمعارف کی برکت سے انھی کی زبان میں جواب دے رہے تھے جس سے موصوف کو بھی شاید یہ مغالطہ ہوگیاتھاکہ ہم بھی کچھ نہ کچھ ہیں!!!
یہاں تک کہ تقریبانوبجے جب ہم نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر اترے تو آں موصوف بھی ہم رکاب ہولیے اور تھوڑی دیر چلنے کے بعد برسرمطلب آمدم کے ضابطے کے بموجب انھوں نے جلدی جلدی اپنی جیب ٹٹولناشروع کردیااور سرپرہاتھ رکھ، کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے :آہ ،افسوس !میڈم آج ہماری جیب میں پرس رکھنابھول گئیں اور ہائے اب میں کیاکروں ۔ گڑگاوں میں ساڑھے نویا دس بجے انٹرویوہے اور میرے انتخاب کی امیدیں کافی زیادہ نیزپیکیج بھی خوب ہے ،افسوس اگرمیں فوری طور پرآٹوکرایہ پرلیکرنہ پہونچاتو میری تو ساری محنت وصلاحیت اکارت جائے گی ۔ اتناسنناتھاکہ ہماری صفت فیاضی یاجذبہ مہربانی کو جوش آیا ہم نے ان سے کہاکہ آپ فکرنہ کریں میں آپ کی مددکیے دیتاہوں البتہ مجھے حیدرآبادواپسی کا ٹکٹ بک کرواناہے لہذاپہلے میں جلدی سے بک کروالوں اس کے بعداے ٹی ایم سے نکال کے آپ کو پیسے دیتاہوں۔
ہم ٹکٹ کاونٹرپرپہونچے تودیکھاتھوڑی بھیڑہے لائن میں ہمارے ساتھ آں جناب بھی لگ گئے اوراگرکوئی بھی بیچ میں گھستاتو وہ سخت ڈانٹ پلاتے، درمیان درمیان میں موصوف کسی کو فون کرکے صورت حال سے آگاہ بھی کرتے اورہم سے فرماتے کہ ہمارے بہنوئی جوکہ دہلی میں ہی کہیں رہتے ہیں ان کومیں نے صورت حال سے آگاہ کیاہے لیکن وہ کسی ضروری کام میں مشغول ہیں اور ابھی ان کا آپاناممکن نہیں لگ رہاہے۔ساتھ ساتھ انٹرویوکی جگہ پر فون کرکے انھوں نے یہ بتلایاکہ ہاں میں آرہاہوں اور راستے میں ہوں وغیرہ وغیرہ ۔یہاں تک کہ ہم تھوڑی ہی دیر میں ٹکٹ بک کراکے باہرآگئے۔اور میں اے ٹی ایم کی طرف بڑھ گیا۔
میرے اکاونٹ میں اس وقت صرف ایک ہزارروپئے ہی تھے لہذا موصوف سے ہم نے بھی بڑی لجاجت سے گذارش کی کہ جتناکم سے کم میں آپ کا کام ہوجائے اتنابتادیں توہمارے لیے بھی سہولت ہوگی ۔انھوں نے تھوڑی دیرسوچ کرکہاکہ انھیں صرف چھ سو؍۶۰۰روپئے کی ضرورت ہے اور اتنے میں آں موصوف کاکام ہوجائے گا۔ہم نے بھی سوچاکہ اتنااچھاتعلیم یافتہ نوجوان ہے اگرہم اس کی مددکردیں اور اس کاکام بن جائے توہمارے ایک مسلم بھائی کی مددہوجائے گی۔سوہم بھی تیزی سے اے ٹی ایم مشین کی طرف بڑھے اور جھٹ پوراایک ہزارنکال کرموصوف کو چھ سو دیے۔موصوف تشکروامتنان کے جذبات سے سرشار اس قدر عاجزی کرتے نظرآئے کہ بس خداخیرکرے۔ انھوں نے کہاکہ آپ کا یہ احسان ہم زندگی بھرنہ بھولیں گے اور انھوں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا لے کراحقرکا فون نمبراور اکاونٹ نمبرلکھ کرلجاجت بھرے اندازمیں کہاکہ آج دوبجے تک آپ کا پیسہ آپ کے اکاونٹ میں آجائے گااور ہمارے والدصاحب جوکہ کسی کمپنی کے ملازم ہیں اور جن کا پیکیج سات لاکھ سالانہ کے قریب ہے اگروہ آپ کے اکاونٹ میں زیادہ رقم جمع کرادیں تو آپ پلیزہماری طرف سے اس کوہدیہ سمجھیں ۔ ہم نے بھی شکرانے کے انداز میں کہاکہ نہیں جناب، ہماری اولین ترجیح تو بس انٹرویومیں آپ کا کامیاب ہوناہے۔اور اگرآپ ہمارا ہی پیسہ بھیج دیں گے توہم ممنون ہوں گے۔شکروامتنان کی اسی کیفیت کے بیچ ہم ایک دوسرے سے علیک سلیک کے ساتھ رخصت ہوئے۔
دوبجے ہم نے اکاونٹ چیک کیاتو وہی زیرو بیلنس!پھرشام ہوئی تب بھی کچھ حرکت نہیں ہوئی ۔مغرب کے بعدآں موصوف کو ہم نے ہی فون کرکے دریافت حال کیااور پوچھاکہ موصوف کا انٹرویو کیسارہا وغیرہ وغیرہ ۔موصوف نے جلدی جلدی اور کسی قدرروکھے پن سے کہاکہ ہاں انٹرویوکافی اچھارہااورہمارے مطالبے کے بغیربھی انھوں نے کہاکہ ڈیڈ آج مصروف تھے اس لیے آپ کا پیسہ کل پہونچ جائے گا۔ہم نے بھی کہاکہ جناب جلد بازی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے آپ آرام سے کل پرسوں بھیج دیجیے گا۔انھوں نے ٹھیک ہے کہہ کرفون منقطع کردیا۔
شام کی نششت میں میں نے اپنے دو دوستوں مولوی شان عالم قاسمی اور مولوی محمدفضل مہاراشٹری کے ہمراہ بیٹھ کراس صبح کی روداد اور بے چارے کی پریشانی سنائی اور موصوف کاحلیہ اور نام وعلاقہ بتایاتو موصوف اول الذکرنے کہاکہ یاریہ تومجھ سے بھی فلاں دن ملاتھااور اسی طرح پرس گھر چھوٹ جانے کا بہانہ کرکے پیسے مانگاچناں چہ میں نے بھی اس کی کچھ مدد کردی تھی وغیرہ وغیرہ ۔آگے موصوف نے کہا: مجھے لگتاہے کہ یہ آدمی فراڈہے لیکن میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہاکہ نہیں یارآدمی تو بہت شریف لگ رہاتھا لہذااس کے بارے میں اس طرح کا خیال مناسب نہیں۔ایک دودن گذرنے کے بعد ہم نے پھرموصوف کے نمبرپر فون لگایا،دوسری طرف سے جلدی جلدی ہیلوہیلوکی آواز آئی اور جان بوجھ کرفون منقطع کردیاگیا۔ہم نے دوبارہ اور سہ بارہ فون ملایاتو گھنٹی بجتی رہتی لیکن کوئی جواب نہیں۔اور چوتھی بارمیں فون بندکردیاگیا۔اس حرکت سے مولوی شان عالم کی بات کسی قدر سچی سمجھ میں آنے لگی تھی لیکن موصوف کے حلیے اور گفتگو سے دل اس قدر متاثرتھاکہ اسے ہرگز یقین نہیں آرہاتھا۔ دوسرے دن پھرہم نے فون لگایاتو فون اٹھانے کے بعد جواب ملاکہ کون گلفام کہاں کا گلفام وغیرہ وغیرہ اور پھرفون فوری منقطع کردیاگیا۔ ہم پیہم کوشش کرتے رہے لیکن لاحاصل اور فون بندکردیاگیا۔تب جاکردل کو فراڈ کا یقین ہوا اور اپنے ساتھ ہوئے دھوکے کا شدید احساس ہوا۔
اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد ہمارے ایک مشفق اورعزیزدوست اور جواہرلال نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرمولوی محمد ازہرسے ملاقات ہوئی اور ہم نے اپنے ساتھ ہوئے اس حادثے کاذکرکیاتوانھوں نے بھی بتایاکہ وہ بندہ ان سے بھی جامع مسجد کے پاس ملاتھااور پرس کے گم ہونے کی شکایت کرکے اپنی شیریں اور مہذب گفتگوکے جال میں پھانس کراور انٹرویوکا جھانسہ دے کرپیسہ اینٹھناچاہ رہاتھالیکن انھوں
نے بس دس روپئے دے کرچلتاکردیا۔اس سے مزیداپنی غلطی اور فریب خوردگی کا شدیداحساس ہوالیکن افسوس کے سوااور کیاکرسکتاتھا!
اس کے بعدپھر ہم حیدرآباد پہونچ کربھی رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن لاحاصل!ان تمام لوگوں سے اس شخص کے متعلق ملی جان کاری سے احقرنے یہ نتیجہ اخذکیاکہ یہ مولویوں کا پیشہ وار پاکٹ مارہے اور اسے شدت سے یہ احساس ہوچلاہے کہ مولوی قوم انتہائی سیدھی سادی اور بزبان حدیث غرکریم قوم ہے جسے کبھی بھی جذبات میں لاکران کی ہمدردی بٹوری اور ان کی جیب خالی کی جاسکتی ہے۔ چناں چہ ہمارے دارالعلوم کے زمانہ طالب علمی میں چودھری ضرارنے مولویوں کی اسی سیدھے پن اور ہمدردانہ صفت سے واقف کاری کی بدولت ان کولبھالبھاکرخطیررقم جمع کرلیااور لے کرفرارہوگیا۔اس میں احقر کی بھی تشکیل ہوئی تھی لیکن احقر نے کسی بھی طرح اس میں شرکت اختیارنہ کی ۔لہذاضرورت ہے کہ ہم ان جیب کتروں سے ہوشیاررہیں اور اس طرح کے لوگوں کے جھانسے میں کبھی نہ آئیں اور بطورخاص گلفام نامی شخص جوکہ بجنورکارہنے والاہے وہ اگرکہیں بھی نظر آئے جیساکہ اوپر حلیہ بیان کیاجاچکاہے تو اسے فوری پولیس کے یاتوحوالے کردیاجائے یااگرچندمولوی حضرات ہوں تو اسے کہیں تنہائی کی جگہ لے جاکرایک ایک مولوی سے ٹھگی ہوئی رقم کا حساب برابرکریں اور اگرہوسکے تواحقر کو بھی اس کی اطلاع دیں۔بندہ بہت ممنون ہوگا۔بہت ممکن ہے کہ اس نے اب نئے بہانے تلاش کرلیے ہوں لیکن اس کا حلیہ اس کی شناخت کے لیے کافی ہے ۔
مسئلہ صرف ایک گلفام یاچودھری ضرارکا نہیں ہے بل کہ ؛ان سارے لٹیروں کا ہے جو مولوی حضرات کو سیدھی سادی سی مخلوق سمجھ کراستحصال کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھارکھتے۔آٹورکشاوالے بھی اس سلسلے میں کافی چاق وچوبند ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں چناں چہ صرف چند کلومیٹرکے لیے اچھی خاصی قیمت لگاکروصول کرتے ہیں۔اس لیے احقر کی عاجزانہ اور فریادانہ گذارش ہے کہ یہ مضمون جس کی بھی نظرسے گذرے وہ اس پیغام کو ہمارے دوسرے مولوی اور مولوی نماجماعتی احباب کے گوش گذار کردے،نیزننھے منے معصوم وغریب طلبہ مدار س کویہ واقعہ سناکران کو لوگوں کے دھوکوں کا شکارہونے سے بچایاجائے اور انھیں ہوشیاروخبردارکردیاجائے۔بطورخاص اپریل اور مئی کے مہینے میں دہلی امتحان دینے والے اور مختلف مواقع پرسفرکرنے والے طلبہ اور مولوی حضرات اس طرح کے لوگوں کے خاص ہدف ہیں جہاں سے وہ روزانہ اپنی اتنی رقم بناتے ہیں جس سے وہ اوران کے بچے حرام خوری کرتے ہوئے شاہانہ زندگی گذارسکیں۔
سادگی اپنوں کی اور غیروں کی عیاری بھی دیکھ!!!
8686691311
izhar.azaan@gmail.com