ایم ودود ساجد
شمال مشرقی ریاست تری پورہ کے احوال سے اپنے قارئین کو سب سے پہلے انقلاب نے ہی واقف کرایا تھا ۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے شرپسندوں نے ان غریب لوگوں کو نقصان پہنچایا جو ان کی راہ میں آئے ہی نہیں تھے۔افسوس اس بات کا ہے کہ شرپسندوں کا ساتھ آر ایس ایس کے مقامی لیڈروں نے بھی دیا ۔
میں نے آر ایس ایس کے کردار پر اس لئے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کی اعلی قیادت ایک طرف جہاں یہ کہتی ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہیں دوسری طرف وہ اس ملک کے مسلمانوں سے بھی بظاہر رسم وراہ بڑھانا چاہتی ہے ۔تری پورہ میں تشدد کے اصل واقعات کی ابتدا میں بھی وہاں کے کمزور’ پسماندہ’ دبے کچلے اور غریب مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
تشدد کے واقعات کی ابتدا خود شرپسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ سے ہوئی جب ممانعت کے باوجود 21 اکتوبر کو شرپسند تنظیموں نے ریلی نکالنے کی ضد کی ۔یہ لوگ بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے موقع پر وہاں کی اقلیتی آبادی اور ان کی عبادتگاہوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ پولیس اور انتظامیہ کے مطابق تری پورہ کے گومتی ضلع میں صورتحال کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کردی گئی تھی اور مذکورہ تنظیموں کو ریلی نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ ‘دی وائر’ کے صحافی تنموئے چکرابورتی کے مطابق یہ تنظیمیں گومتی ضلع کے ان علاقوں سے اپنی ریلی نکالنا چاہتی تھیں جہاں مسلم آبادی کا غلبہ ہے۔ پولیس نے نظم و نسق کے بگڑجانے کے اندیشہ کے تحت ہی انہیں ریلی کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔
پولیس نے خود بتایا کہ ہندو تنظیمیں فوتامتی اور ہیرا پور سے ریلی نکالنا چاہتی تھیں اسی لئے ریلی کی اجازت نہیں دی گئی اور دفعہ 144 بھی لگادی گئی۔ یہ دونوں علاقے مسلم آبادی کے غلبہ والے ہیں اور فرقہ وارانہ طور پر حساس ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ ترلوگ جھگی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ مختلف رپورٹیں بتاتی ہیں کہ21 اکتوبر کو گومتی ضلع کے اودے پور سب ڈویزن کے تحت مہارانی علاقہ میں پولیس افسران احتیاطاً گشت کر رہے تھے کہ اسی دوران اچانک شرپسند سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس کے مطابق اس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کو منتشر کرنے کیلئے معمولی طاقت کا استعمال کیا۔ اس افراتفری میں تین پولیس افسر اور ایک درجن سے زیادہ شرپسند زخمی ہوگئے۔ اس مرحلہ تک مسلمانوں کا کوئی عمل دخل تھا ہی نہیں۔ تری پورہ کے جن مسلمانوں پر حملے ہوئے ہیں وہ اس صلاحیت کے ہیں بھی نہیں کہ وہ ان شرپسندوں کا مقابلہ کرسکیں۔ لیکن وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے شرپسندوں نے ان کمزوروں کے ساتھ ساتھ ان کی عبادتگاہوں پر بھی حملے کئے۔ وشو ہندو پریشد کے مقامی ذمہ داروں نے کہا ہے کہ ریلی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
بی بی سی کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق ‘پانی ساگر’ میں 3500 لوگوں نے ریلی نکالی۔ بجرنگ دل کے لیڈر نراین داس نے الزام لگایا کہ ایک مسجد کے آگے لوگوں نے ان پرتلواریں لہرائیں اور انہیں دھمکیاں دیں۔ بی بی سی نے آگے لکھا ہے کہ اس الزام کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ یعنی یہ ایک مضحکہ خیز الزام ہے۔ آخر تری پورہ کے پانی ساگر کے علاقہ میں کون سی مسجد ہوگی جس میں اتنے لوگ آجائیں جو 3500 شرپسندوں کا مقابلہ کرسکیں۔ پھر شرپسندوں کی یہ ممنوعہ ریلی بنگلہ دیش کے واقعات کے خلاف تھی جس سے تری پورہ کے مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں، تو آخر یہ شرپسند مسجد کے آگے سے گزرے ہی کیوں؟ پولیس کے اجازت نہ دینے کے باوجود وہ وہاں گئے ہی کیوں؟
تری پورہ کی سڑکوں پر ہاتھوں میں تیر وتفنگ اور لاٹھی ڈنڈے لئے ہوئے سینکڑوں لوگوں کی ایک ویڈیو بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہے جس میں نعرہ لگایا جارہا ہے کہ ” تری پورہ میں ملا گیری نہیں چلے گی ”۔ اس ویڈیو میں کچھ ایسے اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے جارہے ہیں جن کو نقل کرنے کی ہمارے اندر سکت نہیں ہے۔پولیس نے کہا کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر افواہ اڑا رہے ہیں اور ہم ریاست میں 150 مسجدوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ افواہ ہے تو اتنی مسجدوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے زیر اقتدار تری پورہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ پوری طرح ملک کے سامنے نہیں آرہا ہے۔
صحافی بیکچ چودھری کہتے ہیں کہ تری پورہ میں اس سے پہلے کبھی بھی بنگلہ دیش کی فرقہ وارانہ کشمکش کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پھر یہ کون لوگ ہیں جو بنگلہ دیش کے واقعات کا انتقام تری پورہ کے بے قصور اور غریب مسلمانوں سے لینا چاہتے ہیں؟ یہ دراصل بنگلہ دیش کے ہندو پناہ گزین ہیں جو عرصہ سے تری پورہ میں آباد ہیں۔ تری پورہ کے تین طرف بنگلہ دیش کی سرحدیں ہیں جبکہ چوتھی جانب ایک ہلکی سی راہداری آسام سے ملتی ہے۔
تری پورہ کی کل 42 لاکھ کی آبادی میں70 فیصد بنگالی ہیں۔ ان میں83 فیصد یعنی 30 لاکھ 63 ہزار 903 ہندو ہیں جن میں 14 لاکھ بنگلہ دیشی ہیں۔ مسلمان ساڑھے آٹھ فیصد یعنی تین لاکھ 16ہزار 42 ہیں۔ اس کے علاوہ عیسائی ایک لاکھ 59 ہزار 882 اور بدھشٹ ایک لاکھ 25 ہزار 385 ہیں۔ ہندووں کی 83 فیصد تعداد میں 6 لاکھ قبائلی بھی شامل ہیں جو 14 لاکھ بنگلہ دیشیوں کے سخت مخالف بلکہ ‘جانی دشمن’ ہیں۔اس اعتبار سے بنگلہ دیشی پناہ گزین ہندو ہی تری پورہ میں اکثریت میں ہیں۔ قبائلی ان بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ‘غیر ملکی’ کہتے ہیں اور انہیں باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ تری پورہ میں باہر سے آکر بس جانے والوں کی جائز حد 1949 کو مانا جائے۔
تری پورہ کی 54 سالہ سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ نکتہ سامنے آیا کہ یہ قبائلی بنیادی طور پر کانگریس کے حامی رہے ہیں۔ ان قبائلیوں کے نوجوانوں کی الگ تنظیم ‘تری پورہ اپجاتی جوبا سمیتی ‘ ہے۔ 1988 میں اس نے کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا جس میں اس اتحاد کو 60 میں سے 31سیٹیں ملی تھیں۔ اتحاد کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد سے یہ قبائلی مسلسل کوشش کرتے رہے کہ بائیں بازو کی حکومت کو برخاست کردیا جائے۔ اب یہاں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس اپنی بنیادیں مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
انڈیا ٹوڈے کے صحافی سمت مترا کی وہ رپورٹ پڑھنے کے لایق ہے جو انہوں نے پہلی بار 15جولائی 1980 کو لکھی تھی۔ اس کے بعد یہ رپورٹ 22 جنوری 2014 کو ‘اپڈیٹ’ کی گئی تھی۔اس رپورٹ میں 8 جون 1980 کو تری پورہ میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کی تفصیلات درج ہیں۔ یہ فسادات بڑے بھیانک تھے۔ اس رپورٹ کا اختصار یہ ہے کہ 14 لاکھ بنگلہ دیشی ہندو پناہ گزینوں نے’ 6 لاکھ قبائلی آبادی پردہشت مچا رکھی ہے۔۔ یہ پناہ گزین ان قبائلیوں پر سماجی زیادتیاں کرتے ہیں۔ تری پورہ میں دو دہائیوں سے زیادہ مدت تک انہی بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے سہارے بایاں بازو حکومت کرتا رہا۔ یہ پناہ گزین ہندو’ عیسائی مشنری سے بھی ‘لڑتے بھڑتے’ رہتے ہیں۔ 6 جون 1980 کو انہوں نے 20 قبائلی لڑکوں کو قتل کردیا تھا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور قبائلیوں نے تری پورہ کی راجدھانی اگر تلہ سے 30 کلو میٹر دور مندھائی کے 600 خاندانوں پر مشتمل ایک پورے گائوں کو آگ لگادی اورڈھائی سو لوگوں کو قتل کردیا۔ اس وقت کے کمیونسٹ وزیر اعلی نرپن چکرورتی نے کہا تھا کہ یہ نسلی قتل عام ہے۔
تری پورہ کی پوری سیاسی اور سماجی تاریخ میں ایسا کوئی ایک بڑا واقعہ نہیں ملتا کہ جس کی بنیاد پر یہ شک بھی کیا جاسکے کہ وہاں کے مسلمان کبھی بنگلہ دیشی پناہ گزین ہندوؤں یا قبائلیوں کے نشانہ پر تھے۔۔ پھر اچانک یہ کیا ہوا؟ اس کا کچھ جواب انڈین ایکسپریس کی ایشا رائے کی اس رپورٹ سے ملتا ہے جو اس نے یہاں بی جے پی کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد 26 جون 2018 کو لکھی تھی۔’
“تری پورہ کو کیسے جیتا گیا” کے عنوان سے تحریر اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2014 میں تری پورہ میں آر ایس ایس کی کل 60 شاکھائیں تھیں جبکہ آج ان کی تعداد 265 ہوگئی ہے۔ ایشا رائے نے بتایا تھا کہ شمال مشرق کی ریاستوں کو ‘فتح’ کرنے کیلئے تری پورہ کی فتح آر ایس ایس کے عظیم منصوبہ کا حصہ تھی۔ 25 نومبر کو تری پورہ میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ فروری 2023 تک وہاں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔
تری پورہ کے اس قضیہ کو آج ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔اب تری پورہ سے بڑا خطرہ اتر پردیش کا ہے۔ وہاں فروری 2022 میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ تری پورہ سے ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ سشمتا دیو نے بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر تری پورہ کے حالات خراب کر رہی ہے۔
یوپی میں بھی اس کے واضح آثار نظر آنے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یتی نرسمہانند جیسے تشدد پسند’ زبان دراز اور مکروہ صفت افراد کو چھوٹ دے رکھی ہے، ورنہ مسلمانوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟ ہندووں کی اکثریت امن پسند اور انصاف پسند ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے مذہبی اداروں پر یتی جیسے کھلےشرپسندوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ آخر اسے جونا گڑھ اکھاڑے کا مہامنڈلیشور بنانے کا کیا جوازتھا؟ مجھے یاد نہیں کہ پچھلے 40-45 برسوں میں کسی نے اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف ایسی جارحانہ ہرزہ سرائی کی ہو اور ہندوؤں نے اسے مہامنڈلیشور بنادیا ہو۔ اب تو خود یوپی پولیس ہی اس سے عاجز آگئی ہے۔ پولیس نے اس کے خلاف غنڈہ ایکٹ کے تحت کارروائی کا اشارہ دیا ہے لیکن وہ افسروں اور یوپی حکومت کو ہی چیلنج کر رہا ہے اور اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اعلی افسروں کو برا بھلا کہتے وقت بھی وہ مسلمانوں کو نہیں بھولتا۔ ایسے میں خود احتیاطی کی سب سے بڑی ذمے داری مسلمانوں کے ہی سر آ پڑی ہے۔