پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
اکیسویں صدی کے آغاز میں انتہائی برق رفتاری کے ساتھ ترقی کرنے والا ترکی ان دنوں سنگین حالات کا سامنا کررہا ہے، اندرونی اور بیرونی سازشوں کے نرغے میں پھنس گیا ہے، چو طرفہ مسائل سے دوچار ہے، معیشت کی صورت حال بگڑنے لگی ہے، ملک میں امن و سلامتی کا مسئلہ بھی ایک چیلنج کی شکل اختیار کرچکا ہے، اندورن خانہ سازشوں کا جال بچھنے لگا ہے، دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے سورش زدہ ملک کی فہرست میں ترکی کا شمار کیا جانے لگا، مجموعی صورت حال کا جائزہ لینے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بڑھتے قدم پر اچانک کسی نے بریک لگادی ہے، مسلم دنیا کے ایک نئے صلاح الدین ایوبی کو اس کے مشن سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ان کے راستوں میں کانٹے بچھائے جارہے ہیں اور عالم اسلام میں طلوع ہونے والی امید کی نئی کرن کو معدوم کر نے کی منظم منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
عالمی بینک کی رپوٹ کے مطابق ترکی کے جی ڈی پی کی شرح میں گرواٹ آگئی ہے، 2013 میں جی ڈی پی کی شرح 823 بلین ڈالر تھی جب کہ 2016 میں یہ 600 تک پر پہونچ گئی ہے، کرنسی کی قیمت بھی کم ہوگئی ہے، 2002 میں ایک ڈالر 1-67 لیرا کے برابر تھا آج ایک ڈالر 3.78 ڈالر کے مساوی ہوگیا ہے، ماہرین معاشیات کا اندازہ کا ہے ترکی کی معیشت پر قابو پانا فی الحال مشکل ہوگا۔ مسلسل ہونے والے حملے نے عالمی سطح پر ترکی کو بہت بدنام کردیا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہاں بھی امن و سلامتی کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ سال 2016 ترکی کیلئے بہت ہی خطرناک ثابت ہوا ہے، بارہ بڑے دہشت گرادانہ حملے ہوئے جس سے ملک افرا تفری کا شکار ہوگیا ہے، سینکڑوں اموات ہوئی ہے، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، 15 جولائی 2016 میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد حالات اور زیادہ مخدوش ہوگئے ہیں، پاکستان کی طرح مسلسل بم دھماکے، خودکش اٹیک اور دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں، ان چیزوں نے بھی ترکی کی معیشت کو بہت کمزور کیا ہے، سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بہت کم ہو گیا ہے اور ٹورزم سیکٹر مکمل طور پر خسارے میں ہے، گوگل پر موجود ایک رپوٹ کے مطابق اپریل 2016 سے دسمبر 2016 کے درمیان ترکی میں سیاحوں کی آمد کے سلسلے میں 28 فیصد کی کمی واقع ہوئی، ترکی کی معیشت میں 6 فیصد کی شراکت سیاحت کی ہے۔مہاجرین کی کھل کر امداد بھی ترکی کی معیشت پر اثر انداز ہوئی ہے ،اس وقت تقریباً 50 لاکھ شامی مہاجرین کو ترکی نے پناہ دے رکھی ہے جنہیں مکمل سہولیات حاصل ہے اور مہاجرین کو تمام ضروریات زندگی مہیا کرائی جاتی ہیں۔ ترک مہاجرین کے گھروں میں فیرز، ٹی وی سمیت تمام چیزیں دستیاب کرائی گئی ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک تجزیاتی رپوٹ کے مطابق ترکی کے موجودہ حالات اسی طرح ہوگئے ہیں جس طرح کا حالات کا سامنا امریکہ نے نائن الیون حملہ کے بعد کیا تھا۔
ترکی کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جس نے اتنہائی کم وقتوں میں ترقی کرکے عالمی سطح پر سپر پاور طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس کا پورا سہرا ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کو جاتا ہے کیوں کہ اس سے قبل معاشی سطح پر بھی ترکی کی حالت بہت زیادہ خراب تھی۔ وکی پیڈیا پر موجود ایک مضمون کے مطابق رجب طیب اردگان نے حکومت سنبھالی تو 2002 سے 2012 کے درمیان ترکی کے جی ڈی پی میں 64 فیصد اضافہ ہوا، انفرادی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح میں 43 فیصد کی بڑھوتری ہوئی۔ اردگان کے 2002 میں اقتدار سنبھالتے وقت ترکی کو بھی آئی ایم ایف نے اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور ترکی 5۔23 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ اردگان نے حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی سازشوں میں نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید قرضہ لینے سے انکار کردیا اور پرانا قرضہ ادا کرنا شروع کردیا۔ 2012 میں یہ قرضہ صرف 9۔0 بلین ڈالر رہ گیا تھا۔ جس کی ادائیگی کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کے قرضہ ادا کردینے کا اعلان کردیا گیا اور اسی سال طیب اردگان نے اعلان کیا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرضہ درکار ہو تو وہ ترکی سے رجوع کرسکتا ہے۔ 2002 میں ترکش سینٹرل بینک کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر 5۔26 ملین ڈالر تھے جو 2011 میں بڑھ کر 2۔92 بلین ڈالر ہوچکے تھے اور ان میں کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اسی طرح ترکی میں طیب اردگان کے حکومت سنبھالنے کے بعد صرف ایک سال میں ہی مہنگائی میں 23 فیصد کمی ہوئی جس سے ترک عوام کو براہِ راست فائدہ ہوا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد میں 26 تھی جو اب بڑھ کر 50 ہوچکی ہے۔ 2002 سے 2011 کے درمیان ترکی میں 13500 کلو میٹر طویل ایکسپریس وے تعمیر کی گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کے ٹھیکے اپنے رشتہ داروں یا پارٹی رہنماؤں کو دینے کے بجائے کے میرٹ پر بین الاقوامی سطح پر اچھی شہرت کے حامل اداروں کو دئے گئے۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی بار تیز ترین ریلوے ٹریک بچھایا گیا اور 2009 میں تیز ترین ٹرین ترکی میں متعارف کرائی گئی۔ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے ان 8 سالوں کے دوران تیز رفتار ٹرین کے لئے 1076 کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا گیا جب کہ 5449 کلو میٹر طویل ٹریک کی مرمت کرکے اسے تیز ترین ٹرین کے معیار کے مطابق بنایا گیا۔ اردگان نے عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے شعبۂ صحت میں بڑے پیمانے پر کام کیا۔ گرین کارڈ پروگرام متعارف کرایا گیا جس کے تحت غریب افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ صحت کی طرح تعلیم کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور تعلیم کا بجٹ 2002 میں 5۔7 بلین لیرا سے بڑھانا شروع کیا اور 2011 میں تعلیمی بجٹ 34 بلین لیرا تک پہنچا دیا۔ قومی بجٹ کا بڑا حصہ وزارت تعلیم کو دیا گیا اور قومی جامعات کا بجٹ ڈبل کردیا گیا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں جامعات کی تعداد 86 تھیں۔ اردگان حکومت نے ملک میں جامعات کا جال بچھایا اور 2012 تک ترکی میں 186معیاری جامعات تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ ترکی معیشت کا اندازا صرف اس نقطہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1996میں ایک ڈالر ، 222 لیرا تھا جب کہ اردگان حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے بعد 2015 میں ایک ڈالر 94۔2 لیرا کا ہوتا تھا۔
مختصر سی مدت میں کامیابی کی عظیم منزلی طے کرنے والے ترکی کیلئے موجودہ حالات سازگار نہیں ہیں، رجب طیب اردگان کو عالمی اور قومی سطح پر مختلف مسائل کا سامناہے، معیشت پر قابو پانے کے ساتھ دہشت گردانہ حملوں کو روکنا اور باغیوں پر قابو پانا سب سے بڑا چیلنج ہے، ترکی میں قیام پذیر معروف اسکالر مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب کی ایک آڈیو بھی ان دنوں وہاٹس ایپ پر گردش کررہی ہے جس میں وہ کہ رہے ہیں کہ ’’ترکی معیشت کی صورت حال بہت بدتر ہوگئی ہے، ترک قوم کو بے پناہ مدد کی ضرورت ہے۔ مہاجرین سے زیادہ انصار تعاون کے محتاج ہیں، حقوقی انسانی کی کوئی بھی تنظیم وہاں کام نہیں کررہی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کا کوئی ادارہ ترکی کی مدد کررہا ہے، طیب اردگان کو صرف پچاس فیصد عوام کا تعاون حاصل ہے، نصف آبادی اردگان اور ان کی پالیسی کے خلاف ہے ‘‘۔
طیب اردگان کا یہ جذبہ قابل رشک اور پوری مسلم قیادت کیلئے نمونہ کی حیثیت رکھتاہے کہ وہ بادِ مخالف سے گھبرائے بغیر ایک مردآہن کی طر ح محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں، انتہائی حکمت عملی کے ساتھ حکمرانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، دشمنوں کی چالوں پر مسلسل ان کی نگاہ ہے اور ترکی سمیت پوری ملت اسلامیہ کو ان کا کھویا ہوا قار واپس دلانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ الجزیرہ چینل کے سروے میں طیب اردگان کو 2016 کی سب سے پسندیدہ شخصیت قرار دیا جانا ان کی مقبولیت کی اور ایک دلیل ہے اور پوری دنیا کے مسلمان امید بھری نگاہوں سے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
stqasmi@gmail.com