ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

عبید الکبیر
ہندستان کی علمی تاریخ میں جن خانوادوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان ہی میں سے ایک کنبہ معروف اہل قلم ،مفسر اور قدیم و جدید علوم کے رمز شناس مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ کا خانوادہ بھی ہے۔ آپ کے گھرانے میں متعدد ایسی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں جنھوں نے تصنیف وتالیف اور تدریس کے ذریعہ قوم کی فکری قیادت کا فریضہ انجام دیا ۔مولانا دریابادی کے علاوہ جن ارباب دانش کی بنا پر قدوائی خانوادے کو عظمت کا مقام حاصل ہوا ان میں ان کے بھائی جناب عبد المجید مرحوم اور ان کے فرزند ڈاکٹر ہاشم قدوائی صاحب کا نام شامل ہےجن کا انتقال 10 جنوری کو دہلی میں ہوا ۔موخر الذکر کا مولانا مرحوم سے مصاحرت کا رشتہ بھی رہا ہے ۔ڈاکٹر ہاشمؒ قدوائی ایک بالغ نظر سیاسی مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مدرس اور کردار ساز معلم تھے ۔ان کی عظمت کا ادراک کرنے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ بھارت کے موجودہ نائب صدر جناب حامد انصاری صاحب کو ان سے شرف تلمذ حاصل ہے ۔اس کے علاوہ آپ کے تلامذہ بے شمار مدرس محقق اور دانشور حضرات کی ایک طویل فہرست پر مشتمل ہے۔فکر کا تعمق ،مطالعہ کی وسعت اور علم وتحقیق سے قلبی لگاو آپ کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی وفات جہانِ دانش اور علم وتحقیق کے میدان سے وابستہ حضرات کے لئے ایک عظیم سانحہ ہے۔موصوف کی پیدائش 1924 کو لکھنو میں اسی علمی اور مذہبی خانوادے میں ہوئی جس کی علمی اور فکری خدمات ہمارے لئے گراں قدر سرمایہ ہے۔اسی علم پرور ماحول میں پروان چھڑتے ہوئے آپ نے گورمنٹ ہائی اسکول سیتاپور سے میٹرک کیا اور بعد ازاں کرسچن کالج لکھنو سے انٹر تک تعلیم حاصل کی۔پھر آپ نے بی اے ،ایم اے اور اس کے بعد علوم سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لکھنو یونیورسٹی سے حاصل کی۔ موصوف ایک انتہائی وسیع المطالعہ شخصیت کے مالک تھے خصوصاً سیاست اور ریاست کے باب میں آپ کوبڑا درک حاصل تھا ۔ ان کے تبحر علمی کے پیش نظر انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے پی ، ایچ ، ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔
آپ کی حیات مستعار کا کم وبیش ایک تہائی حصہ تدریس کے لئے وقف تھا ،1948 سے لیکر قریب تین دہائیوں تک آپ علی گڑھ میں گراں قدر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور یہ سلسلہ 1942 میں آپ کی علالت کے باعث ختم ہوا۔سیاسیات پر گہری بصیرت آپ کا خاص امتیاز تھا ،آپ 1984 سے 90 تک پارلیامنٹ کی ایوان بالا کے رکن بھی رہے۔
علی گڑھ سے ان کی وابستگی کی داستان بہت سبق آموز دلچسپ اور ناقابل فراموش ہے ۔مختلف موضوعات اور معرکۃ الآرا ء مسائل پر انھوں قابل قدر کتابیں فراہم کی ہیں ۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے زمانہ قیام کے دوران آپ نے طلبہ ، اساتذہ ،کارکنان اور تدریسی و انتظامی عملہ کے ساتھ بہر صورت تعاون کیا ۔ بہت سی خوش گوار یادیں ان کے اس دور سے وابستہ ہیں ۔وہ قول وعمل دونوں میں یکساں خلوص کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔اے ،ایم ، یو کا اقلیتی کردار ہو یا بھارت کے مسلم کش فسادات اور بابری مسجد کی شہادت کا الم ناک سانحہ ملت سے وابستہ ان تمام مسائل کا درد وہ اپنے سینے میں رکھتے تھے اور اس کے لئے انھوں نے حتی المقدور سعی بھی کی۔ڈاکٹر ہاشم قدوائی صاحب کی شخصیت اور احوال کا احاطہ ایک مضمون میں نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے لوح وقلم کو بڑی وسیع کارگاہ درکار ہے تاہم ان کی زندگی کے ایک اہم گوشے کی جانب اشارہ کرنا مناسب معلوم ہو تا ہے جس سے ان کی شخصیت کے خدّوخال بہت نکھر کر سامنے آتےہیں۔شہرت اور بلندی کے اعلی مراتب پر فائز ہونے کے باوجود وہ ایک انتہائی متواضع شخصیت رکھتے تھے ۔اپنی پیرانہ سالی ضعف اور جسمانی عوارض کے باوجود ان کے معمولات قابل رشک تھے ۔بہت چھوٹے چھوٹے مسائل پر وہ اس قدر دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے جس سے لوگوں کو حوصلہ ملتا تھا ۔مجھے ذاتی طور پر ان کے اس کرم نوازی کا تجربہ ہے ۔آج سے ٹھیک ایک سال قبل میرا ایک مضمون بعنوان ‘آزادی نسواں کا عبرت ناک انجام ‘ متعدد اردو اخبارات بشمول روزنامہ ہندستان ایکسپریس دہلی کے کالم’ مجلس عام’ میں شائع ہوا تھا ۔اس پرمرحوم ڈاکٹر صاحب نے ‘ایک گراں قدر مراسلہ ‘ کے عنوان سے حوصلہ افزائی کے چند کلمات سپرد قلم کیے جس میں مضمون کی اہمیت کے حوالے سے یہ الفاظ بھی شامل تھے”اس مراسلے کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے”۔اس نوشتے کو پڑھ کر میں خوشی ، حیرت اور شکر وسپاس کی جس کیفیت سے دوچار ہوا اسے بس محسوس کیا جاسکتا ہے الفاظ اس کا بوجھ نہیں سہار سکتے ۔مرحوم کا مراسلہ میرے لئے سعادت مندی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبہ دلداری کا غماز تھا ۔ زندگی کی 95 بہاریں دیکھنے والے ایک نحیف ولاغر آدمی کا اخبارات کو اس نظر سے پڑھنا پھر قلم کے مسافروں کی حوصلہ افزائی کرنا بلا شبہ ایک قابل تقلید مثال ہے۔علم ومطالعہ اور حالات حاضرہ سے ایسی دلچسپی شاید کہیں اور دیکھنے کو نہ ملے۔ڈاکٹر صاحب ہماری علمی ،فکری اور تہذیبی روایات کا زندہ نمونہ تھے اللہ غریق رحمت کرے اور سبھی سوگواران کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ان کے جانے سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ،ایسی نابغہ روزگار ہستیاں خال خال پیدا ہوا کرتی ہیں ۔ان کے سینے میں اسلاف کی پاکیزہ روایات اور عزم وعمل کی امانتیں محفوظ تھیں ،انھوں نے ماقبل آزادی کا دور بھی دیکھا اور اس کے بعد تقریباً ستر سالوں تک ملک اور قوم کو اپنے فیضان سے گراں بار کرتے رہے۔ بلاشبہ ان کی زندگی موجودہ اورآنے والی نسلوں کے لئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے جس سے ہم سب کو استفادہ کرنا چاہئے۔ان کی موت نے ایک بے باک مدبر ،ایک بالغ نظر مفکر ،ایک عظیم تبصرہ نگار اور نقادنیز علم وتحقیق کی سلطنت کے ایک بے تاج بادشاہ کی بساط سمیٹ دی ہے۔ قحط الرجال کے اس دور میں آپ کی ذات ایک ایسی شمع فروزاں تھی جو سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلتی رہی اور اپنے گرد وپیش کو منور کرتی رہی۔آج یہ شمع گو بظاہر بجھ گئی ہے مگر اس کی کرنیں آئندہ منزل کی ڈگر پانے کے لئے معاون ہوں گی ۔

SHARE