ایک شام اللہ والوں کی صحبت میں

ریاض: 22 فروری بروز ہفتہ بعد نماز عشاء مولانا ہارون صاحب کے گھر پہ ایک عشائیہ پروگرام رکھایا گیا۔ مولانا ابراہیم صاحب (ہند نژاد اور افریقن نیشنل) کی مکہ سے ریاض تشریف آوری کے موقع سے یہ تقریب منعقد کی گئی۔ آنجناب ، مولانا مفتی محمود الحسن صاحب کے شاگرد اور خادم خاص رہے ہیں۔ ان کے استقبال میں یہ عشائیہ پروگرام رکھا گیا۔

نماز کے بعد مولانا ہارون صاحب کے قصر میں حاضر ہوا ۔ عمدہ قالین بچھے ہوئے تھے۔ یہاں مولانا انعام صاحب قاسمی صدر لجنہ علمیہ پہلے سے تشریف فرما تھے ۔ طبیعت کی خرابی کے باوجود اول اول تشریف لائے ۔ ان کے داہنی جانب میں مفتی منصور صاحب قاسمی براجمان تھے ۔ مفتی منصور کے پہلو میں ایک اور صاحب موجود تھے۔ شیروانی اور پلی دار ٹوپی سر پر رکھتے تھے۔ پہلی بار ان کا دیدار ہو رہا تھا۔ ان سے سلام کلام کے بعد معلوم ہوا کہ آن جناب کا اسم گرامی مولانا مرسلین ندوی ہے ۔ اوکھلا میں ایک اسکول کے کرتا دھرتا ہیں ۔

تھوڑی دیر بعد مولانا ہاشم صاحب تشریف لائے ۔ ان کی معیت میں اور کئی شخصیات تھیں ۔ ایک دبلے پتلے عمر دراز میانہ قد ، خوبصورت اور معصوم چہرہ والی ایک نئی شخصیت بھی ان کے ساتھ حاضر تھی اور مجلس کے نور کو بڑھا رہی تھی۔ ان کو پہلی بار دیکھا ۔ حضرت سے سلام و مصافحہ ہوا ، انہوں نے اپنا تعارف کرایا ۔ یہ مولانا ارشد صاحب اعظمی تھے ۔ انہوں 32 سال تک مکہ مکرمہ میں بسلسلہ ملازمت گذارے ہیں۔ یہ سعودی عرب کی وزارت اعلام میں خدمات انجام دیتے تھے۔ اب گذشتہ دو سال سے 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہو چکے ہیں اور پنے وطن مئو لوٹ گئے ہیں ۔ فی الحال اپنے بڑے صاحب زادے انظر کے پاس ویزٹ ویزا پر تشریف لائے ہوئے ہیں ۔

ان حضرات کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی اور موسم بڑا خوش گوار تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے بھینی بھینی سرد ہوا کے لمس کے ساتھ ان قیمتی شخصیات کے ساتھ گرم گرم چای کا دور ماحول کو مزید پر کشش بنا رہا تھا۔

چالیس پینتالیس منٹ کے بعد ایک اور جماعت تشریف فرما ہوئی۔ حاضرین ان کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ معلوم ہوا کہ مہمان معظم و مکرم حضرت مولانا ابراہیم صاحب تشریف لا چکے ہیں جن کے استقبال میں یہ با برکت مجلس منعقد کی گئی ہے۔ دراز قد، پھریرا جسم، چہرہ نورانی اور پر کشش، پر سکون چہرہ، نہ ہنسی نہ تناؤ۔ حاضرین ان سے سلام و مصافحہ کے لئے کھڑے ہو گئے ۔ حضرت والا خود ہی آگے بڑھ کر سلام و مصافحہ کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک اور شخصیت تھی۔ مولانا محمود الحسن راجستھانی ممبر شوری دار العلوم دیوبند ۔ یہ حضرات تشریف فرما ہوئے، کچھ دیر کے بعد مولانا عبد الباری صاحب بھی تشریف لائے۔ مولانا ہارون صاحب نے مہمان معظم اور حاضرین سے ان کا تعارف کرایا۔

تھوڑے وقفے بعد قاری ولی اللہ صاحب بھی آگئے پھر مولانا محفوظ صاحب بھی آگئے۔ مولانا محفوظ کو اناؤنسری کے لئے کہا گیا۔ مولانا محفوظ صاحب نے قاری ولی اللہ صاحب سے کلام پاک کی تلاوت کے لئے درخواست کی۔

قاری ولی اللہ صاحب نے سورہ حشر

کی آخری تین آیات تلاوت فرمائیں۔ قاری صاحب کی آواز ما شاء اللہ۔ پیرانہ سالی کے باوجود آواز اب بھی بلند اور بالکل صاف اور واضح ہے۔ مخارج و صفات بخوبی ادا ہو رہے ہیں۔

تلاوت کلام پاک کے بعد مولانا ہاشم صاحب کو آپ صلی اللہ کی شان اقدس میں اشعار پیش کرنے کے لئے کہا گیا۔ مولانا نے اپنی خوبصرت اور مترنم آواز میں بڑے عمدہ اور با معنی اشعار پڑھے۔

السلام السلام انبیاء کے امام

کہ عرش والے نے بھیجا تمہیں فرش پر

اور پھر خیر مقدم کیا عرش پر

میرے آقا ہو تم کتنے عالی مقام

السلام السلام انبیاء کے امام

سارا ماحول خوشبو میں بسنے لگے

آسمانوں سے رحمت برسنے لگے

آپ کا جب بھی ہونٹو پی آجائے نام

السلام السلام انبیاء کے امام

تم سے بڑھ کر خدا کے سوا کون ہے

تم سے افضل بھلا دوسرا کون ہے

بن تمہارے کلمہ بھی ہے نا تمام

السلام السلام انبیاء کے امام

زندگی کو تو روشن تمہی نے کیا

ورنہ کیا تھا یہاں ظلمتو‍ کےسوا

ہو تم ہی تو نبوت کے ماہ تمام

السلام السلام انبیاء کے امام

اپنی بخشش کو کافی ہے خیر البشر

آپ محشر میں اتنا کہہ دیں اگر

میرے رب یہ تو سارے ہیں میرے غلام

السلام السلام انبیاء کے امام

جب تجھے حاضری کی اجازت ملے

جب تجھے ساتھ اذن زیارت ملے

جاکے روضے پر کہنا بصد احترام

السلام السلام انبیاء کے امام

عرش والے نے بھیجا تمہیں فرش پر

اور پھر خیر مقدم کیا عرش پر

میرے آقا ہو تم کتنے عالی مقام

السلام السلام انبیاء کے امام

اس رات کی اندھیری میں پیار و محبتِ رسول کے اشعار نے روح کو منور کر دیا ۔

تلاوت کلام پاک اور نعت رسول کے بعد مولانا محفوظ صاحب نے کھڑے ہو کر مہمان خصوصی اور چیف گیسٹ مولنا ابراہم صاحب کو دعوت سخن دی کہ آں جناب اپنی نصائح غالیہ اور پند عالیہ سے ہم سب کو مستفید فرمائیں اور حضرت اپنا تفصیلی تعارف بھی بیان فرمائیں ۔

کرسی لائی گئی اور حضرت نے بیان شروع فرمایا ۔ انداز مشفقانہ پر اطمینان اور ٹھہراؤ ۔ آواز متواضع۔ حضرت نے فرمایا کہ علماء کا مجمع ہے، آپ کے سامنے بڑوں کی کچھ باتیں عرض کر دیتے ہیں ۔

اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک فکر اور مشن کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ فکر اپنے صحابہ میں منتقل فرمائی تھی۔

ہماری زندگی کا مقصد ہے حقوق پہچاننا اور اس کو ادا کرنا۔ علم کے ذریعہ حقوق پہچانے جاتے ہیں کہ کس کا کیا حق ہے؟ ماں باپ کا کیا حق ہے؟ پڑوسی کا حق ہے؟ رشتہ دار کا کیا حق ہے؟ جب ہم حقوق ادا کرتے ہیں تو پھر جھگڑا نہیں ہوتا ۔ اسی طرح امت کا مقصد ہے ایک دوسرے کو نصیحت کرنے والے بنیں ۔ اپنی فکر کریں اور دوسروں کو نصیحت کرتے رہیں ۔ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب سے کسی نے دریافت کیا کہ دیکھنے کے لئے ایک ہی آنکھ کافی ہے تو اللہ نے دو آنکھ کیوں بنائی؟ حضرت نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ایک آنکھ اپنا عیب دیکھنے لئے اور دوسری آنکھ دوسرے کی خوبی دیکھنے کے لئے۔ آدمی کیسا بھی ہو اس کے اندر کوئی تو خوبی ہو گی؟ حضرت نے فرمایا کہ ہر جگہ ارتداد ہے، امریکہ کے علماء کی جماعت افریقہ تشریف لائی ، انہوں کارگذاری سنائی کہ 45 علماء و حفاظ مرتد ہو چکے ہیں ۔ اس ارتداد کی روک تھام کے لئے ہم نے جگہ جگہ مکاتب قائم کئے اور ان کے سوالات لئے اور ان کے تشفی بخش جواب دیئے، اس طرح ارتداد رک گیا۔ ایک مولانا صاحب مدرسہ میں پڑھا رہے تھے ، وہ مستورات کی جماعت میں چلے گئے، ان کے ایک شناسا ملنے کے لئے آئے تو معلوم ہوا کہ وہ جماعت میں گئے ہوئے ہیں ، وہ بڑے ناراض کہ آپ تو مدرسہ میں پڑھاتے ہیں آپ کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ان صاحب نے جواب دیا کہ ہم نے لوگوں کو دین سکھایا ، نماز ، دعا و ضو وغیرہ سکھلا یا ۔

حضرت نے فرمایا کہ آج امریکہ میں بسے عرب لوگ ہندوستان و پاکستان کے علماء کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ لوگوں کی صحیح رہنمائی فرمائی۔

ہم لوگ تجارت کے لئے یہاں مقیم ہو گئے، اپنے علماء سے ہم لوگوں نے مسئلہ پوچھا کہ کتابیہ سے نکاح جائز ہے انہوں نے کہا جائز ہے۔ ہم نے مسئلہ پوچھا کہ کتابی کا ذبیحہ جائز ہے؟ فرمایا کہ جائز ہے۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نسلیں مرتد ہو چکی ہیں ، حالاں کہ بعض ان میں آل رسول ہیں۔

حضرت نے فرمایا کہ حضرت مفتی صاحب فرماتے کہ کامیابی کے دو اصول ہیں ؛ نمبر ایک منصوبہ بندی اور نمبر دو وقت کی قدردانی۔ جو منصوبہ بناتا ہے اور پھر وقت دیتا ہے تو ترقی کرتا چلاجاتا ہے۔ جیسے اللہ نے پانج وقت نماز فرض کی، ہم اس کے لئے وقت دیتے ہیں تو نماز ادا ہو جاتی ہے۔ آگے رمضان آ رہا ہے، اس کو وصول کرنے کے لئے ہم منصوبہ اور وقت بنائیں ۔ حضرت مفتی صاحب کے پاس رمضان میں اعتکاف کے لئے بہت لوگ تشریف لاتے ۔ رمضان گذار کر چلاتے ، مفتی صاحب سب کو خط لکھتے اور پوچھتے کہ آپ نے کتنا قرآن پڑھا ؟ ادھر سے جواب ملتا کوئی کہتا پانچ ( ختم) کوئی چھ۔ ایک صاحب نے لکھا کہ میں نے 62 قرآن ختم کیا۔ وہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کا خط تھا۔ دن میں رات میں تراویح میں اور تہجد میں قرآن پڑھتے۔ حضرت مولانا نے ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک تاجر تھا۔ اس نے 29 رمضان تک قرآن مکمل کر لیا۔ چاند نظر نہیں آیا تو رمضان 30 کا ہو گیا۔ ان کو فکر لاحق ہوئی کہ قرآن کو کیسے ختم کریں؟

ان کا لڑکا حافظ قرآن تھا، اس نے رای دی کہ اللہ کا نام لے کر شروع کردیں، انہوں نے شروع کر دیا ۔ قرآن پڑھتے گئے ، رات میں دن میں یہاں تک کہ افطار سے پہلے پہلے قرآن مکمل ہو گیا۔ حضرت نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ دن میں ایک قرآن پڑھتے اور رات میں ایک۔ حضرات امام شافعی دن میں ایک قرآن پڑھتے اور رات میں ایک۔ ہم بھی منصوبہ بندی کرکے رمضان کو وصول کریں۔ حضرت نے فرمایا کہ حضرت شیخ فرماتے تھے کہ اللہ نے مسلمانوں ایک بہت عظیم تحفہ دیا ہے اور وہ ہے “ تصور آخرت” ، ہم جو بھی کام کریں آخرت کے لئے کریں ۔

حضرت کی بات مکمل ہو گئی تو آپ نے مولانا محمود صاحب سے فرمایا کہ باقی آپ پورا کردیں ۔ چنانچہ مولانا محمود صاحب نے بیان شروع فرمایا ۔ ان کا انداز خطیبانہ اور آواز بلند ۔ انہوں نے حمد و صلاة کے بعد علامہ اقبال کے ایک مشہور شعر سے بیان کا آغاز فرمایا۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔۔۔

حضرت نے فرمایا کہ ہم اپنے اکابر کی سوانح پڑھیں تو ہم کو ایک خاص بات ملے گی۔ وہ فکر ہم میں بھی پیدا ہوگی۔ انہوں فرمایا کہ مولاناقاسم صاحب 6 روپئے ماہوار پر پڑھاتے تھے۔ بھاولپور کے نواب کو پتہ چلا تو اس نے ایک عالیشان مدرسہ تعمیر کروایا ۔ اس وقت ہندوستان ابھی تقسیم نہیں ہواتھا ۔ اس نواب نے مولانا قاسم صاحب کو اپنے مدرسہ میں پڑھانے کے لئے بلایا اور تنخواہ 200 مقرر کی۔ حضرت مولانا قاسم صاحب نے جواب دیا ک میری تنخواہ چھ روپیہ ماہوار ہے، تین روپیہ میں گھر کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اور تین روپیہ نادار طلبہ پر خرچ کردیتا ہوں ۔ اب اگر تنخواہ دو سو ہو جائے تو 197 روپیہ میں کہاں خرچ کروں گا؟ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں مستحق کو تلاش کرتا پھروں۔ اسی طرح قاری ولی اللہ ڈونگری ممبئی والے ، وہ ایک مسجد میں امام تھے۔ چند روپیہ ماہوار لیتے تھے۔ ایک بار ساؤتھ افریقہ کچھ لوگ آئے ، ان کے پیچھے نماز پڑھی ۔ ان کو قراءة بہت پسند آئی، انہون پیشکس کی کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لائیں ، ویزے اور دیگر کاغذات کی کارروائی ہم پوری کریں گے۔ آپ کو اول وہلہ میں 4000 روپیہ تنخواہ دی جائے گی۔ قاری صاحب نے جواب دیا کہ ہم نے یہ سیکھا ہے کہ جس مصلے پر امامت شروع کی اسی پر ہمارا جنازہ اٹھے۔

مولانا نے فرمایا کہ ہم اپنے تعلقات کو اپنے اکابر اور اساتذہ سے مضبوط رکھیں ۔ ان کی سوانح کو پڑھیں ۔ آج علماء میں بھی ارتداد کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اکابر کی سوانح کو پڑھا نہیں اور نہ ہی ان سے تعلقات کو مضبوط رکھا۔ آج دلی جیسے شہر میں بعض قاسمی علماء چند پیسوں کے عوض میں غیروں کو معلومات اور انفارمیشن مہیا کراتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ کبھی کسی کو حقارت سے نہیں دیکھنا ، اس کے فعل کو برا سمجھنا لیکن اس کو حقیر مت سمجھنا ۔ ایک واقعہ سنایا کہ ہم لوگ کشمیر میں تھے کہ ایک عالم سے ملاقات ہوئی ، وہ عیسائی بن گئے تھے۔ ان سے بات چیت ہوئی پھر واپس دین پر آگئے اور توبہ کرلی۔ انہوں واقعہ سنایا کہ جب میں عیسائی ہوا تھا تو میرے ایک دوست نے میرے۔ چہرے پر تھوک دیا تھا۔ میں نے چہرہ ہاتھ سے صاف کیا اور عہد کیا کہ اس کو بھی عیسائیت کی طرف لاؤں گا۔ میں نے ایک عیسائی لڑکی کو تیار کیا اور اس کو سمجھا دیا کہ یہ شخص فلاں مسجد کا امام ہے اور فجر اور عصر بعد مسجد کے باہر بیٹھتا ہے۔ تم روزانہ عصر بعد اور فجر وہاں سے گذرنا۔ چنانچہ وہ لڑکی روزانہ صبح شام وہاں سے گذرتی، ہای ہلو شروع ہو گیا ، ہاتھ سے اشارے بھی ہونے لگے۔ پھر نمبر بھی شئیر ہوگئے۔ شادی تک بات پہنچ گئی۔ لڑکی نے بتایا کہ آپ کو فلاں دفتر سے رجوع کرنا پڑے گا۔ پھر اس کو کریڈٹ کارڈ بھی دلا دیا۔ اور آج یہ عالم ،لکھنؤ میں عیسائیت کی تبلیغ کر رہا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ کسی کو اس کی گناہ پر عار مت دلانا ورنہ موت نہیں آئے گی جب تک اس گناہ میں خود مبتلا نہ ہو جائے۔

پھر مولانا نے بتایا کہ ہمارے اکابر کے ایک ایک جملوں بڑی بڑی حکمتیں اور نصیحتیں مضمر ہوتی ہیں ۔ ایک شخص نے حضرت تھانوی کو خط لکھا کہ میں پینٹ شرٹ پہنتا ہوں، کلین شیو ہوں ، ٹائی لگاتا ہوں ، آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت نے جواب دیا کہ آپ نے اپنی جو ہیئت لکھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ظاہری گناہ میں مبتلا ہیں اور میں یہاں باطنی گناہ مبتلا ہوں ، ایک گناہ گار کا دوسرے گناہ گار سے ملنے میں کوئی حرج نہیں ۔ بات گذر گئی۔ چھ ماہ بعد وہ شخص تشریف لایا ۔ لباس سنت والا چہرہ با شرع، حضرت نے فرمایا کہ آپ نے تو ہیئت کچھ اور بتلائی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے خط نے مجھے متاثر کیا۔

ایک اور واقعہ سنایا کہ حضرت رای پوری کے ایک مرید نے خط لکھا کہ میں سعودی عرب جانا چاہتا ہوں، یہاں بہت تنگی ہے۔ حضرت نے منع نہیں فرمایا بلکہ خط میں لکھا کہ سعودی کے اللہ سے میرا سلام عرض کر دینا۔ اس جواب کو پڑھ کر مرید نے ارادہ ملتوی کر دیا۔

مولانا نے فرمایا کہ رمضان میں بیس رکعت کو لازم پکڑو۔

مولانا نے فرمایا کہ آپ لوگوں کا یہاں جمع ہونا صرف جمع ہونا نہیں ہے، یہ بہت اہم بات ہے، اس سے ایک دوسرے کے حال احوال معلوم ہوتے ہیں۔ آپ لوگ اس ملاقات میں کسی اکابر کی کوئی کتاب دس پندرہ منٹ پڑھ لیا کریں ، یہ بہت مفید رہے گا۔

اس کے بعد حضرت مولانا نے مہمان خصوصی حضرت مولانا ابراہیم صاحب کے بارے میں بتایا۔ آنجناب ، مفتی محمود صاحب کے خادم خاص رہے ہیں۔ آپ نے مسلسل 22 سال ان کی خدمت کی ہے اور صحبت سے فیض اٹھا یا ہے۔ آپ جمیعت علماء افریقہ کے صدر بھی ہیں۔ ان کا یہاں آنا کسی دنیوی کام کے لئے نہیں ؛ بلکہ صرف اور صرف دین کی محنت کے لئے تشریف لائے ہیں۔

اس پر مغز بیان کے بعد ، سرپرست لجنہ علمیہ مولانا عبد الباری صاحب نے کچھ دیر بات کی۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم دار العلوم سے تعلقات بنائے رکھنا چاہتے ہیں ؛ لیکن ادارے کی طرف سے بڑی سرد مہری ہے، کوئی جواب نہیں ملتا۔ جب ہم مصر میں تھے ، بہت کوشش کی کہ کسی طرح شہادہ کے سلسلے میں معادلہ ہو جائے ، بہت سر پیٹا لیکن کبھی کوئی جواب نہیں ملا۔ میرا مشورہ ہے کہ ایک علاقات عامہ پبلک ریلیشن کے لئے ایک پڑھا لکھا آدمی متعین کیا جائے، جو عربی، انگلش وغیرہ جانتا ہو۔ جامعہ سے عربی مجلہ الداعی اور اردو مجلہ ترجمان دار العلوم دونوں اب نہیں آ رہے ہیں ۔ میں نے عارف جمیل صاحب سے بات رکھی تو فرمایا کہ عنوان غلط ہو گیا ہوگا۔ میں نے کہا میرا 45 سال سے وہی عنوان اور پتہ ، ٹیلی فون نمبر بھی وہی ہے، جواب دیا کہ وہ ڈیجیٹل موجود ہے ، وہاں سے ڈاؤن لوڈ کر لیا کریں ۔

میری گذارش ہے کہ دونوں مجلے کو اور بہتر بنایا جائے اور ہم لوگوں کو ارسال کیا جائے۔ ہم اس کا زر اشتراک ادا کریں گے۔ مولنا نے فرمایا کہ میں نے سب کی طرف سے بات رکھ دی ہے، کسی کو اور کچھ کہنا ہو تو آکر کہے۔

مولانا عبد الباری صاحب کی گفتگو کے بعد صدر لجنہ علمیہ مولانا انعام الحق صاحب اٹھے اور اپنی بات رکھی۔ مولانا نے مختصرا لجنہ علمیہ کے قیام اور اس کے آغاز پر روشنی ڈالی، اس کے مقصد اور کار کردگی کو پیش کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ کچھ ماہ قبل مولنا ارشد مدنی صاحب تشریف لائے تھے، ہم نے انکے سامنے سوال رکھا کہ ہم لوگوں نے کچھ رقم جمع کی ہے، نادار طلبہ کے لئے تقسیم ہوجائے۔ حضرت نے فرمایا کہ کون نادار کون نہیں تعیین بہت مشکل ہے۔ اس پر مولانا محمود صاحب نے فرمایا کہ حضرت کے لئے مشکل ہے کہ ان کے پاس مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔ آپ یہ رقم دار الاہتمام کو بھیجوا دیں ۔

اس کے بعد حضرت مولانا ابراہیم صاحب نے دعا فرمائی ۔ دعا کے بعد دستر خوان لگایا گیا۔ بریانی، قورمہ مع لوازمات ۔ خوب مزے سے لوگوں نے تناول فرمایا۔

اللہ تعالیٰ مولانا ہارون صاحب اور تمام ذمہ داران کو اس بابرکت تقریب اور مہمان نوازی کا جزائے خیر عطا فرمائے۔

محمد شاہد

لجنه علميه رياض ، مملكت سعودي عرب

23 فروری ، بروز اتوار ، بعد نماز ظہر

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com