ملت ٹائمز (ایجنسیاں :م ش ناظمی)
بحرین میں تین شیعہ شہریوں کو تین پولیس اہل کاروں پر حملے اور قتل کے جرم میں دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔ان تینوں افراد پر مارچ 2014ء میں ایک بم حملے میں تین پولیس اہل کاروں کو ہلاک کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔گزشتہ چھ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ بحرین میں کسی مجرم کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز ان اطلاعات پر کہ ان افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کر دیا جائے گا، متعدد مقامات پر مظاہرے بھی کیے گئے۔اس سے ایک ماہ قبل جولائی میں بحرین کی ایک عدالت نے پانچ شیعہ افراد کو دہشت گردی کے جرم میں سزائے قید سناتے ہوئے ان کی شہریت منسوخ کر دی تھی۔ شیعہ تنظیموں کے مطابق سُنی حکومت ملکی اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔بحرین کے وزارئے استغاثہ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ان میں سے تین ملزمان کا تعلق المختار بریگیڈ نامی شیعہ گروپ سے تھا، جب کہ ان کے قبضے سے ممکنہ دہشت گردانہ حملوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد کیا گیا تھا۔ ان ملزمان پر یہ الزام بھی تھا کہ یہ پولیس پر حملے کرنا چاہتے تھے۔ جاری ہونے والے بیان کے مطابق ایک فوج داری عدالت نے ان تینوں افراد کو پندرہ پندرہ برس قید کی سزائیں سنائی تھیں جب کہ ان کی شہریت بھی منسوخ کر دی گئی الوفاق ملکی پارلیمان کا سب سے بڑا بلاک تھا تاہم 2011ء میں ہونے والے مظاہروں کو حکومت کی طرف سے کچلے جانے پر بہ طور احتجاج اس بلاک کے ارکانِ پارلیمان نے استعفے دے دیے تھے۔ واشنگٹن کی طرف سے مظاہرین کے خلاف اُس کریک ڈاؤن کو الارمنگ قرار دیا گیا تھا۔گزشتہ برس ہی ایک اپیل کورٹ نے الوفاق کے سربراہ علی سلمان کو تشدد بھڑکانے کے الزام میں دی جانے والی چار سالہ سزائے قید میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا تھا۔بحرین کے اتحادی امریکا کی طرف سے اصلاحات اور مصالحت کے لیے متعدد مرتبہ درخواست کے باوجود بحرین نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران اعلیٰ شیعہ شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا ہے۔ گزشتہ برس 20 جون کو بحرین حکومت کی طرف سے ملک کے اعلیٰ ترین شیعہ رہنما شیخ عیسیٰ قاسم کی شہریت منسوخ کردی گئی تھی۔ اس فیصلے کے بعد نہ صرف اس رہنما کے آبائی گاؤں دیراز میں احتجاج کیا گیا بلکہ ایران کی طرف سے بھی بحرین کے اس فیصلے کی مذمت کی گئی۔